گلگت بلتستان کے دلخراش حالات پرایک عمیق نظر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سہ ماہی نصرة الاسلام کے دوسرے شمارے کے لئے جو گزارشات کرنے کا ارادہ تھا وہ گلگت بلتستان کے موجودہ دلخراش حالات کی وجہ سے اوجھل ہوگئے۔اس شہر کی رونقیں اور سکون آئے روز دگرگوں حالات کی وجہ سے ختم ہوتی جارہی ہیں ۔ شہر کی بدآمنی اور افراتفری نے ہر ذی شعور آدمی کو پریشان کر رکھا ہے۔گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ علاقہ فرقہ وارانہ فسادات اور کشیدگی کی زد میں ہے، اس کی بنیادی وجوہ، ایک ایک حادثہ اور نت نئے رسومات و خطبات پر بحث کرنے اورتہ تک پہنچنے کے لئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے۔

ایک عرض کرنا ضروری ہے کہ اہلسنت والجماعت نے ہمیشہ دفاعی پوزیشن اختیا ر کی ہوئی ہے ، اہلسنت اس علاقے کی پہلی اکثریتی آبادی پر مشتمل ہونے کے باوجود ہمیشہ عالمی سازشوں، مخصوص بڑی قوتوں کے سامنے سد راہ بننے کی وجہ سے مشکلات سے دو چار رہے ہیں۔ اہلسنت کو ہمیشہ دینی تعلیمات، اسلاف کی دی ہوئی روش جس کے باعث صبر و تحمل کی عادت اور مملکت خداداد پاکستان کا استحکام ہر وقت عزیز رہا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اہلسنت کے اس وسعت ظرفی کو کمزوری سے تعبیر کیاگیا۔ کبھی علاقے میں اہلسنت کی اقلیت کو ابھارا گیا۔ گو علاقے کی مخصوص مذہبی، سیاسی داؤ و پیچ، اس کے لئے مخصوص قوتوں کی بھی کوشش یہ رہی کہ اہلسنت کسی طرح کمزور ہوں۔استعماری قوتوں نے سستے مول پر میر جعفر و میر صادق جیسے لوگوں کو پیدا کرنے کی کوشش بھی مسلسل جاری رکھی جو نہایت مذموم اور علاقے کے لئے زہر قاتل سے کم نہیں۔

الحمد للہ! دھرتی عزیز کے غیور مسلمانوں نے ہرگونہ حالات کا ہمت ، بہادی اور ایثار و قربانی کے ساتھ مقابلہ کیا اور انہیں راست فکر ان کے اکابر علماء و مشائخ سے ملی۔ ان اکابر علماء کو مشکل حالات میں ڈٹ جانے کا عملی سبق مشائخ دیوبند سے ورثے میں ملا، آج بھی ان کے نام لیواؤں پر مصائب کے پہاڑ توڑ دئے جاتے ہیں مگر وہ استقامت اور صبر کے پیکر بنے کھڑے ہیں۔سخت ترین حالات میں بھی ہمت و حوصلہ رکھنے کی توفیق مل رہی ہے۔ الحمدللہ علی ذالک

اس خطے میں بعض لوگوں کے ذہنی تکبر اور اقتدار کی ہوس نے مسائل و فسادات خوب پید ا کیے ہیں۔٢٠٠٥ء کے بعد پیدا ہونے والے حالات سے علاقے میں امن پسند اور حالات سے پریشان فریقین کے ذمہ دار، ذی فہم و دانش، سیاسی، علمی، سماجی خدمات کی صلاحیت رکھنے والے علمائ،وکلاء اور عمائدین نے مل بیٹھ کر اٹھارہ اٹھارہ افراد پر مشتمل فریقین کی چھتیس رکنی گرینڈ امن جرگہ تشکیل دیا ۔ اس وقت کے گلگت اسمبلی کے اسپیکر اس کے چیئر مین مقرر ہوئے،سول اور فوجی انتظامیہ بھی باقاعدہ نگرانی کرتی رہی تاکہ خوش اسلوبی سے ایک امن معاہدے پر متفق ہو جائیں اور بد امنی ، انتشار، افراتفری اور ظلم و ستم کا خاتمہ ہو جائے، چنانچہ سولہ نکات پر مشتمل امن معاہدہ تشکیل پایا گیا۔ امن جرگے کے اراکین اور فریقین کے دستخط ثبت ہوئے، مزید اس کی توثیق کے لئے علاقے کے قریہ قریہ ،گاؤں گاؤں میں اس امن معاہدے کو اجتماعات میں سنایا گیا اور تائید حاصل کی گئی۔فریقین کی قیادت کو اڈیالہ جیل میں پڑھ کر سنایا گیا اور فریقین نے تسلیم کرکے توثیقی دستخط ثبت کیئے ، اس امن معاہدے کے ایک ایک صفحے پر چیف سیکریٹری گلگت بلتستان نے بھی دستخط کر دئے۔٢٠٠٦ء میں گلگت کی قانون ساز اسمبلی نے اس معاہدے کو قرارداد کے ذریعے قانونی حیثیت دی، اس وقت کے صدر پاکستان اور وزیراعظم نے بھی اس کی توثیق کی۔ مگر افسوس صد افسوس ایک فریق نے اس متفقہ معاہدے پر عمل کرنے سے پہلو تہی کی بلکہ دھجیاں اڑانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھا اور اس کے خلاف ورزی کرنے میں صف اول کا کردار ادا کیا، گلگت کی انتظامیہ گذشتہ کئی سالوں سے بے بسی کے دن گزار رہی ہے، سمجھ دار طبقہ،سیاست دان، وکلائ، صحافی حضرات اور امن پسند تمام طبقات اس امن معاہدے پر عمل در آمد ضروری سمجھتے ہیں مگر چند مخصوص شر پسند عناصر کے سامنے گلگت کی جمہوری حکومت، انتظامیہ اور دیگر ارباب بست وکشاد بے بس کھڑے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ بے گناہوں کا خون مسلسل بہ رہا ہے ،لوگوں کے گھرجلائے جارہے، سر عام نقاب پوش ٹارگٹ کلنگ میں مصروف ہیں، بے گناہوں کا جان لینا شیوہ عام بن چکا ہے، خود حکومت کے ذمہ دار طبقہ بھی ان شر پسند عناصر سے محفوظ نہیں ہیں پولیس کے آئی جی سخی اللہ ترین اور انسداد دہشت گردی کے جج محمد جمشید تک کو شہید کردیا گیا۔ صرف یہ نہیں کہ ان کو بے دردی سے شہید کردیا گیا بلکہ دکھ اس بات کا ہے کہ آج تک نہ ان کے قاتلوں کوگرفتار کیا گیا اور نہ ہی پس پردہ عناصر کو بے نقاب کرکے قرار واقعی سزا دی گئی ۔اس افراتفری میں غریبوں اور مسافروں کا کوئی پرسان حال ہی نہیں۔ گلگت پولیس حکومتی ہونے سے زیادہ مسلکی ہے۔ درجنوں مجرموں کو جیل اور تھانوں سے فرار کروانا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اور سینکڑوں قاتل سرراہ گھوم رہے ہیں مگر پولیس اتنی جانبداری کا مظاہرہ کررہی ہے کہ ان کو پکڑنے کی کوشش کریں۔

