کمال کرتے ہیں پانڈے جی

کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ وہ سب کچھ کرڈالوں ، جو کسی نے نہیں کیا ہو ، لیکن شیر آفریدی بھائی کی ایک بات اچھی لگی کہ ، قومی مفاد میں یہ کر رہے ہیں ، قومی مفاد میں یہ ہو رہا ہے ، قومی مفاد میں وہ کیا تھا ، غرض قومی مفاد کے نام پر عوام کا ہمیشہ بیڑا غرق کیا گیا ۔بے ساختہ ایک فلم کے مشہور مکالمہ ذہن میں دوڑ گیا اور کچھ اور کہنے کے بجائے یہ کہہ دیا کہ ‘ کمال کرتے ہیں پانڈے جی ‘ ۔جی ہاں دراصل ہم ہر بات میں کمال کرتے ہیں لیکن اس کمال کا ہمیں خود بھی پتہ نہیں چلتا ، مملکت کی سرزمین ہو اُس پر لینڈمافیا کا قبضہ ، سرکاری املاک ہوں تو اُس پر افسران کا قبضہ ، ایوان اسمبلی ہوں تو اُس پر اراکین کا قبضہ ، سینیٹ کی انتخابات ہوں تو اُس پر دولت مندوں کا قبضہ، عدالتیں ہوں تو جلد انصاف فراہم نہ کرنے والوں کا قبضہ ، تھانے ہوں تو ایماندار افسران و اہلکاروں کے بجائے کرپٹ اور لاقانونیت کرنے والوں کا قبضہ،امن کا معاملہ ہو تو اس پر دہشت گردوں کا قبضہ اور تو اور اب یہ خبر بھی پڑھی کہ اٹھارہ بیس سالوں سے کچھ افراد کا کرکٹ بورڈ پر قبضہ ہے۔ ہم نے اپنے ایمانوں پر بے ایمانی کا لبادہ اوڑھ رکھاہے ، ملت کے بجائے لسانیت اور گروہی بندی کو جگہ دے رکھی ہے۔21فروری کو مادری زبان کا دن منایا گیا ۔دانشور ورں نے بڑی روشنیاں ڈالیں ، تاریخ بیان کی ، لیکن کمال کرتے ہیں یہ پانڈے جی کہ نہیں بتاتے کہ ماں کی زبان تو شریں، محبت ، پیار ، ایثار اور قربانی سے لبریز ہوتی ہے ، ہمارے یہاں کون سی زبان ہے پانڈے جی یہ نہیں بتاتے ، میں ایک صاحب کے شناختی کارڈ کے فارم کی تصدیق کیلئیسترہ گریڈ آفسر کو تلاش کررہا تھا ،لیکن شومئی قسمت کوئی دستیاب نہیں ہو رہا تھا ، میری خرابی تقدیر اسی عارف میاں سے پوچھ لیا کہ ، عارف بیٹا ، یہاں ڈاکٹر کہاں ملیگا ؟ ۔ وہ معصومیت سے اٹھا اور رگمال مجھے تھامادیا ، میں نے حیرانگی سے پوچھا کہ ابے یہ کیا ہے ؟۔ وہی دل نشین ، جی جلانے والا انداز کہ ، بھائی آپ نے ہی تو کہا تھا۔ اب اس بار سر پکڑنے کی باری میری تھی ، میں نے کہا ، کٹی پہاڑی میں ایک بھی ایم بی بی ایس ڈاکٹر ، سرکاری اسکول ، سرکاری آفسر، کالج نہیں ہے ، تم سے ڈاکٹر کا پوچھا تو تم نے رگمال پکڑا دیا ۔کہنے لگا ، بھائی ، ڈاکٹر کا کیا کرنا ہے ، پورے علاقے میں جاہل ، لوگ ایم بی بی ایس بن کر ڈاکٹر بنے بیٹھے ہیں ، سرکاری ایک اسکول بھی نہیں ، پرائیوٹ اسکول ، بھاری فیسوں کے نام پر این جی اوز بنا کر فنڈنگ کرتے ہیں،سرکاری آفسر ، اس غریب آبادی میں کیوں رہے گا ، اس لئے میں آپ کو رگمال دیا کہ چراغ تو ہے نہیں کہ رگڑیں اور جن آجائے اور کہے کیا حکم ہے میرے آقا ؟