یورپ میں مسلمانوں کے خلاف ایک بار پھر نائین الیون جیسی صورتحال ہے

فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ہفت روزہ اخبار چارلی ہینڈو کے دفتر میں ہونے والے حملے کے بعد یورپ میں مسلمانوں کے خلاف ایک بار پھر نائین الیون جیسی صورتحال ہے۔ اس بارے میں بھی اطلاعات ہیں کہ اس جریدے نے حال ہی میں داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کے طنزیہ کارٹون چھاپے تھے۔ جس کے ردعمل میں یہ حملہ ہوا ہے۔ ہفت روزہ اخبار چارلی ہینڈو نے 9فروری 2006 کو حضور اکرم ﷺ کے توہین آمیز خاکہ شائع کئے تھے۔ جس پر ساری دنیا میں مسلمانوں نے احتجاج کیا تھا۔ یہ میگزین حالیہ دنوں میں داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کا طنزیہ کارٹون چھاپنے کے سبب عالمی افق پر زیر بحث رہا ہے اور میگزین کے ٹوئٹر اکاونٹ سے آخری ٹویٹ بھی اسی کارٹون سے متعلق ہے۔ لیکن اس حملے کی ابتدائی خبروں ہی سے اس واقعے کو پیغمبر اسلام کے خاکوں کا ردعمل ،اور مسلمانوں کی کاروائی بیان کرکے ساری دنیا میں مسلمانوں کو مذمت کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ادھر فرانس کے رسالے چارلی ایبڈو نے اپنیتازہ شمارے کے سرورق پر ایک بار پھر پیغمبر اسلام کا خاکہ شائع کیا ہے۔ اس بار اس رسالے کی 30 لاکھ کاپیاں شائع کی گئی ہیں۔ جبکہ عام طور پر اس رسالے کے ایک شمارے کی زیادہ سے زیادہ 60 ہزار کاپیاں شائع ہوتی ہیں مگر رسالے کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس بار پوری دنیا میں اس کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔مسلمانوں کی اپنے پیغمبرآنحضرتﷺ سے مبحت جو کہ مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے، کو اچھی طرح جانتے ہوئے، اب جو پوری دنیا میں یہ کارٹون پھیلائے جارہے ہیں تو اس بات کے خدشات ہیں کہ یہ امر مسلمانوں کے جذبات کو انگیز کرنے کی ایک سازش ہے۔مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق پیغمبرِ اسلام کی کسی بھی قسم کی شبیہہ بنانا ممنوع ہے۔فرانس میں ہونے والے واقعے کے بعد یورپ بھر میں دائیں بازو کے انتہا پسند سرگرم ہوگئے ہیں اور انہوں نے مختلف ممالک میں مسلمانوں کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ جرمنی میں پہلے ہی مسلمانوں کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ فرانس سے پچاس لاکھ مسلمانوں کے انخلا کے بارے میں بھی رائے عامہ ہموار کی جارہی ہے۔ جبکہ مسلمان علما کو بھی ڈی پورٹ کیا جارہا ہے۔ یورپی حکومتی لیڈروں اور اعتدال پسند رہنماؤں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف محاذ نہ بنانے کی اپیلوں کے باوجود یورپ کے انتہا پسندوں نے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ ابتدائی طورانتہا پسندوں نے مسلمانوں کے خلاف جرمنی ، اوسلو،آسٹریا، ڈنمارک، ناروے، سپین، سویڈن اور سوئٹزرلینڈ میں جلسے اور جلوسوں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اور اس میں شدت آتی جارہی ہے۔ فرانس سے اظہار یکجہتی کے لئے پیرس ریلی ملین مارچ کیا گیا جس میں دنیا بھر سے 40ممالک کے رہنماؤں نے شرکت کی، جن میں مسلمان ممالک بھی شامل تھے، ریلی میں بھی اہانت آمیز کارٹون اور مسلمانوں کے خلاف پوسٹر اور پلے کارڈ بھی تھے، آزادی صحافت کے حق میں پیش پیش رہنے والوں میں سے متعدد ملکوں کے ایسے رہنما بھی اس ریلی میں شریک تھے، جو اپنے ملکوں میں آزادی اظہار رائے کے مخالف ہیں۔ ان ممالک میں مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے آزادی اظہار رائے اور صحافت پر قدغنیں لگائی جاتی ہیں۔ واحد مسلم رہنما مراکش کے وزیر خارجہ صلاح الدین میزور تھے جنہوں نے پیرس کے یکجہتی مارچ میں توہین آمیز خاکوں کی موجودگی کے باعث ریلی میں احتجاجاً شرکت نہیں کی۔ مراکش کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ ریلی میں گستاخانہ خاکوں کے پوسٹرز کی موجودگی کے باعث مراکش کے وزیر خارجہ یا کوئی حکومتی عہدیدار پیرس کے مارچ میں شریک نہیں ہوا۔ جبکہ ایک روز قبل مراکش نے فرانس سے اظہار یکجہتی کے لئے پیرس ریلی میں شرکت کا اعلان کیا تھا۔پاپائے روم پوپ فرانسس نے بھی ایسی مذہبی انتہا پسندی کی سخت مذمت کی ہے،جس سے متاثر ہونے کی وجہ سے پیرس کا سانحہ رونماہوا۔فرانس کی دفترِ خارجہ کی ویب سائٹ پر فرانس کے وزیرِ اعظم ڑان مارک ایرو کی طرف سے شائع کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اظہارِ آزادی فرانس کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ ‘ فرانس میں اظہار آزادی کا یہ مقصد نہیں ہونا چاہیئے کہ یہ دوسروں کی دل آزاری کا سبب بن جائے۔ ایسے دل آزار کارٹون بنانے والے اور ان کو چھاپنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ مسلمان جب اپنے آقا حضرت محمدﷺ کا نام لیتا ہے تو کہتا ہے ’’فداہ ابی وامی‘‘ میرے ماں باپ آپﷺ پر فدا ہوں۔ یہ مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے کہ اپنی جان اور اپنے ماں باپ سے بھی زیادہ پروردگار کے بھیجے ہوئے رسول صادق ﷺ سے محبت کرے۔ حضوراکرم ﷺ نے ہمیشہ معاف کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور خود معاف کرکے جو مثال اپنی اْمت کے سامنے پیش کی ہے۔ مکہ والوں نے آپ کو بے حد ستایا لیکن جب مکہ فتح کیا تو معافی کا دروازہ کھول دیا اور انتہا یہ ہے کہ جس عورت نے ان کے محبوب چچا حضرت حمزہ کا کلیجہ چبایا تھا اسے بھی معاف کردیا۔ اس لئے چند متشدد افراد کے اس اقدام کو پوری مسلمان برادری پر تھوپنا ، دنیا مین انارکی پھیلانے کا سبب بنے گا۔ فرانس کے صدر نے صاف طور پر کہا ہے کہ وہ تشدد کو اسلام سے وابستہ نہیں سمجھتے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کا تشدد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی لئے انہوں نے فرانس کے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اس واردات کو اسلام سے وابستہ کرکے نہ دیکھیں۔اہل مغرب کو سوچنا چاہیئے کہ ان متنازع کارٹونوں کی وجہ سے پوری مسلمان دنیا سراپا احتجاج کیوں ہے۔کارٹونوں پر اٹھنے والے اس تنازعے نے جمہوری معاشرے میں توازن، رواداری، ایک دوسرے کے مذہبی عقائد کے احترام اور آزادیِ اظہار جیسے نظریات کے فروغ میں کچھ نہیں کیا۔ آزادی اظہار پر فرانس اور بعض دوسرے یورپی ملکوں نے، دوہرے معیار اپنائے ہوئے ہیں۔پہلی بار جب یہ کارٹون شائع ہوئے تھے تو فرانس کی حکومت نے کہا ہے کہ ان کارٹونوں سے جن لوگوں کے جذبات مجروح ہوئیہیں، وہ اس معاملے کو عدالت میں لے جا سکتے ہیں۔ ایک مسلمان گروپ نے پیرس میں پراسیکیوٹرز کے پاس فوجداری شکایت درج بھی کرائی تھی۔ لیکن جب مذہبی گروپوں کی دل آزاری کرنے کے الزام میں ہفتے وار رسالے Charlie Hebdo کے خلاف مقدمے دائر کیے گئے ، تو ان کا فیصلہ رسالے کے حق میں ہوا ہے۔ 2008 میں جب اس رسالے نے پوپ کا کارٹون شائع کیا، تو اس کے خلاف شکایت درج کرائی گئی تھی لیکن وہ بھی ناکام رہی تھی۔فرانس کی پیرس ویسٹ یونیورسٹی کے Pierre Guerlain کہتے ہیں کہ اگر ان کارٹونوں کے بارے میں شکایت کو کامیاب کرنا ہے تو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ کارٹون نسل پرستی پر مبنی ہیں۔ فرانس میں مذہبی وجوہ، کافی نہیں ہوتیں۔لیکن یہ بات بھی جانتے ہیں کہ یورپ کے بعض ملکوں میں سر پر حجاب لینا ممنوع قرار دے دیا گیا۔ اور یہ صرف اور صرف مذہبی امتیاز ہی کی وجہ سے کیا گیا ہے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 383700 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More