حالیہ دنوں میں موجودگلگت اسمبلی میں گلگت کے دگرگوں حالات پر ان کیمرہ سیشن ہوا جس میں عام مہمانوں اور صحافیوں کے داخلے پر پابندی عائد کی گئی، حساس اداروں نے بریفنگ دی۔ کھلے دل سے بحث و مباحثہ کے بعد متفقہ طور پر طے پایا گیا اور قرار داد پاس کی گئی گرینڈ امن جرگے کے معاہدے پر عمل ضروری ہے مگر اس کے باوجود اس پر عمل درآمد نہ کرنے کی وجہ ایک طبقے کی طرف سے مسلسل بد آمنی اور شدت امیز رویہ ہے اور اس بدامنی کی تما م تر ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے اور موجودہ نام نہاد جمہوری و عوامی حکومت او ر انتظامیہ بھی اس گناہ کبیر میں برابر کی شریک ہے جو حکومتی رِٹ قائم کرنے اور امن معاہدہ پر عمل پیر ا کروانے سے مسلسل پہلو تہی کررہی ہے۔پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا اور گلگت بلتستان کے عوام اس بات پر شاہد ہیں کہ اہل سنت نے ہمیشہ امن معاہدے پر سختی سے عمل درآمد کا مطالبہ کیا ہے اور اہل سنّت نے امن کے حوالے سے اور امن معاہدے پر عمل کرنے میں اپنا کردار بھی ادا کیا ہے اور امن اور علاقے کی سلامتی کی خاطر فریق ثانی کے مظالم اور حکومت کی یک طرفہ گاڑی چلانے والی روش کو بھی برداشت کیا ہے اور جو بھی اقدام کیا ہے وہ آئینی اور قانونی و اخلاقی حدود میں رہ کر کیا ہے۔ان سطور کے توسط سے ارباب اقتدار بالخصوص فریق ثانی کے امن پسند طبقات کو احساس دلانا ہے کہ بہر صورت امن معاہدہ پرعمل درآمد کے لئے راہ پیدا کر کے اور شہر کو دانستہ بدآمنی کی طرف دھکیلنے والوں کا راستہ روکیں۔٢٠٠٥ء سے اب تک سینکڑوں بے گناہ لوگوں کے خون کے ذمہ دار یہ مخصوص گروہ مزید انسانی خون سے ہاتھ رنگین کرنے کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کررہا۔گذشتہ ایام میں عبدا لحکیم، محمد طاہر، اسکندر حیات، عبد الوکیل، رضوان اللہ ،عباد الرحمان کو جس بے دردی سے شہید کیا گیا اور محمد صابر اور JUI کے سیکریٹری جنرل منہاج الدین کو دن دہاڑے اندھا دھند گولیوں کا نشانہ بنا کر شدید زخمی کردیا گیا، ڈائیریکٹر ہیلتھ جناب ڈاکٹر شیر ولی، ڈائریکٹر زراعت جناب عبد الواحد اور گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں کو گئی دوسری لاشوں کو دیکھ کر خوف محسوس ہوتا ہے اور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ابھی تک نہ کسی کا قاتل گرفتار ہوا نہ کسی مجرم کو سزا دی گئی ۔ہم انہیں سطور کے ذریعے ارباب حل و عقد اور جملہ سیاسی و انتظامی ذمہ داروں اور صاحب فکر و نظر شخصیات کو دعوت فکر دیتے ہیں کہ وہ آگے بڑھیں اور قیام امن اور علاقائی متشوش حالات اور علاقائی ترقی و تعمیر کے لئے اپنا کردار ادا کریں اور فریق ثانی بھی اخلاقی جرأت کامظاہرہ کریں اور رواداری کا ثبوت دیں۔عاشورہ محرم کا جلوس خزانہ روڈ اور شہید ملت روڈ سے گزارے تو شہر میں بد آمنی کی بیخ کنی ہوگی۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ کوئی اپنی آزادی کا نام دے کر دوسروں کے حدود و آزادی کو پامال کریں ۔ دنیا کا کوئی قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ آپ اپنی مذہبی آزادی اور خوشی کی خاطر دوسروں کے حدود پامال کرو اور اور آزادی اور مذہبی رسومات کا نام دیکر پورے معاشرے میں ہل چل مچایا جائے۔ انتہائی سطحی اور گری ہوئی نظر سے دیکھا جائے تو انسانی سرگرمیوں پر ہر قسم کی حدود اور پابندیوں کی عدم موجودگی کا نام آزادی کہلاتا ہے مگرایک مہذب اور منظم معاشرے میں ایسی بے راہ روی اور بے قید آزادی کا پایا جانا ناممکن ہے۔یہ بات پتھر پر لکیر ہے کہ ایک منظم اور مہذب و شائستہ معاشرے میںہمیشہ سے ایسے قواعد و ضوابط اور اصول و قوانین موجود ہوتے ہیں جو آزادی کی ضمانت دینے کے ساتھ ساتھ چند قیود بھی قائم کردیتے ہیں۔لاریب کہ آزادی سے مراد ایسے امور و اعمال کرنے کی آزادی ہے کہ جس میں دوسروں کے مفادات اور جذبات کو گزند اور ٹھیس نہ پہنچے۔ یعنی آزادی حقوق و فرائض کے مجموعے کا نام ہے۔حقوق و فرائض لازم و ملزم ہیں۔فرائض چاہیے اخلاقی ہو یا قانونی ہمیں ان کا مکمل پاس رکھنا چاہیے اور ان میں کوتا ہی سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے لہذا ہمیں اس روش اور اس طرح کے مذہبی رسومات کی آدائیگی سے پرہیز کرنا چاہیے جو دوسروںکی دل آزاری اور نقصان کا سبب بن رہے ہوں۔ اگر ہم قانون کا احترام، دوسروں کی آزادی کا احترام، اور دوسروں کی دل آزاری سے گریز کا عملی ثبوت دیں تو انشاء اللہ ایک خوشگوار ماحول کا آغاز ہو گا اور یہ سب کے لئے نیگ شگون ہوگا۔ اہلسنت بھی اپنی ذمہ داری بطریق احسن بجا لائی گی۔

