کیا کہنا

 کل ایک خبر ٹی وی چینلز پر چلی کہ شہر میں کُتے کا گوشت فروخت کیا جارہا ہے ۔ جبکہ ہماری بیگم نے بھی اسی روز گھر میں گوشت پکایا اب جب ہمارے سامنے گوشت آیا تو ہم نے فوراً بیگم سے کہا کہ تم نے شاید آج ٹی وی نہیں دیکھا ورنہ تم آج یہ نہ بناتی ، خیر اللہ کا نام لیکر ہم نے وہ گوشت تو کھا لیا لیکن دل میں طرح طرح کے خیالات آنے لگے اگلی صبح اخبار میں یہ خبر لگی کہ کسی نجی ٹی وی چینل نے اپنی رینکنگ بڑھانے کے لئے کتے ذبح کرواکر اور پھر اُنہیں پکڑواکر خبر کی دنیا میں باخبر ہونے کا اعزاز حاصل کرنے کی گھناؤنی کوشش کی ہے ۔ یعنی دو عدد ھیرونچی پکڑ کر ان سے یہ کام کروایا اور پھر اُنہیں حوالہ پولیس کر کے ھیرو بن بیٹھے ، وہ یہ جانتے ہیں کہ ھیرونچیوں کو پولیس زیادہ دیر اپنی تحویل میں نہیں رکھتی لیکن وہ لاکھوں عوام کے جذبات سے کھیل کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں یہ سوال ہے ؟ اگر با خبر رہنا ہے تو کبھی نادرا کے کسی بھی دفتر میں جاکے دیکھیں کس طرح وہ ایجنٹوں کے ذریعے عوام سے مال بٹور رہے ہیں ۔ کورٹوں میں جاکے دیکھیں کس طرح لوگ جھوٹے مقدمات کی پاداش میں سولی پہ لٹکے ہوئے ہیں ، پانی کس طرح بک رہا ہے یہ ان کو نظر نہیں آتا ، کس طرح شادی ہالوں میں فائرنگ کے واقعات ہو رہے ہیں یہ ان کو سنائی نہیں دیتے ، باقی رہا عوام کا معاملہ تو یہ ویسے ہی ان کے پینل پہ نہیں ہیں ۔ سرکاری اسپتالوں میں سسکتی ہوئی عوام کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ، غریب کا کوئی سننے والا نہیں امیر سے کوئی پوچھنے والا نہیں ، سچ اور جھوٹ میں کوئی فرق نہیں رہا ، کبھی بھی کسی حکومت نے غریب کی بات ایوانوں میں نہیں کی ، حزبِ اقتدار اور حزب مخالف کے جھگڑوں میں عوام کا کوئی فائدا نہیں ہوا ۔ ہر روز مختلف چینلز پر ٹھیکدار لوگ آکر بیٹھتے ہیں اور اپنا رونا رو کر اپنی دیھاڑی بناتے ہیں یہ لوگ وہ گنجے درخت ہیں جو نہ سایہ دیتے ہیں اور نہ کوئی ان سے کوئی پھل حاصل ہوسکتا ہے ۔ ان کے بارے میں ہمارے ایک دوست نے بہت خوب کہا ہے کہ " داعوا نہ کر کر جستجو کوئی پھل ملے تو پھر بتا ، یوں پیار کی باتیں نہ کر خود پیار کر پھر بتا ۔ ان کے جھوٹے داعوے اور کھوکھلے واعدے آدھی صدی سے چل رہے ہیں اور اب تو ان کی ایک نئی کھیپ تیار ہوچکی ہے جو نہ جانے کس بھنور میں ہمیں پھنسائیں ۔ کیا کہنا جی بس دیکھتے جائیں اور سنتے جائیں
شیدی یعقوب قمبرانی
About the Author: شیدی یعقوب قمبرانی Read More Articles by شیدی یعقوب قمبرانی: 14 Articles with 12927 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.