میرے باپ کا گھر ہے

 حضرت شوقؔ بہرائچی کا شعر ہے :
گھس جاؤں میں جنّت میں خدا سے بس یہی کہہ کر
یہ میرے باپ کا گھر ہے، آدم یہیں سے نکلے تھے

شوقؔ صاحب کا یہ ذاتی معاملہ ہے کہ وہ اپنے خدا سے کس طرح کی شوخی کے ساتھ ہمکلام ہونے کی جسارت کر سکتے تھے۔ اگر سنجیدگی سے دیکھا جائے تو شعر میں ظرافت کے ساتھ ساتھ سچّائی بھی ہے۔کیونکہ اﷲ تعالی کا وعدہ ہے کہ شرک کرنے والے مسلمانوں کے علاوہ ہر کسی کو اس کے گناہوں کی سزا کے بعدرسولؐ کی شفاعت پر بخش دیا جائے گا۔یہ بات میں اس بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ ہندوستان کے کیسریہ پوشاک اختیار کرنے والے مٹھی بھر نام نہاد دیش پریمی ٹھیکیداروں نے مسلمانوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ مسلمانوں کو بے وجہ مالی، ذہنی، جسمانی طور پر ستائے جانے پر ، نیکیاں بڑھتی ہیں، ہمارا یہ ایمان ہے ۔بہت ممکن ہے،انہیں نیکیوں کے طفیل میں ہمارا پروردگار ہمارے گناہوں کی سزا بھی نہ دے اور دائیں ہاتھ میں ہمارا اعمال نامہ تھما دے۔

اب ان سے کوئی پوچھے کیوں بھائی! تم یہ سب کس دھرم گرنتھ کی تعلیم کے مطابق کر رہے ہو؟ہندو دھرم میں مسلمانوں سے نفرت کرنے کا کوئی باب ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ رام چندر جی نے شبری کے جھوٹے بیر اس لیے کھائے کہ اس کا دِل نہ ٹوٹے اور تم مسلمانوں سے نفرت کر کے کون سا دھرم نبھا رہے ہو؟ اگر یہ مذہبی احکامات نہیں ہیں تویہ تم ’ادھرم‘ کر رہے ہو اور ادھرم کے کاموں کے انجام کو تم بہت اچھی طرح سے جانتے ہوکہ کِن کِن یونیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔بہر حال مجھے آپ لوگوں کو آپ کے مذہب سے رو شناس نہیں کراناہے کیونکہ جب آپ لوگ اپنے مذہبی آدیشوں خلاف سب کچھ کر سکتے ہیں تو اس ناچیز کی کب سنیں گے، یہاں تک کہ وزیر اعظم ہند کی باتوں کو جھٹلا سکتے ہو، انکار کر سکتے ہوتومیں کس کھیت کی مولی ہوں۔

مرا نیک مشورہ ہے کہ بیکار کی باتوں میں اپنا قیمتی وقت برباد نہ کریں، ملک کی ترقی کے لیے وزیر اعظم کا ساتھ دیں، ان کے کندھے سے کندھا ملا کر چلیں اس کام میں مسلمانوں کو اپنے آگے پائیں گے۔ہم نے ہندوستان کو بنایا ہے، سنوارا ہے،اپنے خون سے سینچا ہے کیونکہ یہ ہمارابھی ملک اتنا ہی ہے جتنا آپ کا ہے۔آپ لوگوں کو یہ بھی معلوم ہے حضرت آدمؑ نے دنیا میں جس جگہ اپنا پہلا قدم رکھا تھا وہ ملک ہندوستان تھا اور اس سچائی کے بل پر میں مندرجہ بالا شعر کے دوسرے مصرعہ میں شوقؔ بہرائچی سے معذرت کے ساتھ ترمیم کرنا چاہوں گا ؂
’یہ میرے باپ کا گھر ہے، آدم یہیں پہ اترے تھے‘
Shamim Eqbal Khan
About the Author: Shamim Eqbal Khan Read More Articles by Shamim Eqbal Khan: 72 Articles with 66955 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.