چنگو اور منگو کی سیاسی نوک جھونک - ( قسط اول )

دہلی انتخابات کے نتائج سارے ٹی وی چینلس پر زور و شور سے نشر ہورہے تھے۔نامور صحافی چونگیری لال عرف چنگوکی آنکھںے سے حیرت سےوہ مناظر کو دیکھ رہی تھیں۔ وہ کانوں سے غیر یقینی باتیں سن رہا تھا اور گرم گرم معلومات قلمبند کرتا جارہا تھا گویا ہمہ تن اپنےتازہ مضمونمیں ٖغرق تھا کہ اچانک شاہ جی کی ماننداس کے بچپن کا یار منگیری لال عرف منگو بن بلائے آ دھمکا ۔ چنگو سمجھ گیا کہ اب اس کا کام بند ہو جائیگا یہ نووارد نہ کچھ دیکھنے کی اجازت دے گا اور نہ سننے کی مہلت دے گا بس مودی جی کی طرح اپنے ہی گن گاتا رہے گا ۔ چنگو معذرت خواہانہ انداز میں ہاتھ جوڑ کر بولا بھائی منگیری لال معاف کرنا میں فی الحال ذرا مصروف ہوں کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ تم کچھ دیر میں اپنا بچا کچا کام نمٹا کر آجاو تاکہ ہم لوگ فرصت سے گپ شپ کرسکیں ۔

منگیری چہک کر بولا کام ؟ کیسا کام ؟؟؟ اب تو آم ہی آم ؟ چنگو نے حیرت سے کہاا س موسم میں آم ؟ تمہارا دماغ تو ۰۰۰۰۰۰۰وہ میری بات کاٹ کر بولا ارے بھائی کیوں اپنا وقت خراب کرتے ہو جو شہ موجود ہی نہ ہو وہ خراب کیسے ہو سکتی ہے ۔ ویسےاگر آم خراب بھی ہو جائے تو چنتا کی کوئی بات نہیں بلاتکلف کھڑکی سے باہر پھینک دینا ۔ ہر طرف ہماری پارٹی کا جھاڑو چل رہا ہے صفائی ہو جائیگی۔ چنگو نے پھر حیرت سے پوچھا تمہاری پارٹی ۔ تمہیں کس احمق نے اپنی پارٹی میں لے لیا ۔ منگیری سینہ ٹھونک کر بولا بھئی مجھے کون روک سکتا ہے ۔ تمہیں یاد ہوگا ایک زمانے تک میں بھی اناّ تھا تم بھی اناّ تھے ۔ اب ہم سب عام آدمی ہیں ۔ عآپ ہماری پارٹی ہے اگر اروند کیجریوال بھی ہمیں روکےن کی جرأت کرے گا تو ہم لوگ اسے خاص آدمی بنا کراسےپارٹی سے نکال دیں گے ۔

منگیری کے آم اورمنگیری کی باتیں اب چنگوکی سمجھ میں آنے لگی تھیں۔ ٹیلی ویژن کب کا بند ہو چکا تھا اور چنگوکے قلم کا سر نہ جانے کباجئےماکن کی مانند قلم ہو چکا تھا ۔ اب صرف اس کے کان سن رہے تھے ۔ اگر چنگوکے علاوہ کوئی اور منگیری کے منہ سے یہ جملہ سنتا کہ وہ کیجریوال کو عآپ سے نکال دے گا تو شاید بیہوش ہو کر گر جاتا لیکن اسے پتہ تھا یہ عام آدمی ہے یہ کچھ بھی کرسکتا ہے یہ مودی جی کے ہوش اڑا سکتا ہے تو کیجریوال بیچارا کس کھیت کی مولی ہے۔چنگونے اس کی تائید کو اورکہا جی ہاں بھائی مجھے پتہ ہے تم کچھ بھی کرسکتے ہو اب بتاؤ کہ یہاں کیا کرنے کیلئے آئے ہو ۔ منگیری بولا اتنے سارے اوٹ پٹانگ سوالات کے بعد تم نے یہ پہلا کام کا سوال کیا ہے؟ خیر میں تو اپنی فتح کا جش منانے کیلئے تمہارے پاس حاضر ہوا تھا لیکن تم تو بالکل سنگھیوں کی مانند منہ لٹکائے ، آستین چڑھائے مجھ پر چڑھ دوڑے ۔

