نصاب تعلیم کے مسائل

ہمارے نصابِ تعلیم کے مسائل

قیام پاکستان سے تاحال ہمارا شعبہ تعلیم مشکلات ہی مشکلات کاسامناکررہاہے یہ واحدشعبہ ہے جس کی مشکلات کسی بھی دورمیں کم نہیں ہوئی ۔مثالیت پسندی سے تجزیہ کیاجائے توحکم رانوں نے اس کوسنجیدگی سے کبھی نہیں لیا۔ذوالفقارعلی بھٹوکے دور میں اداروں کو قومیانے Natinalizationسے تعلیمی اداروں پرجوبوجھ پڑااس کے اثرات کوختم کرنے کے لیے تگ ودوجاری تھی کہ صدرضیاء الحق نے ان اداروں کی نج کاری Privatizationکرنے کا اعلان کردیاجس کے نتیجے میں گلی محلوں میں نت نئے ناموں سے اسکول کُھلے جن کے منتظمیں کا واحدمقصد حصولِ زراور تعلیم کے علاوہ ہرشئی تھی ان میں سے اکثریت نان ایجوکیٹیڈتھے اگران نجی تعلیمی اداروں کے لیے اگراول روزسے کوئی ٹھوس پالیسی وضع کرلی جاتی توآج والدین کوبچوں کی تعلیم آگے بڑھانے کے لیے اپنے سرمایے کونہ دیکھناپڑتااورتعلیم کبھی اس قدرمہنگی نہ ہوتی جوآج ہے ۔معروف تجزیہ نگارارشاداحمدحقانی مرحوم کہاکرتے تھے ہمارے برّصغیرمیں تعلیم کی وزارت ہمیشہ سے غیراہم رہی ہے ایک بارنئی حکومت کی تشکیل میں وزارتوں کی تقسیم کامرحلہ درپیش تھاتوپارٹی صدرکے سامنے ہررکن نے سابقہ دورمیں اپنی جدوجہد اورپارٹی وفاداری کابھرم بھرا۔اور منافع بخش وزارتوں میں حصہ مانگا۔جب سب اپناحصہ وصول کرچکے تواس وزارت کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی گئی ۔پارٹی صدرنے دیکھاکہ اس وزارت کاکوئی بھی متمنی نہیں تواوروزارت کے ساتھ ایڈجسٹ کرکے کے نام مانگے مگرجواب نداردتوان میں سے ایک کوجاتے جاتے بمشکل اضافی طوراس کابوجھ اٹھانے پرراضی کیاگیا۔

شعبہ تعلیم کوسب سے زیادہ خطرہ ہمیشہ ان حکمرانوں سے ہی رہاہے ۔رہی سہی کسر ذریعہ تعلیم \"اردوہویاانگریزی\" کی بحث نے قومی زندگی کے انتہائی اہم دس سال ضائع کردیے جس سے طبقاتی کشمکش نے جنم لیااورایک اعتبارسے پوری قوم اُلجھ کررہ گئی ۔ سُرخ انقلاب ا ور افغان جہاد کی وجہ سے فارنرزکی بھی ہمارے نونہالوں میں دلچسپی بڑھی ،جگہ جگہ امریکن اوربرٹش سینٹرزکھلے جہاں لینگویج کم اور ثقافت کاپرچارزیادہ ہوتاتھا ۔بڑی یونیورسٹیوں میں امکانات Synthesisپرفری لیکچرہونے لگے ۔ گوروں کے ان لیکچرزکوبڑی اہمیت دی جانے لگی اوریوں کیمبرج ،آکسفورڈ،اے اوراو لیول کی اصطلاحات آنے لگی ۔حکم رانوں کے مطالبات صرف امداد اورایڈتک محدودرہے اورگوروں نے اس کے بدلے دھیرے دھیرے اپنی ترجیحات اور اصطلاحات لانی شروع کی ۔اس میں تیزی جنرل مشرف کے زمانے میں اس وقت آئی جب امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزارائس نے بھی \"دوست\" ملک میں اپنی تعلیمی ترجیحات اورموجودنصاب کوتبدیل کرنے پرزوردیا۔جماعت نہم اوردہم سے سورہ انفال کی آیات کااخراج بھی اسی دورسے شروع ہوااورفیڈرل ،پنجاب،سندھ،پختونخوااور بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ کی درسی کتابوں کے سرورق پرمصنفین کے ناموں میں غیرملکی ناموں کابھی اضافہ اسی دورمیں ہوا۔