٢٨ فروری کو ہونے والی حادثہ کوہستان کی ہر انسان نے مذمت کی ہے اور تنظیم اہلسنّت والجماعت اور اہل سنّت برادری نے بھی نہ صرف اس واقعہ کی مذمت کی ہے بلکہ انہوں نے مجرموں کی گرفتاری کے لئے ہردستہ اول کا کردار ادا کررہے ہیں۔ عمائدین دیامر حکومت کے ساتھ ہر ممکن تعاون کے لئے تیار ہیں مگر افسوس اس کا جواب مخصوص عناصر آئمہ ثلاثہ پر تبرا بازی اور اہل سنت کو گالم گلوچ کی شکل پر دے رہے ہیں اور اہل سنّت علماء و عمائدین کے خلاف بازاری زبان استعما ل کی جارہی ہے اور اس مملکت خداداد پاکستان کے خلاف ریلیاں نکالی گئی ، مردہ باد کے نعرے لگائے گئے اور دشمن ملک انڈیا کی طرف مارچ کیا گیا۔ہم حکومت سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ خلفائے ثلاثہ کے خلاف غلیظ زبان کا استعمال،ہسپتال والی مسجد کی بے حرمتی،آگ لگائے جانے اور قرآن کریم کی بے حرمتی اور جلائے جانے اور انڈیا کی طرف لانگ مارچ کرنے اور مملکت پاکستان کے خلاف نعرے بازی اور امن کو تاراج کرنے والوں کو فی الفور گرفتار کرکے قرار واقعی سزادی جائے۔پاک فوج اور اس کے ذیلی اداروں کو بھی اس امر کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لینا چاہئے کہ ان گھناؤنے اعمال میں کون ملوث ہے۔

تعزیت کے نام پر سینکڑوں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا جلوس، پھر اہلسنت اور صحابہ کرام کے خلاف نعرے بازی کرنے والوں کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کے بجائے مقامی حکومت اور وزیر داخلہ کا دو دفعہ ان کو نوازنے کے لئے گلگت میں وارد ہونا کیا معنی رکھتا ہے؟۔ او ر پھر اہلسنت اور عمائدین دیامر کو بلا کر پھر ان کی وزیر داخلہ سے ملاقات نہ کروانا اور مقامی حکومت کا گلگت بلتستان کے حوالے سے وفاقی حکومت کو گمراہ کرنا اور ہر وہ پالیسی اپنانا جو اہل سنت کے لئے سم قاتل ہو کیا معنی رکھتا ہے اور کیا اس طرح کے جانبدارانہ رویوں سے امن و آمان ممکن ہے اور صبر کرنے والوں کو دیوار سے لگا کر بدمعاشی کرنے والوں کے ساتھ نرمی بھرتی جائے، کیا یہی انداز حکمرانی ہوتی ہے ۔ کم سے کم ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔اور وزیر داخلہ اپنے اختیارات سے بالاتر اعلانات کرتے رہے اور بد قسمتی سے ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔
تنظیم اہل سنت و الجماعت نے یہ واضح کیا ہے کہ اگر مملکت خداداد پاکستان میں رائج نصاب سے چھیڑا گیا ، خلفائے ثلاثہ کے کارناموں اور ان کی شان و عظمت پر انگلی اُٹھائی گئی تو اہلسنت سیسہ پلائی دیوار بن جائے گی۔ اور اس بین الاقوامی صیہونی سازش کو ناکام بنایا جائے گا اور اہل سنت سمجھتے ہیں کہ اس حوالے سے کسی بھی قسم کا نوٹیفیکشن اس خطے کو آگ اور خون کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہوگا، لہذا ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے گریز کیا جانا چاہیے۔

