ایٹمی ہتھیاروں سے دنیا کو محفوظ کیا جائے۔ویانا کانفرینس میں مطالبہ

ایٹمی ہتھیاروں سے دنیا کو لاحق خطرات کا جائزہ لینے اور اس سلسلے میں کوئی لائحہ عمل تشکیل کے لئے دنیا کے 150 ملکوں کی کوشش بظاہر رائیگاں ہوتی نظر آتی ہے۔ ویانا میں ایٹمی ہتھیاروں سے دنیا کو لاحق خطرات پر ہونے والی اس کانفرنس میں پہلی بار امریکا اور برطانیہ نے شرکت کی ہے۔ دونوں ملک اقوم متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ممبر ہیں۔ اور دنیا کے ان نو ملکوں میں شامل ہیں۔جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کے پاس ایٹمی ہھتیار موجود ہیں۔ اس کانفرنس میں 150ممالک کی جانب سے 800وفود نے شرکت کی۔ ان ملکوں میں پاکستان اور بھارت بھی شامل ہیں۔تاہم روس، فرانس، چین نے اس کانفرینس میں اپنے سرکاری وفود نہیں بھیجے ہیں۔ البتہ چین کا ایک تھینک ٹینک گروپ اس کانفرینس میں شریک رہا۔ کانفرینس میں دنیا میں موجود سولہ ہزار تین ایٹمی ہھتیاروں پر بھی بحث تو ہوئی، لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ اس کانفرینس میں ایک چوراسی سالہ جاپانی مندوب سیٹکو تھرلو بھی ویل چیئر پر شریک ہے۔ وہ 1946 میں جاپان کے شہر ہیروشما پر امریکی ایٹم بم حملے سے متاثر ہوئے تھے۔ یہ حملے دوسری جنگ عظیم میں امریکہ نے جاپان کے دو شہر ناگاساکی اور ہیروشما پرکیئے تھے۔جاپان کے ہیروشیما اورناگاساکی پر امریکی جوہری بم حملوں کی آئندہ سال سترویں برسی منائی جائے گی۔ جاپان کے سرکاری عہدے دار اور ماہرین یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ جوہری ہتھیاروں کا خاتمہ کیا جائے۔جوہری ہتھیاروں کے انسانیت پر اثرات پر یہ تیسری بین الاقوامی کانفرنس ہے۔ جو 8 اور 9 دسمبر کو ویانا میں ہوئی۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 1946 سے 1990 تک دنیا میں تقریبا دو ہزار ایٹمی تجرباتی دھماکے کیئے گئے۔ 1954 میں امریکہ نے جو ایٹمی تجربہ کیا تھا وہ ہیروشما میں گرائے گئے ایٹم بم سے ایک ہزار گنا زیادہ طاقتور تھا۔ جبکہ روس کا ٹی ساربمبا کا دھماکہ سب سے بڑا خیال کیا جاتا ہے۔ شمالی کوریا جو تین بار ایٹمی دھماکے کرچکا ہے اور اسرائیل ایسے ملک ہیں جنہوں نے یہ کبھی تسلیم نہیں کیا کہ ان کے ایٹمی ہتھیار ہیں۔ کانفرنس میں جوہری ہتھیار کے استعمال کی صورت میں انسانی صحت اور ماحول پر پڑنے والے اثرات کی تصدیق کے علاوہ حادثاتی طور پر ایٹمی دھماکے یا ایٹمی دھماکوں سے پیدا ہونے والے اثرات کو بھی جائزہ لیا گیا۔ جاپانی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں جوہری بم حملوں کا نشانہ بننے والے واحد ملک کے حیثیت سے جاپان، دیگر ملکوں سے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے پرزور کوششوں کا مطالبہ کرتا رہے گا۔ جاپان کے مندوبین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو ایسے غیر انسانی ہتھیاروں کے بغیر دنیا کے قیام کے لیے متحد ہونا ہو گا۔اسرائیل مشرق وسطی کا واحد ملک ہے جسکے پاس ایٹمی ہتھیار موجودہیں۔مشرق وسطی میں ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمہ کا مسئلہ چند سالوں سے زیر بحث ہے۔ ایران بھی مشرق وسطی میں ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کا قائل ہے اور اسکی تجویز پر ہی 2010 میں اس مسئلہ کو اٹھایا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1994 سے لیکر 2010 تک اپنی ہر سال کی قرارداد میں اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ این پی ٹی معاہدے پر دستخط کرے اور آئی اے ای اے کے قواعد و ضوابط پر عمل کرے۔ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے آئی اے ای اے نے 1987 سے لیکر 1991 تک مسلسل پانچ سال اور اسکے بعد 2009 میں بھی اسرائیل سے اسی طرح کا مطالبہ کیا ہے۔آئی اے ای اے نے 1981 میں بھی اسرائیل سے کہا تھا کہ وہ اپنی ایٹمی تنصیبات کے دروازے آئی اے ای اے کے معائنے کے لئے کھول دے لیکن اسرائیل نے اس عالمی ادارے کے فیصلے کو کبھی کوئی اہمیت نہیں دی امریکہ کی خفیہ دستاویزات اور اسٹرٹیجک ماہرین کے اندازے کے مطابق اسرائیل کے پاس اس وقت تین سو کے قریب ایٹمی وار ہیڈز موجود ہیں۔ ترکی کے ایک تحقیقاتی ادارے نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل کے ایٹمی پلانٹ ڈیمونا میں ہر ہفتہ تقریبا" ڈیڑھ کلوگرام یورینیم تیار ہو رہی ہے جس کی سالانہ پیداوار چار سے بارہ ایٹم بم بنانے کیلئے کافی ہے۔ اسرائیل کو سب سے زیادہ امریکہ کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ گذشتہ دنوں امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے تو برملا اسرائیلی سلامتی کے حوالے سے واشنگٹن کے عزم سے متعلق تمام شکوک و شبہاتکو'بیہودہ' باتیں قرار دیا تھا۔ واشنگٹن میں اسرائیل نواز 'سابان فورم' سے خطاب کرتے ہوئے جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ ہمارے اور اسرائیلیوں کے درمیان اسرائیل کی سیکیورٹی سے متعلق کوئی اختلاف نہیں۔انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیاکہ "ہم ایران کو نیوکلیئر ہتھیار حاصل نہیں کرنے دیں گے۔ امریکا، اسرائیل اور مشرق وسطی کو نیوکلیئر اسلحے سے لیس ایران کے ڈراوے سے ہمیشہ کے لئے بچانے کا واحد طریقہ تہران کے ایٹمی پروگرام پر قابل تصدیق پابندیاں سمجھتا ہے۔ ویانا میں جہاں جوہری ہھتیاروں کو تلف کرنے پر کانفرینس ہوئی، اس کے مقابل ایک اور کانفرینس بھی ہوئی جس میں سول سوسائیٹی کے ستر ملکوں کی سو آرگنائزیشن کے چھ سو نمائیدے شریک ہیں۔ ان کا بھی یہی مطالبہ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں پر مکمل پابندی لگائی جائے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 383728 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More