چنگو اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے بولا نہیں بھائی ایسی بات نہیں دراصل تمہارے آنے سے قبل میں عام آدمی پارٹی کی کامیابی کا جشن ٹیلی ویژن پر دیکھ رہا تھا تاکہ اخبار کیلئےمضمون لکھ سکوں ۔ایک ایسا مضمون کہ جس کو دیکھ کر تمہارا میرا مطلب ہے ہمارا کیجریوال بھی خوش ہو جائے۔ منگیری بولا کیجریوال کو خوش کرنے کی خاطرتمہیں چنداں زحمت کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس کو دہلی کی عوام نے اس قدر خوشی نواز دیا ہے کہ نواز شریف بھی حیرت زدہ ہے ۔ اس کے پاس اپنی خوشی کو رکھنے کیلئے جگہ نہیں اس لئے اب وہ مرکزی حکومت سے گزارش کرکے آم کے خالی گودام کرائے پر لینے والا ہے تاکہ آم کا موسم آنےتک اس سے کام چلائے اور جب پارلیمان کےآنگن میں لگے پیڑ پر آم کا پھل پک جائے تو پھر اس کا مزہ لے سکے۔

چنگو نے کہا دیکھو منگیری جب سے اپنے اناجی دہلی چھوڑ کرنندی گرام رخصت ہوئے ہیں۔ منگیری درمیان میں ٹوک کربولا ابے بیوقوف تو اناّ جی کے گاوںکا نام تک نہیں جانتا ؟ میں کیجریوال کو بول کر تجھے بھی ان کے پاس بھجوا دوں گا۔ منگیری اس طرح بول رہا تھا گویا چنگو کو کالا پانی روانہ کردے گا۔ چنگو نے حیرت سے پو چھا تو مجھے کہاں بھجوائے گا ؟ اناجی کے گاوں کا کیا نام ہے ۔ منگیری بولا وہ تو میں بھی نہیں جانتا لیکن یہ جانتا ہوں کہ نندی گرام نہیں لیکن فکر کی بات نہیں کیجریوال جانتا ہے ۔ وہ سب جانتا ہے وہ تجھے بنا ٹکٹ بھجوا دے گا۔ منگیری اس طرح بول رہا تھا گویا وہ چنگو کا نہیں بلکہ کیجریوال کا لنگوٹیا یار ہے۔ چنگو نےمنگیری کو چھیڑنے کیلئے پوچھا کیوں بے؟تجھے کیسے پتہ چل گیا نندی گرام اناّ جی کا گاوں نہیں ہے؟

منگیری بڑے اعتماد بولا تو کیا مجھےکوئی معمولی آدمی سمجھتا؟ چنگو بولا نہیں بھائی پہلے تو میں تجھے عام آدمی سمجھتا لیکن اب پتہ چلا تو کیجریوال کا خاص آدمی ہے لیکن یہ نندی گرام کا کیا ماجرا ہے؟ منگو بولا دراصل میں نندی گرام جاچکا ہوں؟ اچھا چنگو نے حیرت سے پوچھا تو وہاں کیسے پہنچ گیا؟ منگو سینہ پھلا کر بولا وہ دراصل سی پی ایم والے مجھے وہاں لے گئے تھے ۔ چنگوکو حیرت ہوئی سی پی ایم والے اس احمق کو کیوں لے گئے ؟اس نے پوچھا وہاں تو سی پی ایم کے خلاف تحریک چل رہی تھی ۔ وہ تجھے یہاں دہلی سے کیوں لے گئے؟ منگو نے کہا یہی توتم جیسا احمق صحافی نہیں سمجھ سکتا۔ ہم لوگ دراصل وہاں اس تحریک کا زور توڑنے کیلئے گئے تھے۔ ہمارا کام تھا مظاہرین میں شامل ہو کر ہلڑ بازی کرکےتحریک کو بدنام کرنا ۔ چنگو نے پوچھا اس کام کیلئے دہلی سے لوگوں کو لے جانے کی ضرورت میری سمجھ میں نہیں آتی؟ منگو بولا سی پی ایم والے باہروالوں کی مدد سے یہ کام کرانا چاہتے تھے تاکہ اگردھر لئے جائیں تو کسی کو شک نہ ہو۔چنگو بولا وہاں تو پولس ان کی اپنی تھی جب سیاں بھے کوتوال تو ڈر کاہے کا۔ منگو نے کہا سچ تو یہ ہے کہ آج کل سیاسی جماعتوں کو پولس سے زیادہ تم جیسےخونخوار صحافیوں کا ڈر لگا رہتا ہے۔