گلگت بلتستان کی بد آمنی کی ایک وجہ ایک طبقے کے بعض مخصوص عناصر کا ذہنی تکبر اور فرقہ واریت کے ذریعے اقتدار کے حصول کی روش ہے۔ ان عادی مجرموں کو اس شہر کا امن قبول نہیں اور و ہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے انسانیت کش اقدامات پر مسلسل عمل پیرا ہیں اور کرپٹ حکومت بھی ان کو لگام دینے سے قاصر ہے بلکہ ان کی پشت پنا ہی کر رہی ہے، ایسے میں امن و آمان کا خواب شرمندہ تعبیر کیسے ہو سکتاہے۔یہ بات سب پر عیا ں ہے کہ انسان فطرتی طور پر امن پسند ہے تاہم وہ ردعمل کے طور پر جنگجو بھی بن جاتاہے۔ آج کے دور میں یہ ناممکن ہے کہ آپ کسی کے منہ پر تھپڑ ماریں اور وہ جواب میں پھول برسائے۔ کون ذی شعور اس بات سے انکار کریگا کہ گزشتہ کئی سالوں سے اہل سنّت عوام کو دیوار سے لگائی جانے کی پالیسی اعلی طبقوں سے لیکر ادنیٰ اداروں تک عروج پر ہے، اور اس کے جواب میں اہل سنّت سے محبت و روداری کا مظاہرہ کرنے کو کہا جارہا ہے، پہلے خود محبت و رواداری کا ثبوت تو دیں اور ظلم و ستم سے تو باز آجائیں پھر دیکھیں کہ اہل سنّت کا رویہ کیسا ہوتا ہے۔ ہمیشہ سے نفرت کی لکیریں کھینچنے میں پہل کس نے کی ہے؟ اپنی الگ ٹرانسپورٹ کا بنیاد کس نے ڈالا ہے؟، بے بنیاد احتجاجی مظاہرے اور ہڑتالیں کس نے شروع کی ہیں اور حکومتی املاک کو نقصان پہچانا اور پولیس اور رینجرز پر فائرنگ ہمیشہ کون کرتا آرہا ہے؟، پر امن مظاہرین پر فائرنگ، دستی بموں سے حملہ، عام مسافروں کو اتار کر شناختی کارڈ چیک کرکے بے دردی سے قتل کرنے کا رواج کس نے ڈالا ہے؟ اور پھراپنی مسلک کے علاوہ دوسروں سے کاروباری بائیکاٹ کا کس نے ابتداء کی ہیں؟، ہر جائز ناجائز مطالبہ کر کے حکومت کو مفلوج او ر حکومتی رٹ کو کس نے چیلنج کیا ہے؟، تمام عدالتی اور انتظامی فیصلوں پر اثر انداز ہونا اور ان کے کام میں بے جا دخل دینا اور اعلی حکومتی عہدہ داروں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں،لوکل اور نان لوکل کا نعرہ، سٹیٹ سجیکٹ رول کے نفاذ کا مطالبہ کس نے کیا ہے؟موقع بے موقع اسلحہ کی نمائش کا رواج کس نے ڈالا ہے؟ گڈز ٹرکوں کو کس نے لوٹا ہے اور ہنزہ نگر اور بلتستان روڈ میں گڈز ٹرک اور آئل ٹینکروں کے ڈرائیوروں کے ساتھ ظلم و زیادتی اور ان کی قیمتی املاک کو نقصان پہنچانا نے جیسے مکروہ رویات کا بنیاد کس نے ڈالا ہے؟ ان جیسے بے شمار سوالات ہیں جوجواب کے لئے تشنہ لب ہیں ۔کیا یہ تمام چیزیں بہت کلیر اور واضح نہیں ہیں؟ اگر کوئی غیر جانبدار فورم تفتیش کریں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔

گلگت بلتستان کے عوام اکیسوی صدی میں بھی آئینی حقوق سے محروم ہیں ۔ اس خطے کے مسلمانوں اور عوام الناس نے جہاد کے ذریعے آزادی حاصل کرکے پاکستان کے ساتھ غیر مشروط الحاق کیا ۔ حکومت پاکستان نے تا استصواب رائے ان علاقوں کو بین الاقوامی قرار دادوں پر کشمیر کی طرح متنازعہ تسلیم کیا۔ اس خطے کے عوام نے آزادی کشمیر کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں دیں ہیں لہذاان علاقوں کوو زمینی حقائق کے پیش نظر کشمیر کے ساتھ وحدت قائم رکھنا اس کا بنیادی حق ہے مگر اس بنیادی حق سے چشم پوشی کرکے اور مخصوص لوگوں کو نوازنے کے لئے دیے جانے والے پیکجز کے ذریعے چند لوٹوں کو حکمرانی دینے کی کوشش کی گئی، اس پیکجز کے ذریعے اہل سنّت عوام کو قعر مذلت میں دھکیل دیا گیا اور انکی اجتماعی آوازکو درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ اس روش سے پیشہ ور مجرموں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور وہ اقتدار میں براجمان ہوئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کرپشن عروج پر پہنچ گئی، امن اور سکون غارت ہوا، سرکاری ملازمتوں میں اہل سنّت کے لئے دروازے بند کر دیے گئے، فرقہ واریت نے جڑیں مضبوط کرلی اور تمام ادارے مفلوج ہو کر رہ گئے،گزشتہ چار سال کی تاریخ پر ہلکی سی نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ گلگت کے تمام سرکاری اداروں کا کیا برا حال ہوا ہے بالخصوص محکمہ خواراک، نیٹکو، پی ڈبلیو ڈی میں تو کرپشن کا گراف حد درجہ بڑھ گیا ہے اور یہ ادارے دیوالیہ بن کر رہ گئے ہیں۔ انتہائی عمیق اور بادی النظری سے دیکھا جائے تو یہ تما م شگوفے موجودہ حکومت اور گورننس پیکج کے بطن مبارک سے پھوٹے ہیں۔ رہی بات محکمہ صحت، تعلیم، زکواة و عشر، قانون اور داخلی امن و آمان کا تو کوئی ذی شعور آدمی ان کی نالائقی اور بے راہ روی سے نا بلد نہیں۔
کشمیر پاکستان کا شہ رگ ہے تو گلگت بلتستان کشمیر کا شہ رگ ہے۔ وفاقی حکومت کسی کے دباؤ میں آئے بغیر انصاف اور جرأت کرے کہ گلگت بلتستان اور کشمیر کی صدیوں سے قائم وحدت کو برقرار رکھتے ہوئے گلگت بلتستان و کشمیر اسمبلی و کونسل کا قیام عمل میں لائے۔اس میں دو رائے نہیں کہ کشمیری قیادت سے ہماری کافی شکایات ہیں تاہم وہ اپنی بے وفائی کا ازالہ کرتے ہوئے آئندہ تیس سال کے لئے صدارت اور وزارت علیا گلگت بلتستان کے لئے مختص کرنے پر راضی ہو کر اپنی اخلاقی ذمہ داری نبھائیں اور وفاقی حکومت گلگت بلتستان کی پسماندگی کے خاتمے کے لئے خصوصی اقدامات کریں۔

