پاکستان: بھارتی سیکرٹری خارجہ کا دورہ.... امریکی دباﺅ کا نتیجہ!

پاکستان اور بھارت روایتی حریف پڑوسی ممالک ہیں، جن کے تعلقات تقریباً روز اول سے کشیدگی کا شکار ہیں۔ آئے روز سرحدوں پر ہونے والی گولہ باری اس کشیدگی کو مزید بڑھاوا دیتی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان موجود کشیدگی کی بڑی وجوہات کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ، پاکستان کے خلاف آبی جارحیت اور پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں بھارت کا ملوث ہونا ہے۔ پاکستان متعدد بار اس کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے بھارت سے بات چیت کے علاوہ عالمی سطح پر بھی اس معاملے کو اٹھا چکا ہے، لیکن ہر بار بھارت کی ہٹ دھرمی آڑے آجاتی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی کے حوالے سے منگل کے روز بھارت کے سیکرٹری خارجہ ایس جے شنکر نے پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا اور پاکستانی ہم منصب اعزاز چودھری سے ملاقات کی۔ سبرامنیم جے شنکر وزیراعظم نوازشریف سے بھی ملے اور انہیں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا خط پہنچایا۔ سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری نے میڈیا کو بتایا کہ بھارتی سیکرٹری خارجہ سے کشمیر سمیت تمام ایشوز پر بات ہوئی۔ ملاقات میں فاٹا اور بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا معاملہ اٹھایا۔ سیاچن، سرکریک اور دیگر امور پر بات چیت کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ بھارتی ہم منصب کے سامنے ایل او سی پر کشیدگی کا معاملہ اٹھایا۔ ملاقات میں سمجھوتہ ایکسپریس کا معاملہ بھی اٹھایا گیا، سات آٹھ سال ہو گئے، مگر سمجھوتہ ایکسپریس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ ملاقات میں 2003ءکے سیزفائر معاہدے پر عملدرآمد کے لیے بھی بات ہوئی۔ جبکہ بھارت کے خارجہ سیکرٹری سبرامینم جے شنکر کا کہنا تھا کہ ملاقات میں سرحدی کشیدگی کم کرنے پر زور دیا گیا۔ سرحد پر دہشت گردی اور ممبئی حملوں کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔ جبکہ میڈیا کے ساتھ مختصر گفتگو میں وہ سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس کے بارے میں سوال کا جواب گول کر گئے اور دیگر کئی سوالات کا بھی جواب نہیں دیا۔ بھارتی خارجہ سیکرٹری نے کہا کہ پاکستان سارک کا آئندہ چیئرمین ہو گا۔ بھارت چاہتا ہے کہ وہ بھرپور طریقے سے پاکستان کے ساتھ سارک میں کام کرے۔ سرحد پر امن قائم رکھنا انتہائی اہم ہے۔ دونوں ملکوں نے اتفاق کیا کہ سیز فائر معاہدے پر عمل ہونا چاہیے۔ بھارتی خارجہ سیکرٹری سے ملاقات میں وزیراعظم نوازشریف نے واضح کیا کہ کشمیر، سیاچن، سرکریک، پانی کے مسائل اور اپنے اندرونی معاملات میں بھارتی مداخلت کے تحفظات کو دور کیے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کا بڑا مقصد بھی یہی تھا، تاہم افسوس ہے کہ بعد میں صورتحال مناسب نہ رہی۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کو دنیا کے دیگر خطوں میں ہونے والی ترقی کو دیکھ کر سبق حاصل کرنا چاہیے۔ دونوں ملکوں کو اپنے تعلقات میں نئے دور کا آغاز کرنا ہو گا۔ وزیراعظم نے توقع ظاہر کی دونوں ممالک کے خارجہ سیکرٹریز کے درمیان بات چیت دونوں ممالک کے دوطرفہ تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے مدد گار ثابت ہو گی۔