چنگو کے لئے یہ کہانی دہلی انتاپب سے زیادہ دلچسپ ہوتی جارہی تھی اس نے پوچھا تو تم نے کیا کیا؟ ہم نے وہاں جاکر گاوں والوں کی خوب دھنائی کی اور کیا؟ اچھا! چنگو نے حیرت سے پوچھا لیکن تم تو ۰۰۰۰۰۰منگو بولا ہاں ہاں سی پی ایم والوں نے تو صرف ہلڑ مچانے کے پیسے دئیے تھے لیکن ممتا جی نے کہا تم گاوں والوں کو خوب مارو پیٹوتاکہ سی پی ایم خوب بدنام ہو جائے۔ اچھا تو پھر تم نے کیا کیا؟ ہم نے وہی کیا جو ممتا دیدی نے کہا ۔ کیوں؟ چنگو نے سوال کیا۔ اس لئے کہ وہ اوپر کی آمدنی تھی اور چونکہ سی پی ایم کی حکومت تھی اس لئے ہمیں کی کاڈر بھی نہیں تھا۔ چنگو بولا اوہو تو ایسی بات ہے میں تو تمہیں اناّ جی کا آدمی سمجھتا تھا لیکن تم تو کچھ اور ہی نکلے۔ منگو بولا یہ تم سے کس نے کہہ دیا کہ میں اناّ جی کا آدمی نہیں ہوں بلکہ جب سے انہوں نے کیجریوال کو مبارکباد دے دی ہے کچھ زیادہ ہی ان کا آدمی ہو گیا ہوں ۔
چنگو نے حیرت سے پوچھا یہ کچھ زیادہ کیا ہوتا ؟ وہ بولا اتنا بھی نہیں جانتے۔ زیادہ تو بس زیادہ ہوتا ہے جیسے دہلی میں ہماری کامیابی تمہیں نہیں لگتا کہ کچھ زیادہ ہو گئی ہے ۔ چنگو بولا مجھے کیا خود کیجریوال نے ابھی ابھی ٹیلی ویژن پر اس کا بڑی انکساری کے ساتھ اعتراف کیا ہے۔ منگو نے کہا بھائی جس پیڑ پر آم زیادہ ہوتے ہیں وہ جھکا ہوا ہوتا ہے اور ببول کے درخت کو دیکھو وہ کڑوا کسیلادرخت کس طرح اکڑا ہوا ہوتا ہے ۔ چنگو نے معصومیت سے پوچھا کس کی طرح میرا مطلب ہے اشارہ کہ تمہارااشارہ کس طرف ہے ؟ منگو بولا تم بہت بھولے ہو میرے دوست ۔ بھئی اپنے وزیراعظم کی طرح دون ان کا چہرہ ٹیلی ویژن پر کیا نہیں دکھائی دیا کہ تم انہیں بھول ہی گئے ۔ چنگو نے کہا میں انہیں اتنی آسانی سے نہیں بھول سکتا ۔ اناّ جی کی تحریک ختم ہوئی تو میں بالکل بیروزگار سا ہو گیا لکھنے کیلئے کوئی ڈھنگ کا موضوع ہی نہیں ملتا ۔ منگو نے پہلی بار سوال کیا پھر؟ پھر کیا ہوا؟ چنگو بولا پھر ؟ پھر مودی جی مل گئے اور میں ان کےبھجن گانے لگا ۔ میری آمدنی بھی تمہاری طرح دوگنی ہو گئی ۔ اول تو اخبار والے خوشی خوشی مضمون شائع کرتے اورنذرانہ بھی دیتے۔ اس کے بعد جب مضمون چھپ جاتا تو میں اس کی نقل مودی جی کے دفتر بھیج دیتا وہاں سے بھی ہر ماہ چیک آجاتا ۔ سچ تو یہ ہے کہ جس مودی جی کو بی جے پی نے وزیراعظم کا میدوار بنایا میرے تو اچھے دن اسی وقت سے آگئے تھے ۔