میں نے اُسے غور سے دیکھا کہ کمال کرتے ہیں پانڈے جی ، یہ عقلمندی کی باتیں آپ نے کہاں سے سیکھیں ؟ تو وہ کہنے لگا کہ اچھا یہ عقلمندی کی باتیں ہیں ، میں تو سمجھا تھاآپ غصہ ہونگے۔ میں نے خاموشی سے راہ پکڑی اور جن کا فارم تصدیق کروانا تھا انہیں ایک ایسے سرکاری ڈاکٹر کے پاس بھیج دیا جو وہاں علاج کے لئے نہیں بلکہ شناختی فارم کی تصدیق کرنے کیلئے روز رات دس بجے آتا تھا ، اور ایک فارم کے سو روپے لیکر اس نا پرساں آبادی کو عذاب سے نجات دلاتا تھا۔
میں سوچنے لگا کہ اگر یہ بھی نہیں ہوتا تو اس علاقے کی عوام کیا کرتی۔ ایک صاحب نے کہا کہ کچھ نہیں کرتی ، اب دیکھ لو کہ فاٹا کے تقریبا 20لاکھ نفوس پر مشتمل قبائل اپنے گھروں سے بے گھر ہیں ، کوئی روزگار ، معاشی معاونت نہیں ، صحت کی سہولیات میسر نہیں، مگر پھر بھی ہم زندہ قوم ہیں ، پائندہ قوم ہیں ہم سب کی ہے پہچان اپنا آپ ۔۔۔۔ میں نے کہا کمال کرتے ہیں پانڈے جی،اب لوگوں کی اپنی بھی تو غلطی ہے کہ انھوں نے ایسے حالات کیوں جنم لینے دئیے کہ گھروں سے بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے ، یہ کوئی ایسی قوم تو تھی نہیں کہ بابو صاحب کی طرح ، ہمیشہ قلم ہاتھ میں رکھا ہو ، بلکہ بچے کی پیدائش پر اتنی فائرنگ کرتے ہیں کہ امریکہ سمجھتا ہے کہ اس پر حملہ ہوگیا ہے، اتنڑ اور خٹک روایتی رقص کرتے ہیں تو تلواروں کوچابک دستی سے لہراتے ہیں ، بچے گلی کوچوں میں ، گیند ڈبا ‘، گرم ٹیپو ، کا نشانہ پتھر سے نہیں بلکہ اپنے گھروں میں طاق دانوں میں سجائے کلاشنکوف سے کھیل کر نشانہ بازی سیکھتے ہیں ، ان پر چند عناصر کیونکر حاوی آگئے کہ لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے ، یہی تو وہ قوم تھی کہ چند گھوڑوں پر سوار ہوکر دہلی کے تخت پر بیٹھ جاتے اور ہندوستان فتح کرلیا کرتے تھے ، کچھ تو بات ایسی غلطی ہے جس کا یہخمیازہ بھگت رہے ہیں۔

انھوں نے مجھ سے کہا کہ تو اورکراچی میں؟؟ میں نے پھر کہا کہ کمال کرتے ہیں پانڈے جی ، کراچی کو کہاں سے ملا رہے ہیں آپ ، کراچی میں ’جنات رہتے ہیں جو نامعلوم ہیں ، راتوں سرکاری زمینوں پر قبضہ ہوجاتا ہے ، حکومت کوپتہ تک نہیں چلتا ، یہی عوام جاکر مہنگے مہنگے فلیٹس خرید لیتی ہے ،پارکس کی جگہ پر چائنا کٹنگ ہوجاتی ہے ، کوئی ایکشن نہیں لیتا بلکہ سفارشی ڈھونڈتا ہے کہ یار ، کسی سے ایک فلیٹ تو دلا دو،راتوں رات غیر قانونی ہائیڈرینٹ بن جاتے ہیں ، حکومت کو پتہ ہی نہیں چلتا ، حکمران جماعت کے ایک سابق وزیر نے ایکشن لیا تو انھیں اُس عہدے سے ہی ہٹا دیا گیا ، واٹر گولڈ مافیا کے بارے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کہا کہ ان کی آمدنی دہشت گردوں کی فنڈنگ کا ہم ذریعہ ہے ، سپریم کورٹ کے حکم پر ہائی ڈرینٹ کچھ ختم کئے ، بتاتے ہیں کہ اٹھارہ رہ گئے ، جو پانچ ہزار سے دس ہزار تک پانی فروخت کر رہے ہیں لیکن ٖغریب عوام کو علم ہونا چاہے کہ ریٹ تین ہزار روپے ہیں ، رسید ضرور حاصل کریں۔ وزیر اطلاعات آپ بھی کمال کرتے ہیں ، زمینوں پر قبضہ ہوجاتا ، فلیٹس بن جاتے ہیں،غیر قانونی ہائی ڈرینٹ بن جاتے ہیں ، اس وقت تو کچھ کرتے نہیں ، پھر بعد میں پریس کانفرنسیں کرکے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں ،واقعی کمال کرتے ہیں پانڈے جی اب یہی دیکھ لیں کہ ، جہاں سرکاری ملازمتوں میں میرٹ نہیں وہاں تعلیمی اداروں میں بھی میرٹ اور پالیسی نہیں ہے ، لڑکیاں ڈاکٹر بن کر نامعلوم گروپ کی طرح غائب ہوجاتی ہیں ، پردے دار خواتین ، لیڈی ڈاکٹرز تلاش کر رہی ہوتی ہیں اور ڈاکٹر بن جانے والی فیشن ایبل اسٹیٹس کو کی مالک سیلفی بنا کر ٹوئٹر اور فیس بک پر شئیرز کرتی ہیں کہ ہم اب ڈاکٹر کہلائیں گے ، ڈاکٹر تو ایک وہ بھی ہے ، جس کو کراچی یونیورسٹی نے ڈگری دینے سے انکار کردیا کہ تم تو پہلے گریجویشن کرلو ، ڈاکٹریٹ تو دور کی بات ہے ،ان سے پوچھا کہ پھر اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر کیوں لگا رکھا ہے تو کہنے لگے کہ مجھ میں اتنی لیاقت ہے کہ لوگ مجھے ’ پیار ‘ سے ڈاکٹر کہتے ہیں۔ اسی طرح ہر شہر ، کوچے میں ’ پیار ‘ سے بنائے گئے عطائی ڈاکٹر ہیں، میں شعبہ صحت کے اعلی آفسر سے کہا کہ ان عطائی ڈاکٹروں کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیتے ، جو کسی اور کی ڈگری لگا کر ہائی اینٹی بائیٹک انجکشن کا استعمال کرتے ہیں اور مریض کی قسمت ہوئی تو بچ جاتا ہے ، ورنہ مریض مر جائے تو اﷲ کو یہی منظور تھا ، ڈاکٹر صاحب نے تو بڑی محنت کی تھی۔ وہ مجھ سے کہنے لگے ، کمال کرتے ہیں پانڈے جی ، اگر یہ عطائی ڈاکٹرز بھی نہ رہیں تو شکار پور سانحے کی طرح بم دھماکوں سے زیادہ ہلاک ہونے والے وہ لوگ ہونگے جن کو علاج کی سہولت بروقت نہیں مل سکی۔

ایک خبر پڑھی کہ بلدیہ عظمی کے مالی حالات اس قدر خراب ہیں کہ اب مریضوں کو کھانا بھی نہیں مل سکے گا ۔ میں نے کہا کمال کرتے ہیں پانڈے جی آپ ، آپ ذرا یہ سوچئے کہ سرکاری ہسپتالوں میں جو کھانا ملتا تھا اس سے اس مریض کاتہمیدار بھی بیمار ہوجاتا تھا ، کم ازکم مریضوں کی تعداد تو کم ہوگی۔مسئلے مسائل بہت ہیں لیکن کہاں تو لکھوں گا کہاں تک سناؤ ، ہزاروں ہیں غم ، کں کس کو اپنا زخم دکھاؤں ، لیکن اپنی پاکستانی عوام کو ضرور کہوں گا کہ ایسے عوامی نمائندے ہمیشہ منتخب کرتے ہیں۔ کمال کرتے ہیں پانڈے جی !!
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 658847 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.