ایک بات کا اعادہ مکرر کیا جاتا ہے کہ دہشت گردی کہیں پر بھی ہو وہ مذموم عمل ہے۔ ہم نے کھبی اس کی عملاََ اور قولاََ حمایت نہیں کی ہے اور نہ آئندہ کریں گے۔ ہر فورم میں امن کی بات کی ہے اور دہشت گردی اور لاشوں کی سیاست کا مکمل بائیکاٹ کیا ہے۔ لاشوں کے تحفے گلگت سے بھیجے جائیں یا مضافات سے آئیں، کراچی سے موصول ہوں یا کسی اور شہر سے۔ بہرصورت یہ کوئی اچھی روایت نہیں ہے، ہرانسان اس کی مذمت کرتا ہے اور بھرپور مذمت کرنی چاہیے اور مجرموں کو پکڑ کر انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔ قاتل قاتل ہوتا ہے چاہیے وہ کسی بھی مکتبہ فکر سے ہو، اس پر مضبوط گرفت ہونی چاہیے اور کیفر کردار تک پہنچایا جائے لیکن ہمارے ہاں گنگا ہی الٹی بہتی ہے کہ دہشت گردوں اور قاتلوں کے ساتھ بھی نرمی کا برتاؤ کیا جاتا ہے بلکہ پولیس ان کو فرار کروانے میں معاون ہوتی ہے۔ ہم حساس اداروں اور گلگت میں کام کرنے والی خفیہ ایجنسیوں سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ اپنا کردار ادا کریں اور دہشت گردوں اور انسان دشمن عناصر کی نشاندہی کریں ۔ اور امن و آمان کو تاراج کرنے والوں کیساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹے۔
٭٭٭
آہ صد آہ!!!!!گلگت بلتستان ایک دفعہ پھر دوراہے پر کھڑا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ایک راستہ کامیابی و کامرانی ، امن و سلامتی اور اخوت و آشتی کا ہے اور ایک راستہ تباہی و بربادی، قتل و غارت اور بے کلی و بے دلی کا ہے۔راست فکر اور صحیح اقدامات سے حال و مستقبل روشن بنایا جا سکتا ہے اور منفی رجحانات، ہٹ دھڑمی، ذہنی تکبّر، شیطنیت،دجّالیت اور جذباتی نعروں اور غیر سنجیدہ تقریروں و تحریروں سے گلگت بلتستان کو آگ میں دھکیلا جا سکتا ہے اور انتشار و انارکی پھیلائی جاسکتی ہے۔ایک ایسی انارکی اور ایسا انتشار جس پر قابو پایا جانا محال ہے۔ اس میں بھی اختلاف نہیں کہ قوم کی اکثریت امن و آشتی اور سکون و سلامتی اور تعمیر و ترقی کی راہ پر چلنا چاہتی ہے۔پہاڑوں کے دیس میں بسنے والی اس قوم میں عزم مصمم بھی ہے اور یقین کامل بھی۔ عزم اور یقین و ہ قوت ہے جس کے آگے مطلق العنان حکمران، شیطان صفت جابر و ظالم،اسٹیبلشمنٹ کے کا لے بھجنگ، انسانیت کے بیوپاری اور انسانی خون پینے والے درندے اور نام نہاد عوام پسندوں کی ساحری بھی نہیں چل سکتی۔ مسلمانوں کی یہی قوت آج کے دگرگوں حالات کا دھارا اور تاریخ کا فیصلہ بدل سکتی ہے۔
٭٭٭

گلگت بلتستان میں اس وقت ایک جنگ بپا ہے۔یہ جنگ آس اور یاس کے درمیان ہے۔لوگ امید و بیم میں پھنسے ہوئے ہیں اور ان کو کوئی راہ بر نہیں مل رہا ہے جو بھنور میں پھنسی ان کی کشتی کنارے پر لگا سکے۔سچی بات یہ ہے کہ امید ، مشکلات و بحرانوں اور برے وقت میں حوصلہ عطا کرتی ہے جبکہ مایوسی زندگی کو موت کے حوالہ کردینے کا مشورہ دیتی ہے ۔خود خدا کا بھی فرمان ہے کہ لاتقنطوا من رحمة اللہ۔اس مشکل میں فتح مندی و کامرانی اُسی طبقے کو نصیب ہوگی جو سب کچھ خدا تعالی کی ذات باری سے ہونے کا یقین کامل رکھتا ہو اور عزم ایمانی کے ساتھ فیصلے کرے گا اور مشکل سے مشکل حالات سے مقابلہ اور طوفانوں اور سونامیوں کا مُنہ موڑدینے کے لیے چوکس اور کمربستہ رہے گا۔ یاد رہے کہ اہل ایمان ایک دفعہ پھر اپنی متاع کی حفاظت کے لئے تن من کی بازی لگائیں گے اور باطل کے ناپاک عزائم اور شیطانی مکر و فریب اور بدی کی قوتوں کو سرنگوں اور خس و خاشاک میں مِل جانے پر مجبور کردیںگے ۔ انشاء اللہ العزیز

گلگت بلتستان میں ایک بے سود جنگ شروع ہوچکی ہے اس بے سود جنگ کے لئے اعلی ایوانوں میں پلاننگ ہوچکی ہے اور نتیجہ بھی مرتب کیا جاچکا ہے کہ اہل سنت کو دیوار سے لگایا جائے اور ان کو پتھر کے دور میں دھکیل دیا جائے اور ان کی ہر آہ کو دبایا جائے اور انہیں سسکنے اور سسک سسک کر مرنے پر مجبور کیا جائے۔اس پر مستزاد اس بے سود جنگ میں سیاست دانوں اور مذہبی رہنماؤں کے بیانات، تقریروں، احتجاجی مظاہروں، ہڑتالوں اور مطالبوں میں شدت آچکی ہے۔مختلف مسالک اور علاقوں میں محاذ ارائی کا سلسلہ چل نکلا ہے جس کے باعث علاقائی نظم و نسق ابتری کا شکار ہے۔ شہریوں کی زندگی اجیرن بن چکی ہے جبکہ ارباب اقتدار بڑے بڑے شہروں میں عیش و طرب کے دن گزار رہے ہیں اور ان کے خوشہ چیں بھی ان کی لے میں لے ملا رہے ہیں اور کوئی اخباری بیان داغ کر سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے فرائض سے سبکدوش ہوئے۔ تضادات و اختلافات نے معاشرے کو ایک ہیجان میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ہر آدمی امن و آمان اور حالات کی ابتری سے شاکی ہے۔یوں لگتا ہے کہ گلگت بلتستان میں کوئی بڑی مصیبت آنے والی ہے۔عوام کا اپنے منتخب نمائندوں پر سے اعتماد آٹھ چکا ہے اورنام نہاد سیاسی نمائندوں کا عوام دوستی او ر گلگت بلتستان سے محبت اور امن و آمان قائم کرنے کا سارا بھرم کھل گیا ہے۔ گلگت اور اس کے مضافات کے تمالوگ موجودہ منافقت کی سیاست سے بیزاری و برأت کا اظہار کر چکے ہے ۔ عوام کوشدید احساس ہوا ہے اوریہ بات ان کی سمجھ میں آچکی ہے کہ گلگت بلتستان کی بقا سیاسی راست بازی،درست سیاسی اعمال، اچھے فیصلے ،میرٹ کی بحالی ،پولیس میں توازن، سرکاری اداروں میں علاقہ و مسلک کی بنیاد پر نہیں بلکہ صلاحیت وقابلیت کی بنیاد پر نوکریاں، انصاف گاہوں سے انصاف کشی نہیں بلکہ انصاف کی باریابی اور مذہبی لیڈروں کی وسعت ظرفی اور کشادہ دلی میں مضمر ہے مگر ہنوز یہ سب کچھ آنکھوں سے اوجھل ہے اور دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ مشکل کے ان حالات میں اجتماعی طور پراللہ تعالیٰ سے رجوع کی ضرورت ہے ۔ جب تک راتوں کو جاگ کر گِڑ گِڑا کر اللہ رب العزت کو راضی نہ کرایا جائے اور اس ذات باری سے معاف نہ کرایا جائے تب تک اس قسم کے عذاب ہمارے مقدر ہو نگے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اعمال صالحہ میں کثرت اختیار کریں اور آپس میں اتحاد و یکجہتی کا عملی مظاہرہ کریں اور ایثار و قربانی کا جذبہ پید ا کریں۔ اپنے ارادوں کو مستحکم کریں اور حالات کی سنگینی کا ادراک کریں اور ان کی بربادی و تباہی کے اسباب و علل کو سمجھنے کی کوشش کریں یعنی نوشتہ دیوار کو غور سے پڑھیں۔
٭٭٭