منگونے بھرپور تائید کی اور بولا سچ میں دوست اس دوران میں نے بھی خوب کمائی کی ۔ پہلے تو بنارس میں ڈیرہ ڈال دیا ۔ پھر ہریانہ ، مہاراشٹراور جموں کشمیر۔ قسم سے پہلی بار کشمیر گیا تو وہاں سے واپس آنے کا من نہیں کرتا تھا لیکن کیا کروں پاپی پیٹ یہاں واپس لے آیا۔چنگو بولا تجھے کشمیر کا دکھ ہے میں تو مودی جی کے ساتھ امریکہ ، جاپان اور آسٹریلیا کی سیر کرکے چلا آیا لیکن اب لگتا ہے کہ ان کے چکر میں رہیں گے تو جشودھا بین کے گاوں کیا نام ہے تمہیں پتہ ہے ۔ منگو بولا اس گاوں کا نام جاننے سے کیا فائدہ وہاں مودی جی نہ صرف صحافیوں بلکہ ہم جیسے سیاسی کارکنان کی ضرورت سے بھی بے نیاز ہوں گے ۔ بس وہ اور ان کی بین میرا مطلب بیوی ہوگی ۔ خوب گذرے گی جو مل بیٹھیں گے ۰۰۰۰۔ چنگو بولا جی ہاں میں بھی یہی سوچتا ہوں کہ اب اگر مودی جی دہلی میں بھی رہے تو ان پر لکھنےسےاپنا گزارہ نہیں ہوگا ۔ منگو نے پوچھا کیوں؟ دہلی الیکش کے نتائج سے پتہ چل گیا ہے کو لوگ ان کے بارے میں پڑھ پڑھ کر پک گئے ہیں۔ اب ان کی تعریف میں لکھے جانے والے مضامین کا چھپنا مشکل ہے اور ان کے خلاف لکھے جانے والے مضمون پر وہ روپیہ کیوں دیں۔ مجھے تو ڈر ہے کہیں ٹاڈا لگا کر جیل نہ بھجوا دیں بلکہ سہراب الدین کی طرح انکاؤنٹر نہ کروادیں ۔

منگو نہایت ہمدردانہ انداز میں بولا ایسے مایوس نہیں ہوتے میرے شیر ۔ اب تم اپنا سرُ بدل دواور کیجریوال جی کی تعریف و توصیف شروع کردو مضامین بھی چھپنے لگیں گے اور میں دکشنا کا بھی بندوبست کروادوں گا۔ منگوبلا کی خود اعتمادی کے ساتھ ہانک رہا تھا اس لئے چنگوکو اس پر اعتماد کرنا پڑا۔ چنگو نے کہا اچھا تو مجھے کرنا کیا ہوگا ؟ وہ بولا تم اناّجی سے ملنے ان کے گاوں جاوگے اور ان کا نٹرویو لے کر آوگے۔ منگو احکامات صادر کررہا تھا ۔ چنگو نے کہا تم جو ابھی کہہ رہے تھے بلاٹکٹ ؟ تو بھئی بلاٹکٹ میں اتنا لمبا سفر کیسے کروںگا؟ منگو بولا کیسے کروگے ؟ ٹرین سے کروگے اور کیسے؟ کوئی ٹکٹ پوچھے تو کہہ دینا کہ میں کیجریوال کا قاصد ہوں اور ان کے کہنے پر اناّ جی سے ملنے جارہاہوں بس کوئی تمہیں ٹچ نہیں کرسکتا ۔ کیا سمجھے ؟ اور اگر کوئی گڑ بڑ کرے تو ۰۰۰۰۰۰ چنگو نےکہا ہاں یہی میں پوچھنے والا تھا۔ منگو بولا مجھے پتہ تھا ۔ کیجریوال کی طرح مجھے بھی سب پتہ ہے۔ اگر کوئی پریشان کرے تو فون پر مجھ سے بات کروادینا ۔ میں سب ٹھیک کردوں گا۔ چنگو سمجھ گیا اگر اِس شیخ چلی کواُس نے مشکل میں فون کیا تو کمبخت فون ہی نہیں لے گا۔

