ڈیرہ غازیخان۔ پنجاب کا دور افتادہ ضلع اور خواتین کے مسائل

خواتین کے مسائل گراف میں سب سے اوپر ہنگامی بنیادوں پرتوجہ کی ضرورت ہے۔

ڈیرہ غازیخان پنجاب کا ایک دورافتادہ ضلع ہے جو کہ کئی حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے۔ ضلع کے ایک طرف مغرب میں طویل پہاڑی سلسلہ کوہ سلمان اور دوسری طرف مشرق میں شیر دریا سندھ اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ بہہ رہا ہے۔ کلچر کے اعتبار سے ڈیرہ غازیخان میں تمام کلچردیکھے جاسکتے ہیں کیونکہ اس شہرکی اپنی مخصوص جغرافیائی حیثیت ہے۔ پاکستان کے وسط میں واقع ہونے کی وجہ سے اس شہر کی حدود تمام صوبوں سے جاکرملتی ہیں۔ بلوچستان ، سندھ خیبرپختون خواہ کے ساتھ سرائیکی اور پنجابی کلچر ہو یا قدیم وجدید رحجانات اس شہر میں تمام مزاج کو دیکھا جاسکتا ہے۔ ضلع کی ٹوٹل آبادی کا 09۔50 فی آبادی عورتوں پر مشتمل ہے۔ اور یہ تعداد میں 12 لاکھ 97 ہزار سے بھی زائد ہے۔ عورتوں کی ایک کثیر آبادی کا حامل شہر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہاں کی عورتیں ملک دیگر شہروں کے مقابلے میں بہت پسماندگی کا شکار ہیں۔کسی بھی شعبہ کی بات کریں ڈیرہ غازیخان کی عورت کو بہت زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔ عورتوں کی کمزور معاشی حالت جیسا کہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اور ڈیرہ غازیخان میں بھی یہ مسئلہ بڑی شدت کے ساتھ موجود ہے۔ عورتوں کی معاشی حالت کے بہتر نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں ویمن کے ووکیشنل انسیٹیوٹ کی تعداد بہت کم ہے۔ اور ان انسیٹیوٹ میں پڑھائے اور سیکھائے جانے والے علوم اور ہنر کی اقسام بہت محدود ہیں۔ یہاں سہولیات کا فقدان تو ہے ہی اوپر سے ماہر اساتذہ بھی ناپید ہیں۔ جدید اور نئی ٹیکنالوجی کا یہاں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ضلع میں مجموعی طورپر 7 ووکیشنل انسیٹیوٹ فار ویمن ہیں۔ جن میں تحصیل ڈیرہ غازیخان میں 2 اور تحصیل تونسہ میں 3 اسی طرح تحصیل کوٹ چھٹہ میں 1 اور ٹرائبل ایریا میں بھی 1 ہیں۔ جوکہ ناکافی نہیں بلکہ بہت کم ہیں۔ اصولی طور پر ان کی تعداد 20 ہونی چاہیے تھی۔ ضلع کی جوبچیاں سکول اور کالج میں مزید آگے پڑھنے کے موقع سے کسی بھی وجہ سے محروم ہیں ان کے لیے ووکیشنل انسیٹیوٹ میں مختلف کورسز میں داخلہ لینے ایک اچھا موقع ہوتا ہے۔ یہاں وہ ہنر حاصل کرنے کے بعد کمرشل اور گھریلو سطح پر باعزت اور آسانی کے ساتھ روزگار حاصل کرسکتی ہیں جس سے ان کی معاشی حالت بھی بہتر ہوگی اور وہ خاندان میں معاشی بہتری کا سبب بھی بنیں گی جس سے ان کی خاندان میں سماجی حیثیت بھی بہتر ہوگی۔ اب اگر بات کی جائے ڈیرہ غازیخان میں عورتوں کی شرح خواندگی تو یہ بھی تسلی بخش نہیں ہے۔ عورتوں میں یہ شرح صرف 20 فیصد ہے۔ یہاں صرف 6 ویمن کالجز ہیں۔ تحصیل ڈیرہ غازیخان میں 2 او ر تحصیل تونسہ میں 2 اسی طرح تحصیل کوٹ چھٹہ میں بھی 2 کالج ہیں اصولی طور ان کی تعداد ہردو تحصیلوں کم از کم پانچ ، پانچ ہونی چاہیے خواندگی کو اگر بڑھانا ہے تو پھرویمن کالجز کی تعداد بھی بڑھائی جائے۔ ہمارا ملک اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک ہمارے ملک کی عورت کی ترقی نہ ہو اور عورتوں کی ترقی میں سب سے زیادہ اہمیت تعلیم کی ہے۔ پڑھی لکھی عورت ہی پڑھے لکھے معاشرہ کی ضامن ہے۔ جانے کب ہمیں اس کاادارک ہوگا۔ اور کب ہم اس پر توجہ دیں گے۔ معاشی۔ سماجی، سیاسی اور تعلیمی میدان میں عورتوں کو قومی دھارے میں شامل کئے بغیر ترقی نا ممکن ہے۔ ڈیرہ غازیخان کا شمار،ان اضلاع میں ہوتا ہے جہاں عورتوں کوصحت کے بھی بہت زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔ اور اس میں ماں اور بچے کی صحت کی بات کی جائے تو صورت حال اور بھی تشویش ناک ہے۔ پاکستان میں زچگی کے دوران ہلاکتوں کی شرح اگر260 فی ایک لاکھ خواتین ہے تو یہ شرح ڈیرہ غازیخان میں خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ ماﺅں اور نوزائیدہ بچوں کی صحت سے متعلق مسائل کا جائزہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دورانِ زچگی ہونے والی اموات کی بلند شرح کی وجہ دورانِ زچگی غیر تربیت یافتہ طبی عملے کی کمی، ناخواندگی ، غربت اور مناسب سہولیات کی عدم فراہمی ہے۔ ڈیرہ غازیخان میں یہ مسائل اور بھی شدت کے ساتھ موجود ہیں۔ ضلع میں زچگی کے دوران ہلاکتوں کی شرح 327 فی ایک لاکھ خواتین ہے۔ ٹیچنگ ہسپتال اور ڈی ایچ کیو، کے علاوہ 13 آر ایچ سی سنٹر میں ماں اور بچے کی صحت کے حوالے سے زچگی کی بھی سہولیات دی گئیں ہیں۔ مگر حقیقت میں یہ سہولیات برائے نام ہی ہیں اکثر سنٹروں میں ڈاکٹر سمیت دیگت عملہ کی شدید کمی ہے۔ ادویات نا پید اور ڈلیوری کٹس دستیاب نہیں ہوتیں۔ اس حوالے سے اصلاح واحوال کرنے کی بھی کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ ڈیرہ غازیخان کو عورتوں کے لیے ہر لحاظ سے بہتر اور محفوظ شہر بنانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ہماری حکومیتں اور عوامی نمائندگان پرگہری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ عوامی منتخب نمائندگان نے اگرچہ تاحال ایسا کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دیا کہ ہم اس کا بطور خاص ذکر کریں ضلع سے تعلق رکھنے والی خواتین ممبران اسمبلی نے بھی عورتوں کے لیے بطور خاص کچھ خاص نہیں کیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ضلع سے تعلق رکھنے والے ممبران اسمبلی وسینٹ علاقے کی تعمیروترقی کے لیے اور خاض طور پرخواتین کی ترقی ان کی بہتری کے لیے اپنی کوششوں کو تیز کریں اور لازمی ہے کہ یہ تمام پارلیمنٹیرین اس حوالے سے ایک یک نکاتی ایجنڈا پر متفق ہوں اور ڈیرہ غازیخان کی خواتین کی بھی سنی جائے جو پاکستان بھر میں پسماندگی کے گراف میں اوپر اور بنیادی سہولیات سے محرومی میں بھی آگے ہیں۔ معاشی۔ سیاسی۔ سماجی طور پر بہت سے مسائل کا شکار ڈیرہ غازیخان کی عورت اپنا حق مانگتی ہے۔ اب زرا، مختصر مختصرذکر ان سہولیات اورخدمات کا جوکہ یہاں سرے سے ہیں ہی نہیں یا برائے نام ہیں پورے ڈیرہ غازیخان میں ایک بھی سپورٹس گراونڈ اور گارڈن بطور خاص عورتون کے لیے نہیںہے۔ ضلع بھر میں ایک بھی فی میل پولیس اسٹیشن نہیں اور کسی بھی تھانہ کا، ایس ایچ او، خاتون نہیں ہے۔ فرسٹ ویمن بنک کی ایک بھی برانچ نہیں ہے۔ اسی طرح مصالحاتی کمیٹیاں فعال نہیں ہیں۔ کسی بھی سرکاری اور غیرسرکاری ادارے میں اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی فعال نہیں ہیں۔ ہر سطح کی ضلعی کمیٹیوں میں عورتون کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔
Riaz Jazib
About the Author: Riaz Jazib Read More Articles by Riaz Jazib: 53 Articles with 52765 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.