گلگت بلتستان میںگزشتہ دنوں خصوصیت کے ساتھ خون ناحق کی ارزانی اور جان و مال کے محافظوں کے ہاتھوں کئی معصوم اور کم عمر بچوں کی قیمتی جانوں کا ضیاع اورکئی درد ناک و خون چکاں واقعات پیش آئے۔ اور اس بربریت و سر بریت کا سلسلہ ابھی تھما اور رکا نہیں بلکہ دوآشتہ ہوا ہے اور یہ گلگت بلتستان کی تاریخ کے سیاہ ایام ہیں۔خون مسلم ارزاں ہو چکا ہے حالانکہ قتل مسلم پر بے شمار وعیدیں آئی ہیں۔رحمت دو عالم ۖ کا مبارک ارشاد ہے کہ'' قتل المؤمن اعظم عند اللہ من زوال الدنیا'' یعنی ایک مومن کا قتل اللہ کے نزدیک دنیا کے زوال سے بڑھ کر ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں سات چیزوں کو امت کی تباہی و بربادی کا ذریعہ بتلایا گیا ہے، ان میں سے ایک'' مسلمان کا خون ناحق '' ہے۔اس قسم کے بے شمار احادیث اور ارشادات نبویہ ۖ کتب حدیث میں موجود ہیں، ان کو ٹھنڈے دل و دماغ سے پڑھے اور پھر آج کل جو گلگت بلتستان میں ہورہا ہے، اس کا عمیق جائزہ لیجئے تو یقین ہو جاتا ہے کہ خاکم بدہن گلگت بلتستان کی تباہی کا وقت آگیا ہے ۔ اور یہ سب کچھ جہل مسلم اور دین سے دوری اور آپس کی ناچاکی و بے اتحادی کا نتیجہ ہے۔ اور سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ حکومت وقت اصلاح احوال اورامن و آمان قائم کرنے میں بری طرح سے ناکام ہو چکی ہے۔اس سے بھی بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ گلگت بلتستان تباہی کے کنارے آلگا ہے لیکن دِلوں کی قساوت ، لاپرواہی، غفلت،سستی اور کسالت پسندی اور احساس ذمہ داری سے بے پرواہی کی کوئی انتہا نہیں اور عبرت پکڑنے کے لئے کوئی تیار نہیں۔ دعویٰ سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر آج بھی پوری قوم یعنی حاکم و محکوم،عوام ، پولیس، فوج اور پیرو جواں اور مرد و زَن سب کے سب صدق دل سے اپنی بد کرداریوں سے توبہ کرلیں اور اپنے سابقہ جرائم کی رب الارباب، خالق ِ کائنات اور مالک دو جہاں سے معافی مانگیں اور خدافراموش اورخود فراموش طرز زندگی کو ترک کردیں اور ہر فرد چاہیے کسی بڑے سے بڑے عہدہ دار ہو یا ایک ادنیٰ آدمی ہو اپنے دائرہ اختیار و اقتدار میں ایمانداری سے اصلاح احوال کا عزم مصمم کرلے اور اپنی زندگی خدا ترسی اور انسانیت دوست والی زندگی بنالے تو کوئی بعید نہیں کہ اللہ کی مدد و نصرت اور رحمت کی بارش نہ ہو ۔لاریب کہ اس کے بعد رب ذوالجلال کی رحمت کاملہ کا نزول ہوگا اور گلگت بلتستان بھی محفوظ ہوگا اور باسیان گلگت بلتستان بھی محفوظ ہونگے۔رب رحمن سے التجا و دعا ہے کہ وہ گلگت بلتستان کی بٹکی ہوئی قوم کو راہ مستقیم دکھائیں اور توبہ و انابت کی توفیق عطا فرمائیں اور قہر الہی سے نجات دیں اور موجودہ و آئندہ کے دگرگوں حالات، بربادی و تباہی اور شقاوت سے امت مرحومہ کو مامون و محصون فرمائیں۔آمین یا رب العالمین۔
٭٭٭

