نواز شریف کی مقبولیت میں کمی کے عوامل .....؟

اب یہ بات تسلیم کرنی ہی پڑے گی کہ نوازشریف کی مقبولیت میں بہت حد تک کمی ہوچکی ہے ۔اقتدار بہت بڑے امتحانوں کا نام ہے۔ سیاست دان الیکشن کے دوران بلند بانگ دعوی تو بہت کرتے ہیں لیکن اقتدار ملنے کے بعد اپنی پرجوش تقریریں اوردعوے بھول جاتے ہیں ۔ نواز شریف کو اقتدار ملے دو سال ہونے کو ہیں ابھی تک کوئی میگا پراجیکٹ شروع نہیں کیا جاسکا جس سے کوئی تبدیلی نظر آتی۔ یونیورسٹیوں ٗ کالجز سے نوجوان ڈگری لے کر فارغ ہورہے ہیں لیکن ان کے لیے تو کاروبار کے کوئی مواقع ہیں اور نہ ہی ملازمت کے۔ وہ کونسا گھر ہوگا جہاں بے روزگار نہیں ہے ۔پھر نواز شریف کہاکرتے تھے کہ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ ختم کرکے ہم انقلاب لائیں گے ۔ سردیوں میں گیس اور گرمیوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ عذاب بن جاتی ہے ۔ اخباری اطلاع کے مطابق ایک ہزار فیڈر ایسے ہیں جہاں بجلی مسلسل فراہم کی جاتی ہے ۔ الیکشن سے پہلے جب سپریم کورٹ نے یکساں لوڈشیڈنگ کا حکم دیا تھا تو اس وقت نوازشریف نے بھی بیان داغ دیاتھا کہ ہم اقتدار میں آکر کر یکساں لوڈشیڈنگ کریں گے اقتدار ملتے ہی یہ وعدہ بھی باقی وعدوں کی طرح بھول گئے ۔شیر کو ووٹ دینے والے شرمندگی کے سمندر میں ڈوبتے جارہے ہیں نہ ان کو قائدین تک رسائی حاصل ہے جنہوں نے سیکورٹی کانام سے اردگرد بلند دیواریں تعمیر کررکھی ہیں اور نہ ہی حکومت کی ڈھنگ ٹپاؤ پالیسیوں کی وجہ سے مسائل حل ہوتے نظر آرہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بے شمار بے روزگار مسلم لیگی بھی عمران کے ہم رکاب ہوچکے ہیں ۔اگر نوازشریف اقتدار میں آتے ہی کرپشن کے خاتمے کے لیے سخت ترین ادارہ بنا کر احتساب کرتی اپنے اور بیگانوں کا فرق مٹاکرکے لوٹی ہوئی دولت واپس لینے کااہتما م کرتی اور یہ رقم بجلی اور گیس کی قلت دور کرنے پر خرچ کرتی تو شاید کچھ عزت بچ جاتی لیکن لیٹروں کے شہنشاہ زرداری اور پیپلز پارٹی کے کرپٹ ترین لوگوں کو فری ہینڈ دے کر یہ ثابت کردیا ہے کہ قومی خزانے کی لوٹ مار میں زرداری اور نواز دونوں ہم پیالہ ہم نوالہ ہیں۔نہ زرداری کو عوام کی حالت پر رحم تھااور نہ ہی نواز کو ہے ۔پھر حکومت کے خواجہ آصف ٗ اسحاق ڈار ٗ شاہد خاقان عباسی ٗ نثار چوہدری جیسے وزیروں نے اپنی نااہلی کی بنا پر عوام کو پے درپے عذابوں میں مبتلا کررکھا ہے۔ عوام کے شدید احتجاج کے باوجود یہ بدترین لوگ اب بھی وزارتوں پر سوار ہیں۔پٹرولیم کی قیمتوں کو کم کرنے کا جو کریڈٹ عوام کو دیاجانا تھا نواز حکومت کی بدترین انتظامیہ اس میں بھی بری طرح ناکام ہوچکی ہے ۔ آج بھی اشیائے خورد نوش اور ادویات کی وہی قیمتیں ہیں جو 110 روپے فی لیٹر پٹرول کے وقت تھیں۔اگر حکومت کے پاس اعداد وشمار نہیں ہیں تو کراچی سے شائع ہونے والا اخبار" ڈیلی بزنس ریکارڈر" ہر اتوارکی اشاعت میں تمام اشیاء کے ریٹس شائع کرتا ہے سات سال پہلے کے اخبارات نکال کرچیک کرلیے جائیں جو قیمتیں اس وقت 70 روپے فی لیٹر کی تھیں ان قیمتوں کو مقرر کرکے تھوک اور پرچون فروشوں کو پابند کردیاجائے کہ آئندہ ہر چیز کی قیمت میں کمی و بیشی حکومت خود کرے گی۔