وائٹ ہاؤس میں دہشت گردی کانفرنس زمینی حقائق کے آئینے میں

وائٹ ہاؤس میں جاری تین روزہ دہشت گردی کانفرنس اختتام پذیرہوگئی۔جس میں ساٹھ سے زائد ممالک کے وزراء ،اقوام متحدہ اوریورپی یونین کے نمائندوں نے شرکت کی۔کانفرنس کے شرکاء نے تجویزپیش کی کہ ایک ایسا کثیر جہتی نکتہ نظراپنایاجائے جس میں دل ودماغ کی تسخیرکاطریقہ کارشامل ہو۔یہی طریقہ دہشت گرد پہلے ہی اپنا رہے ہیں ۔ کہ وہ اچھے بھلے انسان کوخود کش حملہ کرنے پرآمادہ کرلیتے ہیں۔وہ ایسا طریقہ کواپناتے ہیں کہ ان کے تیارہ کردہ ادفرادوخودکودھماکہ خیزموادسے اڑادیتے ہیں۔درست ذہنی توازن کاحامل انسان ایسا کام نہیں کرسکتا۔ دہشت گردضرورایسا کام کرتے ہوں گے کہ جس کوانہوں نے خودکش بمباربناناہواس کے دماغ اورسوچنے سمجھنے کی صلاحیت کومفلوج کردیتے ہوں گے۔قارئین کویادہوکہ کسی زمانے میں زیادہ دورکی بات نہیں یہی تیس سے چالیس سال پہلے کی بات ہے کہ وی سی آرکادورآیاتھا۔ لوگ وی سی آرکرایہ پرلے کرایک جگہ جمع ہوکرفلمیں دیکھاکرتے تھے۔ ان فلموں میں گینگ ریپ، اغواء، مارکٹائی، تشدد،جیسے مناظردکھائے جاتے تھے۔ ایسی فلمیں اس وقت کے نوجوان اوربچے شوق سے دیکھتے تھے۔ شادیوں کے مواقع پرایسی فلمیں دیکھنے دکھانے کاخصوصی اہتمام کیاجاتاتھا۔یہ پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کے لیے ذہن سازی کاآغازتھا۔کیونکہ انسان جوکچھ دیکھتا ہے اسے اپنانے کی کوشش کرتاہے۔ آپ کوبہت سے جرائم پیشہ افرادایسے ملیں گے جن سے پوچھاجائے کہ وہ جرائم کی طرف کیسے آئے تووہ جواب دیں گے کہ فلاں فلم دیکھ کر۔ہماری یہ قومی روایت ہے کہ ہم بیماری کی تشخیص اس کے آغازمیں نہیں کرتے بلکہ جب وہ مرض اپنے عروج پرہوتاہے تواس کی تشخیص بھی کرنے لگ جاتے ہیں اورعلاج بھی۔ اس وقت نہ تواچھی طرح تشخیص ہوسکتی ہے اورنہ ہی علاج۔حقیقت تویہ بھی ہے کہ مرض کی ابتداء میں یہ ادراک ہی نہیں ہوتاکہ مرض شروع ہورہاہے اسے کنٹرول کیاجائے پھر اس وقت اس کی تشخیص کیسے کی جاتی۔دل ودماغ کی تسخیر وزراء اوراقوام متحدہ، یورپی یونین کاکام نہیں بلکہ یہ اﷲ والوں کاکام ہے۔اﷲ والے اشارہ کردیں توغیرمسلم کی زبان پرکلمہ طیبہ جاری ہوجاتاہے۔بڑے بڑے جرائم پیشہ افرادنے اﷲ والوں کے ہاتھ پرتوبہ کی ہے۔کانفرنس کے شرکاء نے اس بات پربھی زوردیا کہ تشددآمیزانتہا پسندی،اوردہشت گردی جیسے الفاظ کوکسی بھی مذہب،قومیت، تہذیب،یاکسی نسلی گروہ کے ساتھ ننسلک نہیں کیاجاناچاہیے۔مذہب کی بنیادپرامتیازی سلوک جس کاکہیں بھی مظاہرہ ہوتاہے شرکاء نے اس کے خلاف اپنے عزم کا اعادہ بھی کیا۔یہ کانفرنس کااہم نکتہ ہے۔ یہ بات توپہلے بھی بارہامرتبہ کہی گئی ہے کہ دہشت گردوں کاکوئی مذہب نہیں ہوتا۔ دہشت گردی کواسلام سے منسلک کیاجاتارہا ہے۔ اوریہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔مغربی ممالک اور اس کے میڈیا نے ہردورمیں یہی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلام ہی دہشت گردمذہب ہے۔