الجواب

جناب حامدمیر نے گذ شتہ دنوں اپنے ایک کالم میں موجودہ قتل وغارتگری،دنگا وفساد،بھتہ خوری وڈکیتی،جنگ ولڑائی،لوٹ مار وعصمت دری ،دہشتگردی ،خون ریزی اوراغوا برائے تاوان کے روک تھام کے لئے تاریخی حوالوں کے تناظر میں علماء سے مشکل کی اس گھڑی میں اپنا بھرپور اور عام وتام کردار ادا کرنے کی اپیل کی تھی،حکمرانوں اور تمام عوام وخواص کو چا ہئے کہ ان کے اس پیغام کو نہایت سنجیدگی سے لیں،حالیہ دنوں مکہ مکرمہ میں بھی اسی حوالے سے رابطہ عالم اسلامی کے تحت چار روزہ بین الاقوامی کانفرنس ہورہی ہے، جس میں مسلم علماء ودانش ور اپنی قیمتی آراء پیش کر ہے ہیں۔

ہمارے خیال میں اس کے لئے سب سے بہترین تجویز وہ ہے، جو مصر میں صدر مرسی کی بر طرفی کے بعد خانہ جنگی کی سی صورت حال سے پرامن نمٹنے اور غیظ و غضب کی آگ کوٹھنڈا کرنے کے لئے وہاں کےحکام نے فوری اور ہنگامی طورپر اپنائی تھی،وہ یہ تھی، کہ انہوں نے پورے ملک کے قراء ،علماء، خطباء اور ائمہ سے اپیل کی، کہ وہ سب اپنی اپنی استعداد اوردائرہ کارکے مطابق قرآن کریم کی مندرجہ ذیل ترجمے کی آیات بار بار حسن قرآت،تشریح،تفسیر اور تفہیم کے ساتھ عامۃ الناس کو پڑھائیں،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بھی ہابیل وقابیل کے واقعے، اس پر مرتب اثرات،قتل نا حق،فساد فی الارض اور دنیا وآخرت میں انکی شدید سزاؤں پرکافی شافی عالمانہ اور محققانہ بحثیں ہوئیں، یوں وہ جنگ وجدال مصر میں بڑی آسانی سے کنٹرول ہوگئی،وہاں کے لوگ چونکہ عرب ہیں ،اس لئے زیادہ تر وہاں صرف حسن قرآت میں پوری بات انہیں سمجھائی گئی، ہمارے یہاں عربی دانی کمی کی وجہ سے علاقائی زبانوں میں ماہرین سےکام لینے کی ضرورت پیش آئیگی ،اگر راء اور بلیک واٹر وغیرہ درمیان میں نہ ہو تو نسخہ ایک تریاق اور اکسیرہے، فائدہ بے انتہاء ہوگا، ان شاء اللہ۔