قیمتیں کم کرنے کا اور کوئی طریقہ نہیں ہے۔ اداروں میں لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہوں والے افسران بھرتی کرکے قومی خزانے پر بوجھ تو ڈال دیاجاتاہے لیکن یہ افسر اپنی ذمہ داریوں اور عہدوں سے انصاف نہیں کرتے اور دفتروں تک محدودہوکر عوام کو لوٹتا ہوا دیکھ کر تماشائی بن جاتے ہیں۔ نواز شریف کواب کوئی غرض نہیں رہی کہ عوام کس حال میں ہے پیٹ بھر کر روٹی بھی کھاتے ہیں یا نہیں ۔انہیں نہ عوام کی فکر ہے اور نہ ہی اپنے مسلم لیگی کارکنوں کی ۔ پچاس پچاس گاڑیوں کے حصار میں سفر کرنے والے حکمرانوں کواپنی جان کی فکر ہے ٗ رب کی گرفت کا بھی خوف نہیں رہا ۔ اگر نواز شریف کو عوام کے مسائل کا ذرا بھی ادراک ہوتا ہے تو سب سے پہلے بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرتے ۔یہ آسان طریقہ ہے کہ بنکوں کی 20 ہزار برانچوں ٗ فائیو سٹار ہوٹلوں کو اگر سولر انرجی پر منتقل ہونے کا حکم دے دیا جائے تو موجودہ بجلی بھی عوام کے لیے وافر ہوجاتی ہے ۔ ایران سے گیس اور 3 ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کر ضرورتیں پوری کی جاسکتی ہیں لیکن پابندیوں کا بہانہ بناکر ٹالاجارہاہے۔چین کے تعاون سے جن میگاپراجیکٹس کا شور گزشتہ پونے دو سال سے مچایا جارہاہے وہ ابھی تک شروع نہیں کیے جاسکے پونے دو سال ہنی مون میں ہی گزار لیے ہیں۔اسحاق ڈار جیسے بے رحم شخص نے نہ صرف 661 ارب کے مزید قرضے لے کر عالمی ریکارڈ قائم کردیا ہے علاوہ ازیں ہر چیز پر بھاری سیلز ٹیکس لگا کر عوام کو زندہ درگور کردیا ہے ۔حکومت کہتی ہے کہ ان کے دور میں کرپشن کاکوئی کیس سامنے نہیں آیا لیکن واپڈا ٗ سوئی گیس ٗ شناختی کارڈ ٗ پاسپورٹ ٗ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ٗ لائسنگ اتھارٹی ٗ ڈسٹرکٹ ٗ عدالتوں سمیت پبلک ڈیلنگ والے جس محکمے میں بھی جائیں ہر کام کے لیے رشوت کے ریٹس مقرر ہیں ۔سرکاری ہسپتالوں میں علاج نام کی کوئی چیز نہیں ہے سنئیر ڈاکٹر چیک کرنا گناہ سمجھتے ہیں جونئیر ڈاکٹروں کوہڑتالوں سے ہی فرصت نہیں۔ اس کے باوجود کہ شہباز شریف معاہدوںMOU کی سنچری کرنے والے ہیں لیکن عوامی مفاد کا ایک منصوبہ بھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچاسکے ۔ میٹرو کے لیے الگ سڑک بناکر 30 ارب روپے ضائع کرنے والوں کو لاہور کی ہر چھوٹی بڑی شاہراہ پرٹریفک جام دکھائی نہیں دیتی ۔اس رش کو ڈبل منزلہ سڑکیں تعمیر کرکے ہی ختم کیاجاسکتا ہے لیکن اس جانب کوئی توجہ ہی نہیں۔ان حالات میں ہر شخص یہی کہتاہوا دکھائی دیتا ہے کہ ارب پتی حکمران جن کی دولت اور بچے دوسرے ملکوں میں محفوظ ہیں ان سے بہتری کی کیا امید کی جاسکتی ہے۔حکومت 21 ارب ڈالر کا ایل این جی کا مہنگامعاہدہ تو کرسکتی ہے لیکن تین سے پانچ روپے فی یونٹ پیداکرنے والے تھرکول پراجیکٹ کے لیے پیسے نہیں ہیں۔حکومت کے یہی اقدامات اسے غیر مقبول کررہے ہیں اگر قبل ازوقت الیکشن ہوتے ہیں تو یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ شریف برادران کی کامیابی مشکوک ہے۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 653020 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.