ان ممالک میں جانے والے مسلمانوں خاص طورپرپاکستانیوں کی ایسے تلاشی لی جاتی ہے جیسے وہ کوئی دہشت گردہوں۔ تلاشی بھی ایسے ہتک آمیزرویہ کے ساتھ لی جاتی ہے کہ جسے لفظوں میں نہیں بتایاجاسکتا۔ جوتوں تک کی تلاشی لی جاتی ہے۔پاکستان کے نصاب میں تبدیلیاں کی گئیں کہ قرآن پاک کی وہ آیات جو جہاد کے متعلق ہیں ان سے دہشت گردی کوفروغ ملتاہے۔ حالانکہ حقیقت میں ایسی کوئی بات نہیں۔اسلام تودہشت گردی کے خلاف ہے۔اسلام نے ایک انسان کے قتل کوپوری انسانیت کے قتل کے برابرقراردیا ہے۔ان آیات مبارکہ کونصاب سے نکال دیاگیا۔دہشت گردچاہے وہ کسی کابھی نام استعمال کرلیں ان کاکسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔اب دنیا نے تسلیم کرہی لیاہے کہ دہشت گردوں کاکسی مذہب، قوم، یاکسی نسلی گروہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا توپھر اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ اوراس کے پیروکاروں کے ساتھ امتیازی سلوک اب ختم ہوناچاہیے۔پاکستان کی حکومتوں نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایسے اقدامات کیے جس سے یہ لگتاہے کہ واقعی دہشت گردی اسلام سے پھیل رہی ہے۔نصابی کتب میں تبدیلی،اذان اورعربی خطبہ کے علاوہ لاؤڈسپیکرکے استعمال پرپابندی ان اقدامات میں شامل ہیں۔دہشت گردی اسلام سے نہیں اسلام کے خلاف ہے۔اس کی تفصیل ہمارے قارئین اچھی طرح جانتے ہیں۔دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی اسلامی ممالک میں لڑی جارہی ہے۔ یہ جنگ پاکستان، افغانستان، عراق ، مصر، شام، لیبیا اوریمن میں کسی نہ کسی شکل میں لڑی جارہی ہے۔یہ سب مسلمان ملک ہیں۔کہا توجاتاہے کہ دہشت گردوں کاکسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ عملی اقدامات اس کے برعکس کیے جاتے ہیں۔کہیں ایسا تونہیں جب یہ بات کی جاتی ہوتواصل میں یہ کہاجاتاہوکہ اسلام کے سوادہشت گردوں کاکسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ عملی اقدامات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔جوممالک مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں ان سے جواب طلبی ہونی چاہیے۔اجلاس کے بعد جاری ہونے والے ایک مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ شرکاء نے اس بات کااعادہ کیا ہے کہ انٹیلی جنس اکٹھی کرنا،فوجی قوت اورقانون کاانفاذاس مسئلے کاواحدحل نہیں ہے۔اورجب اس کاغلط استعمال کیا جائے گاتوتشددآمیزانتہا پسندی میں اضافہ ہوجائے گا۔مغربی ممالک نے طاقت استعمال کرکے دیکھ لی۔امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے طاقت کا استعمال کہاں کہاں اورکس اندازمیں استعمال کیا۔یہ پوری دنیا اچھی طرح جانتی ہے۔طاقت کے استعمال سے دہشت گردی میں اضافہ ہی ہوتا رہاہے۔ ایک دہشت گردکومارنے کے لیے بہت سے بے گناہ مارے جاتے ہیں۔خودتومغربی ممالک نے ڈرون حملے، اوربمباری سے طاقت کااستعمال جاری رکھا۔ گوانتاموبے جیل میں قیدیوں کے ساتھ جوانسانیت سوزسلوک کیاجاتاتارہا ہے اس کی تفصیل آپ اخبارات میں پڑھتے رہے ہیں۔ اورپاکستان کوسزائے موت پرعملدرآمدسے یہ کہہ کر روک دیاگیا کہ یہ ظالمانہ سزاہے۔ان ممالک کوسزائے موت میں انسانی حقوق یادآگئے۔یہ دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی نہیں تواورکیاہے۔کہیں یہ بات کہہ کرپاکستان کوسمجھانے کی کوشش تونہیں کی جارہی کہ ملک میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے قانون کانفاذ اورطاقت کا استعمال اب پاکستان میں ہی ہورہا ہے۔پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف طاقت کااستعمال خاص طورپرامریکہ کی خواہش ہے۔یہ طاقت کااستعمال بھی جیسے وہ چاہتا ہے ویسے کیا جائے۔پاکستان اب طاقت کااستعمال اپنی حکمت عملی کے تحت کررہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپریشن ضرب عضب کامیابی سے جاری ہے۔اس سے پاکستان دشمن قوتوں کے عزائم پورے نہیں ہورہے ہیں۔اس لیے اب طاقت کے استعمال کوغیرضروری قراردیاگیا ہے۔قانون نفاذدہشت گردوں کوپھانسیاں دینے کی صورت میں ہورہا ہے۔ اسے بھی غیرضروری کہاگیا ہے۔جب اس کاغلط استعمال کیاجائے گا۔توتشدد آمیزانتہاپسندی میں اضافہ ہوجائے گا۔اس بات کابھی فیصلہ اس کانفرنس میں کرلیناچاہیے تھا کہ طاقت اورقانون کاغلط استعمال کون کرتا رہاہے اورکون کررہا ہے۔انہوں نے اس کے بجائے اس بات پرزوردیا کہ قانون کی مکمل حکمرانی،اورکمیونٹی کی بنیادپرحکمت عملی اختیارکرتے ہوئے ان مسائل سے نمٹاجائے۔قانون کی مکمل حکمرانی اورکمیونٹی کی بنیادپرحکمت عملی۔ اس میں تضاددکھائی دے رہاہے۔ قانون کانفاذ سب کے لیے ہوناچاہیے۔ جوبھی حکمت عملی اپنائی جائے سب کے لیے اپنائی جائے۔ کمیونٹی کی بنیادپرحکمت عملی اختیارکرنے کاکیامقصدہے؟مسلمان کمیونٹی کے لیے اورحکمت عملی اوردیگر کمیونٹیوں کے لیے اورحکمت عملی اختیارکرنے کی بات امتیازی رویے کوظاہر کرتی ہے۔دہشت گردچاہے وہ کسی بھی کمیونٹی سے ہواس کے لیے ایک ہی سزاہونی چاہیے۔بیان میں کہا گیا دہشت گردی کے خطرات سے مقابلہ کرنے کے لیے ایسے تمام اقدامات میں ان حکمت عملی کواختیارکیاجاناچاہیے کہ بین الاقوامی قانون کا مکمل نفاذ کیاجائے۔خاص طورپرانسانی حقوق کا بین الاقوامی قانون،پناہ گزینوں کے لیے بین الاقوامی قانون اوربین الاقوامی انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے چارٹرکے اصولوں اورمقاصد پرعمل کیا جائے۔یہ نکتہ بھی پاکستان کے لیے ہی ہے۔ کہ پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کوواپس بھجوانے کااعلان کیا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کا اچھی طرح نفاذ کردیاجائے تواس کی زدمیں بڑی بڑی قوتیں آجائیں گی۔