غیرملکی اشاروں پرنصاب ا ورتعلیمی پالیسیوں میں ردوبدل کاسلسلہ ہنوزجاری ہے ۔1947کی پہلی تعلیمی کانفرنس ،1959 میں ایس ایم شریف کمیشن ،1970میں نورخان کمیشن ،بھٹوکے دورمیں 1972 کی تعلیمی پالیسی جس میں تعلیمی اداروں کو قومیایہ گیا پھر1978 کی تعلیمی پالیسی جس میں ان اداروں کی نج کاری کی گئی ،1992،1998 اور 2010 کی تعلیمی پالیسیوں میں تکرارکے ساتھ کہا گیاہے کہ ہمارانصاب تعلیم ایساہوگاجس سے اسلامی معاشرہ وجودپاسکے ایثاروہمدردی کے جذبات ا ورحب الوطنی کاجذبہ بیدارہو۔ایک اہم نقطے کی طرف بھی تمام پالیسیوں میں توجہ مبذول کرائی گئی ہے کہ صرف دینیات اوراسلامیات کے مضامیں میں نہیں بلکہ اردو،معاشرتی علوم یہاں تک کہ انگریزی کے درسی اسباق کے موضوعات بھی اسلامیات سے ہم آہنگ ہوں گے ۔ صدحیف نئی نصاب سازی میں اس کی طرف توجہ نہیں کی گئی یا جان بوجھ کراس سے صرفِ نظرکی جارہی ہے پوری انگریزی درسی کتاب میں نماز،وضواوراخلاقیات کے موضوعات حذف ہی کردیے گئے ہیں۔صدرضیاء الحق کے دورمیں سیکنڈری تا پوسٹ گریجویشن عربی اور مطالعہ پاکستان کے مضامین کی تدریس کافیصلہ ہوا۔مقامِ شکرابتدائی طورپرجماعت ششم،ہفتم اورہشتم میں عربی کی تدریس کاآغاز ہوااوراس کے لیے اساتذہ بھی بھرتی ہوئے لیکن شاید حکم رانوں کی ترجیحات بدلنے سے اس جانب توجہ کم ہوگئی ہے ایک توہائیرسیکنڈری اورڈگری جماعتوں میں اس کی تدریس کاآغازنہ ہوسکااورعربی اساتذہ کی تربیتی ورکشاپس کامنصوبہ بھی دھرے کادھرارہ گیا۔ اس حوالے سے سندھ حکومت کارویہ توازحدمایوسانہ ہے 1996کے بعد2011 میں صرف چندسوعربی اساتذہ کاتقررکیاگیالیکن دوسال سے زائدعرصہ ہونے کوآیایہ اساتذہ تاحال تنخواہوں سے محروم ہیں اورسندھ ہائی کورٹ میں فاضل عدالت کے حتمی فیصلے کے منتظرہیں۔