( 27 ) اور (اے محمد) ان کو آدم کے دو بیٹوں (ھابیل اور قابیل) کے حالات (جو بالکل) سچے (ہیں) پڑھ کر سنا دو، کہ جب ان دونوں نے باری تعالی (کی بارگاہ میں) کچھ نیازیں چڑھائیں، پس ایک(ھابیل) کی نیاز تو قبول ہو گئی اور دوسرے (قابیل) کی قبول نہ ہوئی، (تب قابیل) کہنے لگا کہ میں تجھے قتل کردوں گا ؛(ھابیل) نے کہا کہ خدا پرہیزگاروں ہی کی (نیاز) قبول فرمایا کرتا ہے.
( 28 ) اور اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے میری طرف اپناہاتھ بڑھائے گا ،تو میں تجھ کو قتل کرنے کے لئے اپناہاتھ تمہاری طرف نہیں بڑھاؤں گا، مجھے تو خدائے رب العالمین سے ڈر لگتا ہے۔
( 29 ) میں چاہتا ہوں کہ تو میرے گناہ میں بھی ماخوذ ہو اور اپنے گناہ میں بھی، تب آپ اہل دوزخ میں سےہو ںگےاور (یاد رکھئے)ظالموں کی یہی سزا ہے۔
( 30 ) مگر(وہ نہ مانا اور)اس کے (شیطان) نفس نے اس کو بھائی کے قتل ہی کی ترغیب دی، چنانچہ انہوں نے اس(اپنے بھائی کو) قتل کر دیا اور (خود) تباہ و بربادہو گیا۔
(بدبخت قابیل اپنے بھائی کی لاش لئے جگہ جگہ پھرتاتھا،کفن دفن کا طریقہ معلوم نہ تھا،رہنمائی ملی،تو اندازہ کیجئے،وہ بھی ایک کوّے سے،جو شاطر،غلاظت خور اور قابل نفرت ہونے میں مشہور ومعروف ہے)۔
( 31 ) اب خدا نے ایک کوّا بھیجا جو زمین کریدنے لگا،تاکہ اس(مجرم وقاتل انسانیت قابیل کو) دکھائے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کو کیسے(دفناکر)چھپائے، کہنے لگا،ھائے میری تباہی ،مجھ سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ (عقل ودانش میں)اس کوّے کے برابر ہوتا کہ اپنے بھائی کی لاش(دفن کرکے) چھپا دیتا، پھر(بھائی کو دفنانےکے بعدآخر کار جب اسے صحیح معنوں میں کچھ عقل آئی، تواپنے سنگین جرم پر) وہ پشیمان ہوا،(مگر اب بھائی کوقتل کرنےکےبعد پشیمانی کا کیا فائدہ؟؟)۔
( 32 ) اس(قتل ناحق،پھرکوے کاماجر'ی اور آخرکاراس سنگین جرم پرندامت وپشیمانی )کی وجہ ہی سے ہم نے (پیشگی از اقدام قتل)بنی اسرائیل پر یہ حکم نازل کیا، کہ جو بھی قاتل اور مفسد فی الارض کے علاوہ کسی بھی شخص کو (ناحق) قتل کرے گا،تو اُس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا اور جو اس کی زندگانی کا موجب ہوا ،تو گویا تمام لوگوں کی زندگانی کا موجب ہوا اور ان لوگوں کے پاس ہمارے پیغمبر روشن دلیلیں لا چکے ہیں(گویا بات کھل کر واضح ہوچکی ہے، لیکن۔۔۔) پھربھی ان واضح احکامات کے بعد ان میں سے بہت سے لوگ روئے زمین پر زیادتیاں(یعنی قتل ناحق اور فساد)کرتے رہتےہیں ۔
( 33 ) (لہذا ایسے خونخوار اور مفسدین فی الارض لوگوں کے متعلق ہمارا علی الاعلان حکم یہ ہے کہ)جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ اترآئیں اور زمین میں فساد کرنے کو دوڑتے پھریں،ان کی سزا یہی ہے کہ وہ بے دریغ قتل کر دیئے جائیں، یا انہیں پھانسیاں دی جائیں، یا ان کے ایک ایک طرف کے ہاتھ اور ایک ایک طرف کے پاؤں کاٹ دیئے جائیں، یا جلا وطن کر دیئے جائیں، یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے (کئی گنا زیادہ اور ہولناک)عذابِ عظیم ہے ۔
( 34 ) ہاں جن لوگوں نے اس سے پیشتر کہ تمہارے قابو (گرفتاری) میں آ جائیں، توبہ کر لی،تو جان رکھو کہ خدا بخشنے والا مہربان ہے،(تو تم بھی ان کے ساتھ مہربانی کابرتاؤ کرو)۔
( 35 ) اے ایمان والو! خدا سے ڈرتے رہو اور اس کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ(طریقہ) تلاش کرتے رہو اور اس کے راستے میں (ظالموں سے)جہاد کرو تاکہ تم کامیابی پاؤ۔
( 36 ) جو لوگ(کوئی بھی بہانا بناکر یا دنیوی مفادات کے پیچھے لگ کر) ہمارے احکام نہیں مانتے (تو معلوم ہے آخرت میں کیا ہوگا؟۔۔۔۔ذرہ دیکھ لو یہ ہوگا) اگر ان کے پاس روئے زمین (کے تمام خزانے اور ) سب مال ومتاع ہو اور اس کے ساتھ ساتھ اسی قدر اور بھی ہو تاکہ قیامت کے روز عذاب (سے خلاصی حاصل کرنے) کا(بطور جرمانہ) بدلہ دیں، تو ان سے قبول نہیں کیا جائے گا اور ان کو المناک عذاب ہی ہوگا ۔
( 37 ) (جہنم میں جانے کےبعد یہ منکر ومجرم لوگ بہت) چاہیں گے کہ آگ سے نکل جائیں، مگر اس سے (کسی طرح)نہیں نکل سکیں گے اور ان کے لئے (اسی دہکتی ہوئی آگ میں ) ہمیشہ کا عذاب ہوگا ۔(سورۃ المائدہ).

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 814533 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More