عالمی طاقتیں ان قوانین کانفاذمختلف ممالک میں اپنے مفادات کومدنظررکھتے ہوئے کرتی ہیں۔اس کانفرنس میں اس بات کاجائزہ بھی لیاجانا چاہیے تھا کہ اقوام متحدہ کے چارٹرکے اصولوں اورمقاصدپرکون عمل کررہاہے اورروگردانی کررہا ہے۔کانفرنس کے شرکاء نے افغانستان، ڈنمارک، مصر،فرانس ، کینیا، لیبیا،نائجیریا،پاکستان، صومالیہ، یمن،عراق ،شام اوردیگرممالک میں ہونے والے حالیہ دہشت گردحملوں کی مذمت کی۔اس فہرست میں کشمیر اورفلسطین شامل نہیں ہیں اس سے کانفرنس کی نوعیت کااندازہ لگایاجاسکتا ہے۔یہ وہ تمام ممالک میں جن میں مسلمانوں کودہشت گردثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔انہوں نے بحرانوں کوحل کرنے اورنئے تنازعات کوروکنے کی ضرورت پرزوردیتے ہوئے کہا کہ نئے تنازعات دہشت گردوں کومددکے مواقع فراہم کرتے ہیں ۔ نئے تنازعات کون پیداکرتاہے ۔ یہ واقفان حال بخوبی جانتے ہیں۔شرکاء نے نشاندہی کی کہ داعش ، القاعدہ اوران سے منسلک انصارالشریع کی تنظیم، بوکوحرام اورالشباب دہشت گردوں کوبھرتی کررہے ہیں۔کانفرنس میں خبردارکیا گیا کہ پرتشددانتہاپسند حکومتوں کوغیرمستحکم کرنے اورمعاشرے کے اندرمزاحمت کوپروان چڑھانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔انہوں نے جمہوری اصولوں کوبرقراررکھنے اورانہیں محفوظٖ بنانے کی ضرورت پرزوردیتے ہوئے کہا کہ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے قانون کی حکمرانی کوفروغ دیاجائے۔جمہوری اصول بھی عالمی طاقتوں نے ہر ملک کے لیے اپنے مفادات کے مطابق الگ الگ متعین کررکھے ہیں۔جن ممالک میں جمہوریت ان کے مفادمیں ہووہاں جمہوریت اورجہاں غیرجمہوری حکومت ان کی مفادکے مطابق ہوتی ہے وہاں غیرجمہوری حکومت کی حمایت کی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ بنیادپرستی تشدد کے لیے سازگارماحول فراہم کرسکتی ہے۔بنیادپرستی اورانتہاپسندی کے الفاظ بھی مسلمانوں کے لیے ہی استعمال کیے جاتے ہیں۔ حقیقت میں بنیادپرستی، انتہاپسندی مسلمانوں میں نہیں ان کے دشمنوں میں پائی جاتی ہے۔اس کانفرنس میں شریک اقوام نے اتفاق کیا کہ اس سال ستمبرمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پرعالمی رہنماؤں کی ایک کانفرنس کاانعقادکیاجائے۔یہ کانفرنس بھی مذکورہ کانفرنس سے مختلف نہیں ہوگی۔امریکہ کی قومی سلامتی کی مشیرسوزن رائس نے نشاندہی کی کہ ممالک اورلوگوں کے درمیان تعاون ناگزیرہے۔کیونکہ کوئی بھی قوم اس چیلنج کاتنہا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ان کامزیدکہنا تھا کہ اس میں کامیابی کے لیے کئی سال لگ سکتے ہیں۔تاہم یہ چیلنج ناقابل تسخیر نہیں ہے۔اجلاس کے بعد جاری کردہ مشترکہ بیان میں فرانس اورڈنمارک میں حالیہ دہشت گردحملوں کی مذمت کرتے ہوئے زوردیاگیا کہ ہرملک انتہاپسندی کی سرکوبی کے اقدامات کوتقویت دے۔