دہشت گردی کی جنگ اور ہماری ذمہ داری

ثنا بتول ہمارے معاشرے کا ہی حصہ ہے ہماری طرح ہی سوچتی ہے۔اس ملک میں قیام امن کے لیے وہ بھی اسی طرح خواب دیکھتی ہے جیسے ہمارے وزیر اعظم کی اولین ترجیح ملک میں امن کا قیام ہے۔ یا آصف زرادری سے جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق اس دھرتی کو امن کا گہوارہ دیکھناچاہتے ہیں۔ جس طرح دہشت گردوں کو تختہ دار پر لٹکتا دیکھنا ہزاروں شہدا ء کے وارث آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا خواب ہے ۔ ثنا بتول بھی دہشت گردوں اور امن کے دشمنوں کے متعلق کچھ ایسے ہی جذبات و احساسات اپنے دل میں بسائے ہوئے ہے۔ پاکستان کے عوام کی جان و مال کی حفاظت کے بارے میں حکومتی اقدامات پر وہ بھی عدم اطمینان کا اظہار کرتی ہے، وہ کہتی ہے ’’یہ کیسا ملک ہے جہاں ظالم تن کر اپنا ظلم قبول کرتا ہے لیکن اسے کوئی سزا نہیں دی جاتی ……جہاں ظالم ظلم دھڑلے سے کرتا ہے مگر وہ قانون کی گرفت میں نہیں آتا، جہاں مقتول اور مظلوم کو پناہ ڈھونڈنا پڑتی ہے اور مجرم سینہ تان کر زندگی بسر کرتا ہے ……‘‘وہ ارباب اختیار و اقتدار سے سوال کرتی ہے کہ ’’ ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟ پھر خود ہی جواب دیتے ہوئے کہتی ہے کہ ’’جب تک ظالم اور مقتول خود مظلوم اور قاتل نہ بن جائیں…… ہمارا کیسی حکومت سے سابقہ پڑا ہے جو اپنے شہریوں کی جام و مال کی حفاظت کا ذمہ خود نہیں لیتی بلکہ انہیں اسلحہ تھما دیتی ہے کہ مارو یا مر جاؤ…… آخر میں ثنا بتول پاکستانی عوام سوال دریافت کرتی ہے کہ ’’ ہم کب اپنے حقوق پہنچانیں گے اور کب نیند غفلت سے بیدار ہوں گے؟‘‘ ایک اور پاکستان کا درد دل رکھنے والے دوست طارق حمید چودہری جو کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری میں خدمات دیتے رہے ہیں وہ ثنا بتول کے گلے اور شکوؤں کے جواب میں کہتے ہیں کہ ’’ ہمارے حقوق ایک طرف کیا یہ لوگ آسمان سے آتے ہیں؟ یقینا ایسا نہیں ہے یہ کسی نہ کسی کے ہمسایہ ہوں گے ،کسی نہ کسی کے رشتہ دار ہوں گے یا کسی کے ساتھ رہتے ہوں گے ؟ طارق حمید چودہری سوال کر تے ہیں کہ ’’ اس ساری صورت حال میں ہم کہاں کھڑے ہیں ہم کیوں آنکھیں کھول کر نہیں دیکھتے ؟ ہم کیوں پولیس کو انفارمیشن دیتے؟‘‘

ابھی یہ فکر انگیز بحث کا سلسلہ جاری تھا کہ ورلد کپ میں شروع ہوگیا اور قوم پاک بھارت میچ کے بخار میں متلا ہوگئی اور آرمی پبلک ،امامیہ مسجد حیات آباد،سانحہ شکار پور سمیت پچھلے تمام سانحات میں لقمہ اجل بن جانے والے ہم وطنوں کو ہم بھول گئے۔ کسی کا دکھ اور غم ہمیں یاد نہیں رہا ۔ اور جشن منانے کا بھوت ہمارے سروں پر ایسے سوار ہوا کہ جیسے ملک میں کچھ ہوا نہیں…… سارا ملک دہشت گردی کی جنگ کا ایندھن بننے والوں کو بھول کر کرکت ٹیم کے پیچھے پڑ گئی ،ٹیم کے کھلاڑیوں کی نماز جنازہ ادا کرنے میں جت گئی۔ ہار جیت کو کھیل کا حصہ ماننے کی بجائے یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ ہم نے ہارنا نہیں بس جیتنا ہی ہے۔ بندہ ان سے پوچھے کہ بھئی جیسے مدمقابل ٹیم کھیلنے نہیں آئی؟شہدائے دہشت گردی و بربریت کا تو ہم جنازہ پڑھنے کو تیار نہیں اور ایک میچ ہارنے پر پوری ٹیم کا جنازہ وہ بھی غائبانہ پرھانے اور پڑھنے میں لمحہ کی تاخیر کرنا گوارا نہیں کرتے ۔کیسے کیسے ہمارے مشغلے ہیں-

دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تنظیموں اور افراد کو معافی دینے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ کچھ طبقات طالبان (ان کی جتنی بھی اقسام ہیں) کو عام معافی دینے کے حق میں ہیں تاکہ انہیں عام معافی دیکر قومی دھارے میں لایا جائے اور ان سے قومی ترقی میں کام لیا جائے۔ طالبان کے لیے عام معافی کے لیے ان کی دلیل یہ ہے کہ غلطی کی معافی دیکر ہم آگے بڑھ سکتے ہیں…… جبکہ دوسرے طبقات جن کی نمائندگی طارق حمید چودہری کر رہے ہیں کا موقف ہے کہ’’ غلطی کا مفہوم یہ ہے کہ ہر وہ عمل جو انجانے میں ہو جائے ( ’’انجانے میں ‘‘ کی تعریف میں بہت کچھ سما سکتا ہے) اس میں ’’علم ‘‘کی کمی بھی شامل کی جا سکتی ہے،…… نیت کرکے جوئی بھی عمل کیا جائے اور عمل کرنے والا اپنے عمل کے نتائج سے بھی ’’ باخبر‘‘ یا آگاہی رکھتا ہو تو اسے غلطی نہیں مانا جائے گا‘‘ ایک گروہ کہتا ہے کہ ’’ جب غلطی کرنے والوں کو معافی ملنے کے مواقع دستیاب ہونے لگتے ہیں تو ان کے لیے غلطیاں کرنے کا عمل آسان ہو جاتا ہے‘‘ -

میرے محترم استاد محمود شام صاحب بتاتے ہیں کہ ملک کے معروف صحافی جناب مجید نظامی مرحوم کہا کرتے تھے کہ ’’ غلطی وہ ہوتی ہے جسے وقوع پذیر ہونے سے قبل ہی دبوچ لیا جائے یعنی پکڑ لیا جائے لیکن جب غلطی وقوع پذیر ہو جائے تو وہ غلطی نہیں ’’ بلینڈر‘‘ کے زمرے میں آجاتا ہے۔جو مذہب اپنے پروکاروں کو یہ درس دیتا ہے کہ اپنی زبان کے استعمال میں احتیاط برتا کریں کیونکہ تیر اور تلوار کے زخم تو کبھی نہ کبھی بھر جاتے ہیں لیکن زبان سے لگے زخم تاحشر تازہ رہتے ہیں۔لیکن گفتار کے نشتر تو ایک طرف سلامتی کے سبق تعلیم کرنے والے دین اسلام کے لافانی فرمودات کو ہم ( طالبان سمیت وہ سب جو دوسروں کو تکلیف پہنچا کر لذت محسوس کرنے پر فخر سمجھتے ہیں)فراموش کیے ہوئے ہیں۔

میں ثنا بتول اور طارق حمید چودہری دونوں سے متفق ہوں کیونکہ حکومت کی یہ ذمہ دار ی ہے کہ وہ اپنی رعایا کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنائے اور عوام کا بھی فرض ہے کہ وہ حکومت کی طرف دیکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے فرائض بھی ادا کرے اور بقول طارق حمید چودہری اپنے آس پاس رہنے والوں پر نظر رکھیں اور مشکوک سرگرمیوں میں ملوث افراد کی اطلاع سکیورٹی کے ذمہ دار اداروں کو دے کر قوم و ملت کا حق ادا کریں ……میرا یقین ہے کہ جس دن ہم نے اپنی ان ذمہ داریوں کو پہنچان لیا دہشت گرد اپنی موت آپ مر جائیں گے اور ہمار ا جنت نظیر پاکستان امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ایک میچ کا جشن منانے کے لیے دہشت گردی کا شکار ہونے والے شہدا اور ان کے لواحقین کے دکھوں کو بھلا دینے والی قوم کو زمبابوے سے جیت مبارک ہو-
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 143738 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.