چھولے بیچ کر نہیں پھینک کر کماوں گا۔

چھولے بیچنے نہیں پھینکنے ہیں آپ یقین کریں یہ کوئی محاورہ یا کوئی مثال نہیں بلکہ جیتی جاگتی حقیقیت ہے ایک دن میں اپنے آفس سے واپس آرہا تھا کہ شاہراہ فیصل پر میں نے دیکھا ایک بچہ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر رورہاہے اور اس کے ہاتھ میں ایک سلور کی تھالی ہے اور اس کے سامنے روڈ پر چھولے گرے ہوئے ہیں جس پر سے گاڑیاں گذر رہی ہیں ظاہر ہے اس سے میں نے یہی اندازہ لگایا کہ کسی حادثے کی وجہ سے اس کے چھولے جو وہ بیچنے نکلا تھا وہ گر گئے اور وہ اسی بات پر رورہا ہے میں نے اپنی کار اس کی مزید نزدیک کی کیونکہ سگنل ابھی سرخ تھا میں نے اس سے دریافت کیا کہ کیا ہوا تو بچے نے آنسو پوچھتے ہوئے کہا کہ میں چھولے بیچنے کے لیئے بس میں چڑھنے کی کوشش کرہا تھا ایک موٹر سائیکل والے نے ٹکر ماردی اور سب چھولے ضائع ہوگئے اتنی ہی بات ہوئی تھی کہ میرے پیچھے تمام لوگ بیک وقت ہارن بجانے لگے تو اندازہ ہوا کہ سگنل گرین ہوچکا ہے میں نے جلدی سے آگے بڑھتے ہوئے اسے کچھ پیسے دیئے اتنے قلیل وقت میں اس سے میں جتنی بات کر سکتا تھا وہ میں کر چکا تھا ۔

میں تمام راستے سوچتا رہا نہ جانے اس کی کسی اور نے بھی مدد کی ہوگی یا نہیں اگر اس کے چھولے فروخت ہوگے ہوتے تو شائید اسے اچھے پیسے مل جاتے پتا نہیں اس کے گھر میں کوئی اور کمانے والا ہے کہ نہیں اس کے گھر کے حالات کیسے ہیں یعنی گھر پہنچنے تک ہزاروں سوالات زہن میں گردش کرتے رہے دوسرے دن جب میں آفس گیا تو سوچتے ہوئے گیا کہ شائید آج شاہراہ فیصل پر وہ نظر آجائے تو اس سے پھر مزید پو چھونگا کہ وہ کتنے پیسے کما لیتا ہے وغیرہ وغیرہ اب میں روز گھر آتے ہوئے اسے بھی تلاش کرتا رہتا تھا لیکن پھر وہ مجھے نظر نہیں آیا ۔

ابھی کچھ دن ہی گذرے تھے کہ میں آغا خان اسپتال سے نیشنل اسٹیڈیم کے راستے کارساز پر آرہا تھا کہ بحریہ کمپلیکس کے اسپیڈ بریکر کے پاس روڈ پر چھولے گرے ہوئے نظر آئے میں نے جلدی سے ادھر ادھر دیکھا تو وہی بچہ مجھے اسی طرح فٹ پاتھ پر روتے ہوئے نظر آیا اس دفعہ کیونکہ میں گاڑیوں کے ازژہام کے درمیان میں تھا تو اس سے بات کرنے کا موقع نہیں ملا اس دفعہ مجھے زیادہ ہی دکھ ہورہا تھا کہ میں اس کے قریب اپنی گاڑی نہ لے جاسکا اور نہ اس کی مالی مدد کرسکا اور حیران اس بات پر تھا کہ آج اتنے دن بعد اس کو دیکھا تو اس حالت میں کہ آج بھی اس کے ساتھ وہی حادثہ ہوا تھا میں دل ہی دل میں اس کے حالات کی بہتری کے لیئے دعا کرہا تھا اور بہت دکھی ہورہا تھا لیکن خود ہی اپنے آپ سے سوال بھی کرہا تھا کہ ایسا اتفاق بھی کیا کہ آج پھر اس کے چھولے اسی ہی طرح کیسے گرگئے اور وہ بھی اس دن کی طرح کسی اسپیڈ بریکر کے پاس اور پھر خود ہی اپنے سوالوں کا جواب بھی دیتا رہا کہ ممکن ہے وہ ہمیشہ اسپیڈ بریکر پر اس لیئے کھڑا ہوتا ہوگا کہ منی بس کوچز وغیرہ وہاں آہستہ ہوتی ہونگی تو وہ ان پر سوار ہونے کی کوشش میں کبھی گر بھی جاتا ہوگا خیر پھر میں اپنے کاموں میں مصروف ہوگیا اور یہ واقعہ بھی میرے زہن سے نکل گیا۔

ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ مجھے وہ دوبارہ دکھائی دیا اور بالکل اسی طرح لیکن اس دفعہ وہ ڈرگ روڈ کے سگنل پر نظر آیا یہ سگنل شاہراہ فیصل کی تمام سگنلز کی بنسبت کچھ زیادہ وقت تک سرخ رہتا ہے میں نے اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس سے پوچھا کہ کیا ہوا اس نے لفظ بہ لفظ وہی جملے دہرائے جو اس دن کہے تھے اور آج اس کے بولنے کا انداز ایسا تھا جیسے کسی نے سبق یاد کرنے کا کہا ہو اور وہ سبق مجھے سنا رہا ہو میں نے اس سے کہا کہ اس دن بھی تمھارے ساتھ یہی ہوا تھا پھر میں نے ایک دن کارساز پر تمھیں اسی طرح دیکھا اور آج یہاں اتنی دیر میں پھر سگنل گرین ہوگیا اس بار میں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے اسے آواز دی کہ آگے آجاؤ اور میں نے اپنی گاڑی روڈ کے بائیں جانب کی جہاں مسجد کی وجہ سے پارکنگ کی کچھ گنجائش ہوجاتی ہے اور گاڑی سے اتر کر اس کی جانب دیکھنے لگا لیکن میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ وہ بجائے میرے قریب آنے کے مخالف سمت میں تیز تیزقدموں سے چلنے لگا اور بار بار مجھے مڑ کر دیکھتا رہا اب میری سمجھ میں سب کچھ آگیا تھا میں آج ان تمام دنوں سے زیادہ دکھی ہوا کہ اتنا سا بچہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے اس کے پڑھنے لکھنے کے دن ہیں یہ ابھی سے لوگوں کو دھوکہ دے کر پیسے کمارہاہے تو کل بڑا ہو کر نہ جانے کن کن طریقوں سے پیسے کمائے گا۔

ابھی چند دن پہلے ایک دوست کا انتقال ہوا تو ہم چند دوست اس کے جنازے میں شرکت کے لئیے اس کے گھر جارہے تھے اس دفعہ میں اپنی کار میں نہیں بلکہ ایک دوست کی کار میں پچھلی سیٹ پر تھا کہ اچانک اسٹار گیٹ کے سگنل پر وہی بچہ نظر آیا اس دفعہ اس کے ہاتھ میں بھرا ہوا چھولے کا تھال تھا اور وہ میرے اس دوست سے لفٹ مانگ رہاتھا جو گاڑی ڈرائیو کررہا تھا میں نے اس کے جواب دینے سے پہلے ہی پچھلا دروازہ کھول کر اسے بٹھالیا کیونکہ میں چند سیکنڈ ایسا نہ کرتا تو سگنل گرین ہوجاتا خیر وہ میرے ساتھ بیٹھ گیا میں نے پوچھا کہاں جانا ہے تو اس نے کہا اگر آپ لوگ سیدھا جائیں تو مجھے عوامی مرکز پر اتاردیں میں سوچ رہا تھا کہ یہ مجھے پہچانا نہیں اور شائید اس کا پہچاننا آسان بھی نہیں تھا کیونکہ آج میں آفس ڈریس میں نہیں تھا اور کار بھی ڈرائیو نہیں کررہا تھا اب میں نے اس سے پوچھا کہ کتنے کمالیتے ہو اس کا جواب تھا صاب 100 تک بھی نہیں بچتے میں نے مسکراتے ہوئےطنزیہ لہجے میں کہا کہ اگر انھیں روڈ پر پھینک دو تو کتنے کمالیتے ہو میرا یہ سوال سنتے ہی شائید وہ پہچان گیا اور سر نیچے کر کے مسکرانے لگا میں نے پوچھا بیٹا ایسا کیوں کرتے ہو یہ تو گناہ ہوا نا کہ آپ روز اتنا جھوٹ بولتے ہو اور وہ بھی بھیک مانگنے کے لیئے آپ کو کس نے ایسا کرنے کو کہا میرے کئی دفعہ پوچھنے کے بعد اس نے مجھے بتایا کہ میں ایک اسکول کے باہر چھولے بیچتا تھا ایک دن اتفاقیہ مجھ سے تھال گرگیا میں روتے ہوئے گرے ہوئے چھولوں کو اکھٹا کر رہا تھا کہ ایک بابو صاب نے مجھے 500 روپے دئیے کہ انھیں مت اٹھاؤ یہ خراب ہوگئے ہیں یہ لو اس سے دوسرے خرید لو اس نے مجھے بتایا کہ جب میں چھولے بیچتا تھا تو پورے دن میں 100 روپے ہی کما پاتا تھا لیکن اس دن ایک گھنٹے میں 500 مل گئے اس دن کے بعد میں روز کہیں نہ کہیں گلے سڑے سستے والے چھولے پھینک کر بیٹھ جاتا ہوں اس سے جب میں نے پوچھا اب کتنے کمالیتے ہو تو ہم سب سن کر حیرت زدہ رہ گئے اس نے کہا کبھی کبھی تو تین ہزار بھی مل جاتے ہیں جیسا علاقہ ہوتا ہے اس طرح پیسے ملتے ہیں اور بہت فخر سے کہا اب تو بہت سے لڑکے اس کاروبارمیں آگئے ہیں اب عوامی مرکز آچکا تھا میں نے کار کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا آج تو بیچ کر کماؤ گے نا اس نے ہنستے ہوئے کہا نہیں پھینک کر ہی کماوں گا۔

اس واقعہ کو آپ سب کے گوش گزار کرنے کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ اگر آپ کہیں بھی ایسا دیکھیں تو احتیاط کریں کیونکہ ہوسکتا ہے اس بچے کا چھولے کا تھال بھی اتفاقیہ ہی گرا ہو اور آپ کی ہمدردی اسے ہمیشہ ہی چھولے گراکر بھیک مانگنے پر نا لگادے۔
 
 Arshad Qureshi
About the Author: Arshad Qureshi Read More Articles by Arshad Qureshi: 141 Articles with 150087 views My name is Muhammad Arshad Qureshi (Arshi) belong to Karachi Pakistan I am
Freelance Journalist, Columnist, Blogger and Poet, CEO/ Editor Hum Samaj
.. View More