تعلیم اور ہم

کسی بھی قوم میں تعلیم ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اقوام ِمغرب کی ترقی کی سب سے بڑی وجہ تعلیم ہے ۔ تعلیم شعور و آگہی بخشتی ہے ۔ یہ تعلیم ہی ہے ، جس کے بل بوتے پر آج انسان کی رسائی چاند تک ہو چکی ہے ۔انسان اپنے سیارے یعنی زمین کو تو مسخر کر ہی چکا ہے ، لیکن اب دوسرے سیاروں پر بھی کمندیں ڈالنے کو ہے ۔ میں تعلیم اور علم کے مابین فرق کا قائل نہیں ہوں ۔ دونوں کو ایک ہی چیز سمجھتا ہوں ۔تعلیم یا علم ہر بچے کا بنیادی حق ہے ، جو اسے ضرور ملنا چاہیے ۔

مگر اپنے ملک پاکستان میں تعلیم کی حالت ِ زار دیکھ کر نہایت افسوس ہوتا ہے ۔ 26 فروری 2015 ء (بروز جمعرات) کو روز نامہ جنگ کراچی میں سندھ کے گرنمنٹ اسکولوں کے حوالے سے ایک خبر شائع ہوئی ۔ میرے خیال میں یہ خبر ہر اس شخص کو متفکر اور پریشان کردے گی ، جو پاکستان کی تعلیمی صورت ِ حال پر نظر ِ عمیق رکھتا ہے ۔ اس خبر کی چیدہ چیدہ باتیں یہ ہیں ۔

بین الاقوامی طور پر یو این او نے تعلیم کا کم از کم معیار قومی مجموعی آمدنی کا چار فی صد رکھا ہے ۔جب کہ ہماری ملک میں تعلیم کے شعبے کے لیے قومی مجموعی آمدنی کا دو فی صد مختص کیا جا تا ہے ۔
سندھ میں تعلیمی بجٹ کے لیے 134 ارب روپے سالانہ مختص ہیں ۔ جس میں سے 125 ارب روپے تنخواہوں کی مد میں چلے جاتے ہیں ۔ بقیہ سات فی صد کا بڑا حصہ کرپشن کی نذر اور دیگر اخراجات پر خرچ ہوتے ہیں ۔

(ایک حالیہ تعلیمی سیمینار کے مطابق ) سندھ میں 49500 اسکولوں میں سے 44500 پرائمری 4900 مڈل اور سیکنڈری اسکول ہیں ۔ جن میں سے 22 ہزار اسکولوں میں پینے کا پانی اور 24 ہزار اسکولوں میں بجلی کی سہولت موجود نہیں ۔ 18 ہزار اسکول غیر فعال ہیں ۔ جن میں اکثریت گوداموں اور وڈیروں کی اوطاقوں کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق سندھ میں خواندگی کا تناسب شہری علاقوں میں 55 فی صد اور دیہی (علاقوں) میں 42 فی صد ہے ۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سندھ بھر میں 11 ملین بچوں میں سے صرف 4 ملین بچے اسکولوں میں داخل ہیں ۔ پانچ سے سولہ سال تک کے 39 فی صد بچے گورنمنٹ اسکولوں میں جاتے ہیں ۔پہلی سے میٹرک تک نہ پہنچ پانے والے بچوں کا تناسب 67 فی صد ہے ۔ 66 فی صد بچے اپنی مادری زبان میں دس جملے نہیں لکھ سکتے ۔78 فی صد کو سادہ جمع ضرب نہیں آتی ۔ 75 فی صد انگریزی کا ایک جملہ نہیں لکھ سکتے ۔ جب کہ 62 فی صد اسکول نہیں جاتے ۔

سندھ میں اساتذہ کی تعدادایک لاکھ 46 ہزار ہے ۔ جن میں سے پچاس ہزار اسکول نہیں جاتے ۔۔۔۔۔80 فی صد استاد انگلش نہیں لکھ سکتے ۔ 36 فی صد کو انگریزی ، سندھی اور ریاضی نہیں آتی ۔

سندھ میں ضلع ٹھٹھہ تعلیمی لحاظ سے ملک کے 144 اضلاع میں سے 140 نمبر پر اور سندھ کے 23 اضلاع میں سے 22ویں نمبر پر ہے ۔

