نفرت

دنیا میں کوئی انسان بلاوجہ کسی سے نفرت نہیں کر تا اس نفرت کے پیچھے ضرور کوئی نہ کوئی راز پنہاں ہوتا ہے یا کبھی حادثاتی طور پر بھی نفرت پیدا ہو جاتی ہے اکثر لوگ نفرت کی انتہا میں اپنے مخالف کے گرد جال بنتے ہیں اور پنچھی کے جال میں پھنستے ہی تشدد کرنے حتیٰ کہ اس کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے عام الفاظ میں اس قسم کی نفرت یا اشتعال انگیزی کو بدلہ بھی کہا جاتا ہے،انسانی سوچ وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ جتنی نرم ہے اتنی ہی پر تشدد بھی کہ کبھی کبھی گمان ہونے لگتا ہے کہ کیا انسان ایسا بھی ہو سکتا ہے جو ایک طرف تو بڑے سے بڑے واقعے کے بعد معاف کر دے اور دوسری طرف بلا وجہ، بے بنیاد نفرت کا اظہار کسی انسان کی جان لے کر کرے۔

ایڈولف ہٹلر ہمیشہ یہودیوں کے خلاف نئے الفاظ ایجاد کیا کرتا مثلاً یہودی ویمپائر ،ظالم ، ڈائینو سارز اور سوائن ہیں ان الفاظ کا استعمال عام طور پر میڈیا کے روبرو بھی کرتا تاکہ دنیا میں یہودیوں کے خلاف نفرت انگیز خیالات جنم لیں اور ہر انسان ان سے نفرت کرے،یہودیوں سے نفرت کرنے والے جرمن جرنیلوں جن میں ایڈولف سٹوکر ، اوئیگن دوہورنگ ،ہائن رچ اور تھیوڈور فرٹچ سر فہرست تھے لیکن یہودیوں کے خلاف نفرت کی چنگاری کو مزید بھڑکانے میں چیمبرلین کا بہت بڑا کردار تھا،ہٹلر کو یہودیوں کے خلاف بھڑکانے والا ہیوسٹن سٹیورٹ چیمبرلین جو رچرڈ ویگنر کا پوتا اور ماسٹر مائنڈ تھا کئی بار ہٹلر سے ملاقات ہونے پر یہودیوں کے خلاف گفتگو کیا کرتا ،چیمبرلین اٹھارہ سو پچپن میں برطانیہ کے شہر پورٹس ماؤتھ میں پیدا ہوا اور بے پناہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر بہت جلد مقبول اور بااثر شخصیت بن گیا،اپنی کتاب میں نمایاں انداز میں تحریر کیا کہ یہودی ہمارے دشمن اور معاشرے کو تباہ کرنے والی قوم ہے،ہٹلر نے اس کتاب کا گہری دلچسپی سے مطالعہ کیااور چیمبرلین کی تعریف کی۔ چیمبرلین برطانیہ کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتا تھا فرانس اور سوئیزر لینڈ میں پلا بڑھا وہیں تعلیم بھی حاصل کی، کچھ عرصہ جرمنی کے صحت افزا مقام باد ایمس میں رہائش پذیر رہا اور جرمن زبان پر عبور حاصل کرنے کے بعد گوئتھے ، شِلر اور ویگنرکے کارناموں کا مطالعہ کیا کرتا،ایوا نامی جرمن خاتون سے رشتہ ازدواج میں بندھنے کے بعد ایسٹ جرمنی منتقل ہو گیا،اس کا کہنا تھا غیر ملکی بالخصوص یہودی اور سلاوی باشندے جرمن قوم اور ثقافت کیلئے خطرہ ہیں ان غیر ملکیوں کے اثرات سے محفوظ ہونا ضروری ہے کئی سال تاریخ کا جائیزہ لینے کے بعد اپنی کتاب جو بارہ سو صفحات پر مشتمل تھی میں تحریر کیا کہ انیسویں صدی میں یہودیوں کو ختم کر دیا جائے گاکیونکہ یہ لالچی اور شیطان قوم ہے اس قوم کا صفحہ ہستی سے خاتمہ ضروری ہے،مغربی تاریخ اور ثقافت کا مطالعہ کرنے کے بعد اس نے جرمنوں اور یہودیوں کے بارے میں نہایت تلخ الفاظ استعمال کئے اور کہا کہ ان دونوں قوموں کا تنازعہ ہمیشہ رہے گالیکن جیت ایک قوم کی ہی ہو گی یہودیوں کے بارے میں اس نے یہ تک کہا کہ یہ شیطان ذہنی مریض ہیں ان کے گندے خون کی صفائی اشد ضروری ہے یہ قوم ہماری ہی نہیں بنی نوع انسان کی دشمن ہے ان سازشیوں کو غلام بنا کر نیست و نابود کر دیا جانا چاہئے نہیں تو یہ دنیا میں تباہی پھیلا دیں گے،چیمبرلین کی یہ کتاب ’’ رچرڈ ویگنر سوسائٹی ‘‘ اٹھارہ سو نناوے میں مارکیٹ میں آئی اور بیسٹ سیلر ثابت ہوئی اسکے بعد نئے ایڈیشن پبلش ہوئے اور انیس سو انتالیس تک دو لاکھ پچاس ہزار افراد نے ان ایڈیشنز کا مطالعہ کیا۔ چیمبرلین نے انیس سو سولہ میں جرمن شہریت حاصل کی انیس سو تئیس میں اس کے جسم میں زہر پھیلنا شروع ہو گیا کئی بار ہٹلر نے اس کی تیمارداری کی اور اسکی تصنیفات کو سراہا ،انیس سو ستائیس میں جرمنی کے شہر کو بُرگ میں اس کا انتقال ہوا ہٹلر نے اسکی آخری رسومات میں شرکت کی۔ ہٹلر کو چیمبرلین کے الفاظ نہیں بھولے جو اس نے اپنی کتاب میں تحریر کئے تھے اگر ہٹلر کو موقع ملے تو میرے الفاظ پر ضرور غور کرے کہ دنیا میں یہودیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے والا واحد شخص ہٹلر ہے۔

بعد ازاں ہٹلر نے بھی اپنی کتاب ’’ میری جنگ ‘‘ میں کئی بار چیمبرلین کے خیالات کا تذکرہ کیا اور یہودیوں سے نفرت کرنے والے چیپٹرز کو نمایاں الفاظ میں بیان کیا چیمبرلین کا تجزیہ سو فی صد درست تھا کہ یہودی کس قماش کی قوم ہے اور اس کا ختم ہو جانا ہی بنی نوع انسان پر ایک عظیم احسان ہو گا۔ ہٹلر کی کتاب میری جنگ (مائین کَمپف) کو نئے سرے اور ترتیب دینے کے بعد جرمنی کے کچھ پبلشرز دو ہزار سولہ تک مارکیٹ میں روشناس کروانے کا ارادہ رکھتے ہیں میری جنگ دو ہزار صفحات اور پانچ ہزار کمنٹس پر مشتمل ہے جس میں تاریخی دھماکا خیز باقیات تفصیل سے بیان کی گئی ہیں اس کتاب کے دو ایڈیشن اور قیمت ایک سو ٹھاون یورو ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ ہٹلر کی میری جنگ کسی نئی جنگ کا آغاز نہ ہو؟۔
Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 226018 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.