٣اپریل ٢٠١٢ء کو گلگت میں اہل سنت والجماعت کے پرامن ہڑتال کی کال پرچندنوجوان اتحاد چوک کے پاس جمع ہوئے اچانک کسی انسان دشمن نے ان پر ایک دستی بم سے حملہ کیا اور ساتھ ہی امن و آمان کے رکھوالوں نے ان بے گناہ اور معصوم لوگوں پر فائرنگ کی جس کے نتیجہ میںتین بچے شہید ہوئے اور ٦٠زخمی ہوئے اور گلگت، نومل، سلطان آباد، وغیرہ میں مزید دس مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ اس کے ردعمل میںچلاس( یشوکل داس) میں ٩ بے گناہ مسافروں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور مقامی لوگوں ٣٠٠سے زائد مسافروں کو اپنی تحویل میں لے لیا اور ان کو بحفاظت گلگت پہنچایا اور باقی ماندہ لوگوں کو بالخصوص عورتوں کو اپنے گھروں میں پناہ دی مگر افسوس صد افسوس گلگت بلتستان کی جانبدارانہ میڈیا اور بالخصوص وہ میڈیائی نمائندے جو قومی اخباروں اور ٹی وی چینلوںکے لئے رپورٹنگ کررہے ہیں نے انتہائی جانبداری کا مظاہرہ کیا اور اہل سنت کے معصوم لوگ جو جان بحق ہوئے اور جوزخمی ہوئے کو مکمل نظر انداز کیا ۔اور چلاس کے مسافروں کے بارے واہ ویلا شروع کیا ۔ظلم کی انتہا تو یہ ہوئی کہ جنگ اور جیوٹی وی جیسے وسیع نیٹ ورک کے گلگت کے نمائندے نے جامعہ نصرة الاسلام کے بے گناہ طلبہ کو انتہائی دھشت گردکہا اور لکھا اور'' سنی دھشت گردوں ''جیسے الفاظ بار بار استعمال کیا۔ اور سانحہ چلاس کا ہزار بار ذکر کیا جارہا ہے ، اور ہونا بھی چاہیے مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ'' سانحہ گلگت ''کا کہی تذکرہ ہی نہ ہو، میڈیا کے نمائندے اور نام نہاد سیاسی ورکر یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ خون خون ہوتا ہے چاہیے کہیں بھی گرے۔ سانحہ سانحہ ہوتا ہے چاہیے کہیں بھی ہو۔سانحہ چلاس میں انسانی خون اور انسانیت پر بربریت نظر آنے والوں کو کیا سانحہ گلگت جہاں بم کے ذریعے سات معصوم بچوں کو شہید کیا گیا اور ٤٨ لوگوں کو شدید زخمی کیا گیا۔ اور مختلف علاقوں میں بالخصوص سلطان آباد اور نگر میں معصوم لوگوں کو قتل کرنا اور ان کی لاشیں تک مسخ کر کے تلف کرنا کسی سانحہ سے کم ہے۔ پھر میڈیا اور آمن کے علمبرداروں اور نام نہاد صحافیوں اور دانشوروں کو یہ تو نظر آرہا ہے کہ نگر سے ٣٥ افراد کو کئی دنوں کے بعد فوج نے بازیاب کروایا، مگر ان کو یہ عینک لگاکر بھی نظر نہیں آتا کہ چلاس اور گوہر آباد کے علماء اور عمائدین نے ٣٠٠ سے زائد مردوں، عورتوں اور بچوں کو اپنے گھروں میں پناہ دی اور ان کو جتنا جلد ہوسکے جگلوٹ میں لاکر گلگت انتظامیہ کو بحفاظت حوالہ کیا ۔کیا میڈیا والے آندھے تھے جو چلاس والوں کا یہ ایثار اور جذبہ ان کو نظر ہی نہیں آیا۔ عمائدین جرگہ نے بھی جب حکومت کو مطلوب افراد کو حکومت کے حوالہ کیا تو میڈیائی رویے پر انتہائی دکھ کا اظہار کیا۔انہوں نے کہاکہ جن لوگوں کو ہم حکومت کے حوالہ کرتے ہیں وہ تمام کے تمام بے گناہ ہے مگر پھر بھی امن کے لیے ہم یہ قربانی بھی دینے کے لئے تیار ہیں، کیا دوسرے علاقوں سے بھی حکومت اور پاک آرمی کے ساتھ اس طرح کا تعاون کیا جائے گا؟ ناممکن۔ اور یہ بات ریکارڈ پر رہے کہ ہنزہ نگر سے جو لوگ کئی دنوں کے بعد پاک آرمی نے بازیاب کروایا ہے نہ کہ کسی جرگہ یا عوام نے۔ اگر انہوں نے ہی حوالہ کرنا تھا تو پہلے دن ہی حوالہ کرتے، اس کا سارا کریڈیٹ اصل میں پاک آرمی کے غیور نوجوانوں کو جاتاہے جنہوںنے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر دن رات کی تگ و دو کے بعد ان کو زندہ بازیاب کروانے میں کامیاب رہے ہیں، مگر افسوس سطحی قسم کی میڈیا نے اس کا کریڈیٹ بھی کسی اور کے کھاتے میں ڈال دیا۔صحافت کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ غیرجابندار ہوتی ہے اور کیا غیر جانبداری اسی کا نام ہے؟ کیا میڈیا اسی کا نام ہے ؟ہم نے سانحہ کوہستان اور چلاس کی روز اول سے مذمت کی ہے ، او ر آئندہ بھی کرتے رہیں گے تاہم اہل سنت کے ساتھ ہونے والی یک طرفہ ظلم وستم کو بھی کسی صورت برداشت نہیں کریںگے۔کسی بھی ریاست میں پریس حالات کو بگاڑنے اور سدھارنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے اگر پریس کے نمائندے بھی جانبداری اور یک طرفہ رپورٹنگ کریںگے تو پھر کس سے گلہ کیا جاسکتاہے۔ بہرصورت میڈیا کو ایسے زہریلی سانپوں سے بچایا جانا چاہیے۔ایسی کالی بھیڑیوں کے انخلاء کے بغیر میڈیا کھبی بھی درست کردار ادا نہیں کرسکتاہے۔ میڈیا کے نمائندے بالخصوص شعبہ رپورٹنگ والوںکو انتہائی محتاط رہنا چاہیے اور خبر نگاری اور واقعہ نگاری سے کام لینا چاہیے نہ مسلکی اجارہ داری اور خواہ مخواہ کی غلط بیانی سے۔ غلط بیانی کرنے والوں کے لئے اللہ کے رسول ۖ نے سخت وعیدیں سنائی ہے اور ایسی افواہیں اور جھوٹ پر مبنی رپورٹنگ کرنے والے صحافی حضرات کو خدا تعالی کے عذاب شدید سے بچنا چاہیے۔ یاد رہے کہ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔
٭٭٭