یہ ہے صوبہِ سندھ کے گورنمنٹ اسکولوں کی تعلیمی صورت حال۔گورنمنٹ اسکولوں کی نا گفتہ بہ تعلیمی و انتظامی صورت حال کے باعث والدین اپنے بچوں کو وہاں نہیں بھیجتے ۔ لیکن جب وہ پرائیویٹ اسکولوں میں بھیجتے ہیں تو وہاں بھاری بھر فیسیں ، مہنگے کورسز اور کئی قسم کے دیگر اخراجات ان کی کمر توڑ دیتے ہیں ۔اس طرح تعلیم تک صرف ان لوگوں کی رسائی ممکن ہوتی ہے ۔ جو امیر لوگ ہوتے ہیں ۔ غریب کا بچہ نہ گورنمنٹ اسکول میں پڑھ سکتا ہے ۔ نہ پرائیویٹ اسکول میں ۔ نتیجتا وہ تعلیم سے محروم رہتا ہے ۔ کیوں کہ گورنمنٹ اسکول میں پڑھائی نہیں ہوتی اور پرائیو یٹ اسکول تک رسائی نہیں ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ غریب کا بچہ پڑھائی سے زیادہ کام کو ترجیح دیتا ہے


پاکستان کا آئین بچوں کو تعلیم دینا ریاست کا فرض سمجھتا ہے ۔لیکن پھر ہمارے تعلیمی اداروں کی حالت نا گفتہ بہ کیوں ہے ۔ اگر تعلیم بنیادی حق ہے تو اس سے پہلو تہی کرنا کوئی ا چھا عمل نہیں ہے ۔ اس سے غفلت برتنا نئی نسل کو اندھیروں میں دھکیلنے کے مساوی ہے ۔ ہم جدید دنیا میں بغیر تعلیم کے ترقی نہیں کر سکتے ۔حقیقت یہ ہے کہ اگر گورنمنٹ اسکولوں کی حالت ٹھیک ہو جائے تو ہماری شرح خواندگی خود بہ خود بڑھ جائے گی ۔مگر ایسا کرنے کے لیے کئی قسم کے سخت قوانین بنانے ہوں گے ۔ جو اساتذہ اسکولوں میں پڑھانے کے لیے نہیں آتے ، ان سے جان چھڑانی ہوگی ۔اچھی اور معیاری تعلیم کے لیے قابل اور اہل لوگوں کو آگے لانا ہوگا ۔اس کے علاوہ نقل کا سدباب بھی از حد ضروری ہے ۔نقل وہ دیمک ہے ، جو ہماری تعلیم کو اندر ہی اندر سے چاٹ رہا ہے ۔ بات پھر وہی آجاتی ہے ۔ اگر اساتذہ بچوں کو صحیح طور پر پڑھائیں گے ۔ نقل کا سد ِباب بھی خود بہ خود ہو جائے گا۔

پوری دنیا تعلیم کی حقیقت اور اس کی اہمیت سے با خبر ہو چکی ہے ۔پوری دنیا اس حقیقت کا ادراک رکھتی ہے کہ تعلیم کے بغیر جدید دنیا کی جدیدیت سے فائدہ اٹھا نا عبث ہے ۔ تعلیم نہ صرف انسان میں عقل اور شعور کا اضافہ کرتی ہے ، بلکہ یہ کسی بھی ملک کی معاشی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ خبروں کی مشہور ویب سائٹ ڈی ڈبلیو کے مطابق:
"ایشیائی ریاستیں بھارت اور چین واضح کرتی ہیں کہ تعلیم کا ایک معاشی فائدہ بھی ہے۔ پچاس کی دہائی میں جنوبی کوریا کا آج کی افریقی ریاستوں سے بھی برا حال تھا۔ مردوں عورتوں کے لیے مساوی تعلیم کے علاوہ شعبہ صحت میں سرمایہ کاری نے وہاں کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چین کی تیز رفتار ترقی، تعلیم کے شعبے میں کی جانے والی اصلاحات کے مرہون منت ہے۔ پچیس برس سے کم عمر ہر نوجوان کے لیے تعلیم ایک بنیادی موضوع ہے، جو نوجوانوں کی زندگی کا تعین کرتا ہے۔ چینی حکومت اس بات کی بھی واضح مثال ہے کہ وہاں مزید آزادی دیے بغیر تعلیم پر زور دیا جا رہا ہے لیکن اس طرح کا نظام اسی وقت تک چلتا ہے، جب تک اکثریت اس کے پیچھے کھڑی ہے۔"

اگر ہمیں جدید دنیا میں ترقی حاصل کرنی ہے تو ہمیں تعلیم پر خصوصی توجہ دینی ہوگی ۔ بہ صورت ِ دیگر ہم جہاں ہیں ، وہیں رہیں گے ۔
Naeem Ur Rehmaan Shaaiq
About the Author: Naeem Ur Rehmaan Shaaiq Read More Articles by Naeem Ur Rehmaan Shaaiq: 122 Articles with 145289 views میرا نام نعیم الرحمان ہے اور قلمی نام نعیم الرحمان شائق ہے ۔ پڑھ کر لکھنا مجھے از حد پسند ہے ۔ روشنیوں کے شہر کراچی کا رہائشی ہوں ۔.. View More