بیان میں اس بات کااعتراف کرتے ہوئے کہ یہ مسئلہ صرف فوجی طورپرحل نہیں کیاجاسکتاان شعبوں کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ جنہیں تقویت دینے کی ضرورت ہے۔ان میں خفیہ معلومات میں اشتراک،مقامی برادریوں کے مذہبی راہنماؤں سمیت ان کی کاوشوں میں ہم آہنگی سماجی ذرائع ابلاغ کے توسط سے آگاہی دلانے والی سرگرمیاں اورنوجوان نسل میں غربت کے مسئلے پرتوجہ دینا شامل ہے۔جن شعبوں کی نشاندہی کی گئی ہے نہ توان کی وجہ سے دہشت گردی ہورہی ہے اورنہ ہی ان سے اس کاسدباب کیا جاسکتاہے۔

یہ تجزیہ کرنا مشکل ہورہا ہے کہ یہ کانفرنس دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے تھی یااس کوفروغ دینے کے لیے۔اس کانفرنس میں بھی مسلمانوں کودہشت گردثابت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔دنیا دہشت گردی کے خلاف جنگ تولڑ رہی ہے۔ اس کی تعریف ،تشریح نہیں کرسکی۔ اس کانفرنس میں بھی دہشت گردی کی تعریف اورتشریح نہیں کی گئی۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ یہ کانفرنس دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے کتنی سنجیدہ تھی۔ فرانس اورڈنمارک میں حملوں کی مذمت توکی گئی بھارت میں مسلمانوں کی بستی کوآگ لگانے کی مذمت نہیں کی گئی۔ہندوستان کشمیرمیں اوراسرائیل فلسطین میں جوکچھ کررہاہے ۔ اسے کون نہیں جانتا۔ کانفرنس میں اس پرکچھ نہیں کہاگیا۔اسرائیل فلسطینیوں کے پناہ گزین کیمپوں پرجب بمباری کرتا ہے۔ اس وقت پناہ گزینوں کابین الاقوامی قانون مفلوج ہوجاتاہے۔ہندوستان اقوام متحدہ کی منظورشدہ اقراردادپرعمل نہیں کررہا ۔ اس بارے کچھ نہیں کہاگیا۔اس کانفرنس میں دہشت گردی کے اصل اسباب پربات نہیں کی گئی۔اس میں انتہاپسندی اوربنیادپرستی کی بات توکی گئی ہے اس کی تعریف اورتشریح نہیں کی گئی کہ انتہاپسندی اوربنیادپرستی کسے کہتے ہیں۔گستاخانہ خاکوں کے بارے میں کانفرنس خاموش رہی۔مسلمانوں کوبارباراشتعال دلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ کانفرنس دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے تھی توتوہین آمیزکارٹون شائع کرنے والوں کی مذمت بھی کرتی اوران کے خلاف کارروائی کاآغازبھی ۔ عالمی سطح پرتوہین مذاہب کاقانون منظورکرنے کی سفارش بھی کی جاتی۔ مسلمانوں خاص طورپرپاکستانیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی مذمت کرتے ہوئے سب کے ساتھ یکساں سلوک کرنے کی بات بھی کی جاتی۔اس سے یہ تجزیہ اخذہوتاہے کہ یہ کانفرنس دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے نہیں پاکستان کوسمجھانے کے لیے تھی۔ یہ کانفرنس دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہونے سے پہلے منعقدکی جاتی تواچھا تھا اب یہ بے وقت کی راگنی ہے۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 301214 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.