چنگو نے منگو سے کہا وہ تو ٹھیک ہے دوست میں جب رالےگن سدھی جاوں گا، سو جاوں گا لیکن اب تومجھے کچھ لکھنے دو تاکہ اس وقت اپنا پیٹ بھر سکوں ، منگو بولا یہ تجھے اچانک رالے گن جانے کی کیا سوجھی ؟ چنگو نے حیرت اس کی جانب دیکھ کر ابھی تو تو کہہ رہا تھا کہ اناّجی کے گاوں جاوں ۔ ان کا گاوں رالے گن نہیں تو کیا ہے؟ منگو بولا اچھا اچھا میں سمجھ گیا ۔ ویسے مجھے یاد آیا کیجریوال نے انہیں حلف برداری کی تقریب میں آشیرواد دینے کیلئے انہیں دعوت دے رکھی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ ضرور آئیں گے۔ تو یہیں ان سے مل کر انٹرویو لے لینا۔ اتنے دور جانے کی کیا ضرورت؟ منگو بڑی صفائی کے ساتھ پینترا بدل رہا تھا ۔ چنگو بولا ہاں یار یہ اچھا ہے لیکن وہ کب آنے والے ہیں؟ کیجریوال نے تو تمہیں بتایا تو ہوگا ؟ منگو بولا لگتا ہے انہوں نے ابھی تک دعوت قبول نہیں کی ورنہ کیا مجال ہے کہ کیجریوال مجھے نہ بتائے ۔ چنگو نے اسے چھیڑنے کیلئے کہا کہیں ایسا نہ ہو کہ روٹھے پیا میرا مطلب روٹھے انّا جی کو منانے کیلئے وہ وہ تمہیں اپنا قاصدِ خاص بنا کر بھیج دے۔

منگو کو چنگو کا یہ مذاق اچھا نہیں لگا وہ بولا تو میری چھوڑ اور اپنی سوچ ۔ چنگو بولا میرا کیا ہے مجھے تو بس انٹرویو لینا ہے جو میرے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ منگو بڑے ناصحانہ انداز بولا لیکن میرے دوست تو ان سے وہی سوال پوچھنا جوکمار وشواس تجھے لکھ کر دیں اور ان کا وہی جواب لکھنا جو یوگیندر یادو بتائیں کیا سمجھے ؟ اپنی طرف سے کوئی بات نہ لکھ دینا۔ چنگو نے حیرت سے پوچھا اور اناجی کی طرف سے؟ ان کی بھی وہ باتیں شائع کردینا جس کی اجازت سسودیا جی دے دیں ۔ چنگو نے پوچھا یہ درمیان میں سسودیاکہاں سے آگیا۔ اوہو تم نہیں جانتے۔ یہ اب دہلی کا نائب وزیراعلیٰ ہے اور کیجریوال کو جسے بھی کچھ دینا ہوگا اسی سسودیا کے ہاتھ سے دیا جائیگا۔ لیکنآشیرواد کون دے گا ؟ انا یا سسومیرا مطلب ہے سسودیا؟ بھئی کیجریوال کو اناّ اور تم کو سسودیا دکشنا کے ساتھ آشیرواد بھی دیں گے ۔

چنگو بولا سمجھ گیا مگر میں نے توسنا تھا لوگ آشیرواد لینے جاتے ہیں دینے نہیں آتے۔ منگو بولا وقت وقت کی بات ہے دوست انتخاب جیتنے سے قبل لوگ آشیرواد لینے جاتے ہیں لیکن جب کامیاب ہو جاتے ہیں تو آشیرواد دینے والے خود چل کر آتے ہیں ۔ تجھے یادہےکسی زمانے میں مودی کے پاس کیجریوال کیلئے وقت نہیں تھا اب کیسے نکل آیا؟ چنگو بولا ہاں یارتیری یہ بات توکم ازکم صحیح ہے۔ منگو بگڑ کر بولا یہی کیوں میری سب باتیں صحیح ہیں اور سن میں تجھے اپنا مضمون شائع کرانے کی زبردست ترکیب بتاتا ہوں تو اپنا مضمون میرے کارٹون کے ساتھ بھیج دے ۔ اس کارٹون کے طفیل اگر وہ پہلے صٖفحہ پر شائع نہ ہو تو میرا نام بھی منگو نہیں کیا سمجھا۔چنگو یہ سن کر چونک پڑا اور بولا منگو تیراکارٹون ؟ بھئی کارٹون تو مشہور لوگوں کا بنتا ہے تاکہ کارٹون بنانے والا ان کا چہرہ کتنا بھی بگاڑ دے تب بھی لوگ اسے پہچان جائیں تجھے کون پہچانتا ہے؟