بھارتی خارجہ سیکرٹری کے دورہ پاکستان سے دونوں ملکوں کے تعلقات آنے کے حوالے سے اگرچہ کافی توقعات وابستہ کی جا رہی ہیں، لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق بھارتی سیکرٹری خارجہ کے دورہ پاکستان سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کے سلسلے میں کسی غیر معمولی پیشرفت کی توقع نہیں اور نئی دہلی میں بی جے پی کی حکومت اقتدار میں آنے کے بعد سے پاک بھارت تعلقات میں جو تلخی آئی تھی، اس میں فوری کمی کے امکانا ت نظر نہیں آرہے۔ بھارتی خارجہ سیکرٹری سبرامینیم جے شنکر بظاہر سارک کانفرنس پر صلاح مشورہ لے کر پاکستان آئے ہیں، لیکن اندرون خانہ بھارتی خارجہ سیکرٹری پاکستان کے ساتھ دو طرفہ بات چیت کا منقطع ہونے والا سلسلہ شروع کرنے کی خواہش کا اظہار کرنے آئے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی پاکستان کو مرعوب کرنے کی پالیسی کامیاب نہیں ہو سکی۔ مودی کی پالیسیوں کی وجہ سے پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ دوسری طرف چین کے ساتھ بھی بھارت کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہوا۔ دو اہم ہمسایوں کے ساتھ کثیر مراسم کی وجہ سے نریندرا مودی پر خود بھارت کے اندر بھی سخت تنقید ہوئی۔ جبکہ پاکستان میں بھارتی مداخلت کا معاملہ بھی کافی عرصے سے زیر بحث ہے۔ پاکستان میں بھارتی مداخلت کے حوالے سے متعدد شواہد کے علاوہ گزشتہ دنوں جنرل راحیل شریف بھی یہ بیان دے چکے ہیں کہ بھارت کو سمجھادیا کہ پاکستان میں مداخلت سے باز رہے، پاکستان میں دہشت گردی میں بھارت ملوث ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کی جانب سے سال 2009ءمیں مصر کے تفریحی مقام شرم الشیخ میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ اور پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے درمیان بات چیت کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں بلوچستان میں بھارت کی مداخلت کا معاملہ شامل تھا۔ دونوں ممالک کی جانب سے ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری پر جنگ بندی کے معاہدے کی متعدد بار خلاف ورزیاں کرنے کے الزامات سامنے آ چکے ہیں۔ تاہم ان میں شدت اس وقت آئی جب بھارت میں قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں آئی۔ نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد ایک طرف تو بھارت میں موجود مسلم کش فسادات اور نہتے کشمیریوں کے قتل عام میں اضافہ ہوا ہے اور بھارت میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جانے لگا، جس کی تازہ مثال گزشتہ روز بھارتی انتہا پسند ہندو تنظیم شیو سینا کا یہ بیان ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ اگر بھارت میں موجود مسلمان افراد مسلمانوں کی حیثیت سے اچھا سلوک چاہتے ہیں تو وہ پھر پاکستان چلے جائیں، ورنہ ہندو بن جائیں۔ اگر مسلمان بھارت سے کچھ چاہتے ہیں تو انہیں پہلے ہندوستان کو تسلیم اور وندے ماترم کا نعرہ لگانا ہوگا۔ مسلمان آزادی کا مطالبہ نہیں کرسکتے، کیوں کہ وہ اب تک اسلام سے جڑے ہوئے ہیں۔ جبکہ گزشتہ روز ہی بھارتی حکومت نے ریاست مہاراشٹر میںگائے کو ذبح کرنے پر پابندی عاید کر دی ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کے لیے مذہبی طور پر گائے کا گوشت کھانے کے حوالے سے مکمل آزادی ہے۔ اس کے باوجود بھارتی حکومت کی جانب سے مسلمانوں پر گائے کا گوشت کھانے پر پابندی عاید کردی گئی ہے۔اس بل کی منظوری کے بعد گاﺅ کشی کرنے یا اس کا گوشت فروخت کرنے والے کو دس ہزار روپے جرمانے کے ساتھ پانچ برس قید ہوسکتی ہے۔ دوسری جانب بھارت میں نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد پاکستان میں بھی دہشت گردی کی کاروائیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ بے جی پی کے رہنما نریندر مودی کے وزارتِ عظمیٰ کا حلف لینے کی تقریب میں وزیراعظم نواز شریف نے خصوصی طور پر شرکت کی تھی، لیکن بات اس سے آگے نہیں بڑھ سکی اور وقت گزرنے کے ساتھ دونوں ممالک کے تعلقات میں زیادہ تلخی آئی ہے۔