اہلسنت والجماعت پر ہونے والے مظالم کے ازالے کے بجائے ظلم و ستم تو یہ ہوا کہ راقم الحروف(امیر تنظیم اہل سنت والجماعت گلگت بلتستان و کوہستان، رئیس جامعہ نصرة الاسلام و خطیب مرکزی جامع مسجد گلگت) اور اہل سنت کے تمام سرکردہ رہنماؤں کو گرفتار کرلیا۔ راقم الحروف کو دوماہ کے لئے گھر میں نظر بند کر کے گھرکو سب جیل قرار دیا اور درجن سے زائد پولیس اہلکار او رایک تھانیدار کو نگرانی پر مامور کیا۔تنظیم اہل سنت والجماعت گلگت بلتستان و کوہستان کی مرکزی قیادت مولانا منیر احمد صاحب، مولانافرمان ولی صاحب،مولانا جعفر صادق صاحب،مولانا عبداللہ حیدری صاحب،جناب شرافت صاحب، ریٹائرڈ میجر جناب ابرار صاحب، ٹی این اے کے امیر جناب میر باز صاحب اور دیگر بے گناہ ساتھیوں کو 16MPO کے تحت سب جیل جٹیال میں پابند سلاسل کیا اور ملاقاتوں پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ مولانا عطاء اللہ ثاقب صدر اہل سنت ضلع گلگت پہلے سے گرفتار تھے کو جوڈیشل کرکے سب جیل FC کیمپ جٹیال میں رکھا۔ چلاس سے اہلسنت کے بے گناہ علماء کرام مولانا مزمل شاہ صاحب، مولانا رضوان صاحب، مولانا محمد یاسر صاحب،قاری عبدالقیوم صاحب،شیرغازی صاحب،محمودالحسن صاحب،ظاہر شاہ صاحب،شمس الحق صاحب، عالم زیب صاحب کو انوسٹیگیشن ونگ گلگت منتقل کرکے انسداد دہشت گردی کے مقدمات قائم کئے۔ اور تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ حکومت اور جرگہ چلاس کے درمیان معاہدہ ہوا تھا کہ ان کے اوپر چلاس میں مقدمہ چلایا جائے گا تاہم حکومت اپنے کئے ہوئے معاہد ے سے انحراف کرکے ان کو گلگت لاکر ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہی ہے۔

طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اب تک فریق ثانی کی قیاد ت کو گرفتارکرنے سے انتظامیہ عاجز ہے بلکہ باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ان کو پرو ٹوکو ل کے ساتھ رکھا جارہا ہے۔

نام نہاد حکومت صوبائی حکومت کے مذموم ارادے ناکا م ہوئے جب عمائد ین چلاس اور دیامر کے علماء نے مطلوبہ افراد کو ان کے حوالہ کیا مگر افسو س بلکہ تحیر کی بات یہ ہے کہ فورسز نگر سے ناکام لوٹی ہیں۔ تین اپریل سے اٹھائیس اپریل تک گلگت میں طویل عرصہ کرفیو رہا۔ہم نے بمع احباب کے فورس کمانڈر سے اپنا مؤقف اورگزارشات عرض کی تھیں اور فورس کمانڈر سے امن و آمان کے لئے تعاون کا وعدہ ہو ا تھا جس کو ہم نے کماحقہ نبھایا۔ اس رات فورس کمانڈر کی موجودگی میںچیف سیکٹریٹری نے رابطہ کیا کہ تھلیچی کے مقام پر دیامر کے علماء کے لائے ہوئے مسافروں کو روکا گیا ہے۔راقم نے بذریعہ موبائل فون وہاں کے نوجوانوں، علماء کرام اور نگر میں مغوی سول جج آیت اللہ کے احباب و اقارب کو مطمئن کیا اور مسافروں کا راستہ خالی کروایا۔جگلوٹ میں علماء کرام سے مشاورت کے بعد راقم نے بذریعہ ٹیلی فونک بیان نوجوانوں کو راضی ومطمئن کرکے مسافروں کو بروقت گلگت پہنچانے کا انتظام کیا جس کا باقاعدہ حکومت نے شکریہ بھی ادا کیا۔
نگر میں اہل سنت والجماعت کے ٣٤ افراد جن میںمسافروں کے علاوہ ڈاکٹر عبدالرشید ڈی ایچ او ہنزہ نگر، جناب آیت اللہ صاحب سول جج کو اغوا کر کے یرغمال بنایا گیا اور حکومت کو جس طرح بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی ساری دنیا کو معلوم ہے۔ ان کے انداز سے صاف واضح ہورہا تھا کہ یہ تو اغوا برائے تاوان ہے۔اغوا کرنے والوں میں سے ایک نوجوان بصیراللہ کو اٹھا کر بے دردی سے شہید کردیا گیا۔ افسو س اس بات کا ہے کہ آئی جی اصغر حسین مذہبی تعصب ، ظلم و ستم اور تنگ نظری کے سرحدات عبور کئے۔ اپنے منصب کو ملک کی استحکام کے بجائے علاقے کے امن کو برباد کر کے رکھ دیا۔اب تک اہل سنت کے قاتل گرفتار کرنے میں دانستہ لیت و لعل کررہے ہیں۔

شہر فوج کے حوالے ہوچکا ہے مگر ان دنوں میں گیاری کا حادثہ پیش آیا ہو ا ہے۔ افواج پاکستان کو بالخصوص اور تمام مسلمانوں کے لیے بالعموم باعث دکھ اور ازمائش ضرور ہے اور مشکل لمحات میں ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی ان شہداء کے درجات بلند فرمائے اور ہم سب کو صبر و ہمت عطاء فرمائے۔امید کرتے ہیں کہ اس کے باوجود فورس کمانڈر صاحب،کور کمانڈر اور جناب جنرل کیانی صاحب بھر پور توجہ سے نوازیں گے۔ علاقے میں امن معاہدے پر عمل درآمد یقینی بنائے گے۔ نام نہاد پیکج کو ختم کرکے اہل سنت کے تحفظات کا ازالہ فرمائے گے۔شہداء کے قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچا کر ان کے ورثا کو واقعہ کوہستان کے مساوی معاوضہ یعنی فی شہید بیس لاکھ جبکہ فی زخمی کو دس لاکھ معاوضہ دیا جائے۔

نوٹ: یہ مضمون ماہنامہ نصرة الاسلام کے شمارہ نمبر ٢، 2012 کے لیے بطور اداریہ لکھا گیا ہے۔ قاضی
 
Qazi Nisar Ahmad
About the Author: Qazi Nisar Ahmad Read More Articles by Qazi Nisar Ahmad: 16 Articles with 13291 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.