منگوبولا بے وقوف میرا کارٹون سے مراد میرا بنایا ہوا کارٹون۔ وہ کارٹون جس کا میں خالق ہوں۔ چنگو نے پوچھا تو نے کارٹون بنا دیا تو ایک لکیر توسیدھی کھینچ نہیں سکتا کارٹوں کیسےبنادیا؟ منگو بولا منطق غلط ہے کارٹوں کے اندر کوئی لکیر سیدھی نہیں ہوتی لیکن اب زمانہ بدل گیا۔ یہ گوگل کا زمانہ ہے اس میں کارٹونسٹ کا آرٹسٹ ہونا لازمی نہیں ہے۔ چنگو نے پوچھا اچھا تو پھر کیا ضروری ہے؟ منگو بولا بس اس کے پاس انٹرنیٹ کا ہونا کافی ہے ۔گوگل پر جاؤ چند تصویریں نکالو ان کو فوٹو شاپ میں لے جاکر کھچڑی پکاو اور دیکھو کارٹوں تیار۔ یہ کہہ کر اس نے چنگو کو ایک شکاری کی تصویر دکھلادی جو ایک بندر کو پکڑ کر لے جارہاتھا۔ شکاری کے دھڑ پر کیجریوال کا سر اور بندر کے گردن مودی چہرہ لگاہواتھا ۔ چنگو نے مسکرا کرپوچھا اگر نتائج الٹے آتے تو؟ منگو بولا بس چہرے بدل جاتے اور کیا شکاری کی جگہ بندر اور بندر کی جگہ شکاری۔ کارٹون وہی رہتا۔

چنگو نے کہا یار منگو بے وقوف بنانے کیلئے تجھے کوئی اور نہیں ملا صبح سے کم ازکم دس لوگ مجھے واٹس اپ پر یہ کارٹون بھیج چکے ہیں اور اب تو کہہ رہا ہے کہ یہ تو نے بنایا ہے کم ازکم جھوٹ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ منگو بولا اس میں جھوٹ کی کیا بات ہے ۔ جن دس لوگوں نے یہ کارٹون بھیجا توکیا ان سب اسے بنایا ہے ؟ چنگو بولا نہیں سب ایک ہی کارٹون کیسے بنا سکتے ہیں؟ منگو نے پھر سوال کیا ان میں سے کسی دعویٰ کیا ہے کہ یہ اس کی اپنی تخلیق ہے؟ چنگو بولا نہیں سب تمہاری طرح ڈھٹائی کےساتھ جھوٹ تھوڑی نا بول سکتے ہیں ؟ منگو نے کہا اگر انہوں نے بنایا نہیں تو بھیجا کیسے ؟ چنگو بولاارے بھائی اس میں کون سی بڑی بات ہے۔کسی نہ کسی نے تو اسے بنایا ہی ہوگا ۔ انہوں نے تو بس یہ کیا اس کارٹون وصول کیا اور آگے بڑھا دیا ۔ منگو بولا بہت خوب اب یہ بتاو ٔ کہ وہ کارٹوں بنانے والا کوئی اور تمہارا یہ دوست منگو نہیں ہو سکتا۔ کیا تم یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہو؟

چنگو چپ ہو گیا ۔ منگو نے کہا بولو چپ کیوں ہو ۔ بولتے کیوں نہیں۔اس کے بعدحاتم طائی کے انداز میںمنگو بولا میں تو کہتا ہوں اپنے نام سے بھیج دو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ میں عام آدمی ہو ں میرا دل بہت کشادہ ہے تم نے نہیں دیکھا بی جے پی کو ۵ فیصد نشستیں نہیں ملیں پھر بھی ہم نے انہیں حزب اختلاف کی کرسی دان کر دی۔ اپنی جیب سے کیا جاتا ہے اور وہ ۳کر بھی کیالیں گے۔ ہمارے احسان تلے دبے رہیں گے ۔ چنگو بولا مان گئے استاد تم نےتو مودی جی کو بھی مات دے دی۔ منگو بولا اب یہ جی جی کرنا چھوڑو اور مضمون لکھو۔

(اس من گھڑت نوک جھونک کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ بھی نہیں ہے۔ پھر بھی اگر آپ کو دلچسپی ہو تو دوسری قسط کا انتظار کیجئے)
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1207164 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.