ٍ مطالعہ پاکستان کی تدریس کوجذبہ حب الوطنی اجاگرکرنے کی بنیادقراردیتے ہوئے جماعت ہشتم تک اس کانام معاشرتی علوم اور جماعت نہم تاپوسٹ گریجویشن اس کانام مطالعہ پاکستان طے کیاگیا ۔ سقوطِ ڈھاکہ کے تناظرمیں یہ مستحسن اقدام تھاتحریکِ پاکستان میں حصہ لینے والے ہیروز، بزرگوں کی لازوال جدوجہد،ناقابل فراموش قربانیوں اورمسلم لیگ کے دوقومی نظریے کو اس کابنیادی موضوع تجویزکیا گیا ۔علامہ اقبال اورقائد اعظم کے ارشادات کو ان موضوعات کے لیے مہمیزکے طورپرچناگیا۔نصاب سازی کے اہم ترین اصولوں میں سے جامعیت ،لچک اورتنوع ہے لیکن نہ جانے کیوں مطالعہ پاکستان کی نصاب سازی میں اس کویکسرنظراندازکردیاگیایاکہ انتہائی عجلت میں نصاب تیارکرکے درسی کتابیں چھاپ دی گئیں ۔اگراس سے قبل تیکنیکی طورپرصرف عملی آزمائش کے مرحلے یعنی تجرباتی،بنیادی اورفیلڈ آزمائش سے ہی گذارلیاجاتا توکبھی یہ نصاب اس قدربے جان نہ ہوتا۔جماعت سوم تاماسٹرزمطالعہ پاکستان کے نصاب میں ایک ہی نقطہ نظرکوشدومدکے ساتھ بیان کیاگیاہے ۔تقسیمِ ہندکے نظریے کی مخالفت کرنے والے اکابرین کی آراء کوکسی بھی اندازمیں اس نصاب کاحصہ نہیں بنایاگیا،ثانوی اوراعلیٰ ثانوی جماعتوں میں نہ سہی کم ازکم ڈگری یاپوسٹ گریجویشن میں ان کے نقطہ ہائے نظرکوضعیف اندازسے ہی پیش کردیاجاتاتوکم ازکم ایک خاکہ تومکمل ہوتا۔یہ نصاب کیبنٹ مشن ،بہاراورپنجاب کے فسادات کے تذکرے، بانی پاکستان کے عرصہ دس سال تک کانگریس اورمسلم لیگ دونوں کی بیک وقت رکنیت ، ۔مولانا سیدحسین احمدمدنیؒ ،ابوالکلام آزاد اورشورش کاشمیری کے تذکرے سے بالکل خالی ہے ۔ موجودہ دورمیں ڈاکٹرصفدرمحمودکے ساتھ اگرڈاکٹرعائشہ کے اقتباسات ہی یونیورسٹی لیول کی کتابوں میں داخل نصاب ہو توطلباء کودوسرانقطہ نظرسمجھنے میں سہولت ہوگی ۔یہاں توآوے کا آوابلکہ باواآدم ہی نرالاہے جانبِ مخالف کے نظریے کودشمنی سمجھاجاتاہے ۔پاکستان کی ایک نامور یونیورسٹی میں ایم اے اردو(سالِ دوم) کاپوراایک مضمون اورپرچہ \" سرسیداحمدخاں کا خصوصی مطالعہ\" ہے پورے مضمون اورپرچے میں صرف ایک ہی نقطہ نظربیان کرنے اورلکھنے کی اجازت ہوتی ہے سید صاحب کے متعلق دوسرے نظریے کولکھنے اور بولنے کی قطعی اجازت توکجا،امتحانات میں نشانات بھی منہاکیے جاتے ہیں ۔

بہرکیف !کچھ تضادات کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے مدارس دینیہ کی طرف رُخ کرنے کے بجائے ہمیں اپنے تضادات کودورکرنے کی ضرورت ہے ۔وقت کے ساتھ ساتھ نصاب میں تبدیلی ناگزیر ہے لیکن یہ تبدیلی ماہرین تعلیم کی سرپرستی میں اوردوقومی نظریہ کی بنیادپرہویہ نظریہ تو ہمارافلسفہ حیات اورالگ وطن کاسبب بھی ہے ۔اٹھارویں ترمیم کے بعدتعلیم کاموضوع صوبوں کومنتقل ہونے کے بعد تعلیم کومزیدخطرات لاحق ہوگئے ہیں یہ موضوع تفصیل طلب ہے۔جب تک تعلیمی ایمرجنسی اورتعلیمی پالیسیوں میں عملی تدریس سے وابستہ ماہرین تعلیم کوشریک نہیں کیاجائے گاتومسائل اورخطرات کم نہیں ہوں گے ۔
Muhammad Imran Godharvi
About the Author: Muhammad Imran Godharvi Read More Articles by Muhammad Imran Godharvi: 2 Articles with 5522 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.