پاکستان میں بھارتی مداخلت کے حوالے سے ماہ جنوری میںپاکستانی حکام نے ملک کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں بھارت کے ملوث ہونے کے شواہدمریکا کے حوالے کیے تھے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے ایک رکن کے مطابق پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے گزشتہ سال نومبر میں امریکا کے دورے کے دوران امریکی حکام کو بھارت کے ملوث ہونے کے شواہد فراہم کیے تھے اور امریکا کو کہا گیا تھا کہ آپ ایک طرف شدت پسندی کے خاتمے کی بات کرتے ہیں تو اس میں دوہرا معیار نہیں ہونا چاہیے اور بھارت کو مغربی سرحدوں کے ذریعے مداخلت سے روکیں۔“ جبکہ ذرائع کے مطابق امریکا نے وعدہ کیا تھا کہ صدر اوباما کے دورہ بھارت کے دوران یہ معاملہ وزیراعظم مودی کے سامنے اس معاملے کو اٹھائیں گے۔ پاکستانی رکن کا کہنا تھا کہ پہلی بار بھارت کی مداخلت کے بارے میں شواہد امریکا کو فراہم کیے گئے ہیں، کیونکہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے اور اس کے خلاف عوام اور فوج کامیابی سے بھرپور مزاحمت بھی کر رہا ہے اور ان کوششوں کو بھارت قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں نقصان پہنچانے اور گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پاکستان کے حکام کے مطابق پاکستان میں کارروائیاں کرنے والے دہشت گرد پاکستان سے متصل افغان علاقوں میں روپوش ہیں اور وہاں سے پاکستان کے اندر کا کارروائیاں کرتے ہیں، جن کو افغانستان اور بھارت کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔ ان حقائق کے بعد امریکا یورپی یونین اوردوسرے اہم ملکوں نے بھی بھارتی وزیراعظم کو قائل کیا کہ ہمسایوں کو مرعوب کرنے کی ان کی پالیسی ان کے مفاد کے منافی ہے۔ اگرچہ امریکی صدر اوبامہ نے پاکستان کو دورہ تو نہیں کیا، لیکن حالیہ دورہ نئی دہلی میں بھارتی وزیراعظم کو پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کا مشورہ دیا۔ ذرائع کے مطابق امریکی صدر بارک اوباما اور بعض مغربی دارالحکومتوں کے دباﺅ کے علاوہ مقبوضہ کشمیر میں وزیراعظم نریندر مودی کی حکومتی حلیف پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی)کے سربراہ اور مقبوضہ علاقے کے کٹھ پتلی نئے وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید نے مودی کی بی جے پی سے اتحاد کے لیے پیشگی شرط رکھی تھی کہ بھارت سرکار پاکستان سے مسئلہ کشمیر پر بات چیت کا دروازہ کھولے گی، جس کے بعد نریندر مودی نے پاکستان سے سلسلہ جنبانی استوار کرنے کے لیے خارجہ سیکرٹری کو سیاسی ضرورت کے تحت پاکستان بھیجا ہے اوران عوامل کی وجہ سے بھارتی وزیراعظم علاقے میں بھارتی بالادستی قائم کرنے کی پالیسی پر ازسرنو غور کرنے پر مجبور ہوئے۔ پاکستان کے بارے میں وہ اپنی پالیسی پر یو ٹرن لینے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ اس لیے انہوں نے پاکستان سے بات چیت کے لیے مجوزہ سارک سربراہ کانفرنس کا سہارا لے کر مذاکرات کا آغاز کر دیا ہے۔ پاکستان دشمنی میں بھارت کی پاکستان مخالف پالیسیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ بھارت افغانستان میں پاکستان مخالف ٹریننگ کیمپ چلا رہا ہے۔ بھارت اپنے کارندوں کو تربیت دے کر افغانستان کے راستے پاکستان میں داخل کرواتا ہے جو کہ بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کروانے میں تو کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتا، حقیقت میں بھارت مذاکرات میں بھی مخلص نہیں ہے۔ حالیہ مذاکرات بھی صرف امریکا کے دباﺅ پر کیے جارہے ہیں، ورنہ بھارت پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں ہوسکتا۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 631197 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.