مسلم طلباء کی پریشانیاں،تعلیم یا پاگل پن

سرکاری مدارس ہوں یا غیر سرکاری ہر جگہ مسلم طلباء پر تعلیم کا بوجھ غیر مسلم طلباء کے مقابلے دوگنا ہوتا ہے۔مراٹھی میڈیم کے طلباء کی مادری زبان کو مدنظر رکھ کر مرتب تدریسی لوازمات اُنکے لئے بہت آسان و عام فہم ہوتے ہیں۔اور چونکہ زبانوں میں سب سے آسانی سے اور جلد سیکھی جانے والی زبان مراٹھی ہے، یہ اور بات ہے کہ اکثر مسلم طلباء نے ذہنی اعتبار سے اسے مشکل بنالیا ہے۔جہاں اس زبان کی آسانی کا فائدہ غیر مسلموں نے بہت اچھی طرح سے اُٹھایا ہے وہیں بہت سارے مسلمانوں نے مراٹھی میں وہ عبور حاصل کیا ہے جو خود مراٹھی زبان والوں نے بھی نہ کیا ہو۔بات اصل میں شروع ہوتی ہے تعلیم کے بوجھ کی۔مراٹھی میڈیم کے طلباء اور اردو میڈیم کے طلباء کا موازنہ کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ مسلم طلباء پر کتنا بوجھ ہے۔ مراٹھی میڈیم میں مراٹھی زبان پر زور دیا گیا ہے اور ساتھ میں انگریزی زبان جبکہ مسلم بچہ جہاں اردو سیکھے وہیں اُس پر مراٹھی کو لازم کردیا گیا ہے ساتھ ہی ساتھ انگریزی بھی لازمی۔اسکول کے علاوہ مسجد میں یاعربی مدرسے میں عربی کا علم حاصل کرنا ان طلباء پربار گذرتا ہے پھر بھی یہ بچے اسے پورا کرتے ہیں۔بہت سارے طلباء کند ذہن ہونے کی وجہ سے اور تعلیم کے اس دوگنا بوجھ کو سہہ نہیں پاتے اور درمیان میں ہی اپنی تعلیم کو ترک کردیتے ہیں،لیکن زندگی کے دوسرے شعبوں میں داخل ہوکر بھی یہ اپنا نام ضرور روشن کرتے ہیں اور جس شعبے میں ان کی دلچسپی ہو اُس میں نمایاں کارکردگی انجام دینا ان کا شیوہ ہوتا ہے۔پھر چاہے وہ الیکٹرونکس کی دنیا ہو،آرٹ کی دنیا ہویا پھر وہیکلس کی دنیا ہو۔ ان کا اپنا نام اور پہچان ہوتی ہے،بڑے سے بڑا اعلیٰ افسر بھی کام پڑنے پر انکا منتظر ہوتا ہے۔ان ساری ذہنی صلاحیتوں کا استعمال ایک تعلیم یافتہ شخص بڑی خوبصورتی کے ساتھ کرسکتا ہے جو غیر تعلیم یافتہ شخص اُتنا بہتر طور پر نہیں کرسکتا۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ اور مقابلہ آرائی کے اس دور میں بھی مسلم طلباء غریبی اور تمام تر تکالیف جھیل کر سب کو پچھاڑتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔تو کیا انکی جتنی تعریف کی جائے وہ کم نہیں ہے۔زبانوں کے جال میں اول جماعت سے ہی اُلجھے ان معصوموں کو محبت کا حق ہے یا نہیں؟ کیاانہیں کھیل کود سے دور رکھ کرصرف کتابوں میں سر کھپاکر ان کا بچپن برباد کردینا چاہئے؟اسکول سے گھر میں داخل ہوتے ہی انہیں ٹیوشن اور کوچنگ کلاس کی تیاری کا دھچکا دینا کہاں تک صحیح ہے؟فلاں ڈاکٹر کی بیٹی کو پیچھے چھوڑنا ہے،فلاں کلاس ٹیچر کے بیٹے سے زیادہ مارکس لانا،تمہیں سائیکل ملے گی،بائک ملے گی وغیرہ وغیرہ۔یہ سب کہاں تک درست ہے؟ صبح سے لے کر رات تک بچے کے ذہن پر صرف اسکول ،ٹیوشن،کوچنگ،عربی مدرسہ چھایا ہوتا ہے اور جب وہ رات کو سونے کیلئے بستر پر جاتا ہے تو ہاتھ میں بیاض کیونکہ کل ٹیچر نے جو ڈھیر سارا ہوم ورک دیا ہے اُسے مکمل کرنا ضروری ہے ورنہ سزا ملے گی وہ بھی سخت۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ ایک پانچ سالہ معصوم بچے کے ساتھ انصاف ہے؟؟؟

ٹھیک ہے یہ مقابلہ آرائی کا دور ہے،تعلیم ضروری ہے۔ لیکن ہمیں اپنے نونہالوں کے تئیں ہمارے جذبات کو بدلنا ہوگا۔ انہیں ایک کھلے ذہن والی شخصیت بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ہم بھی کھلی ذہنیت کا مظاہرہ کریں۔بچپن سے سُن رکھا ہے زیادہ پڑھنے سے آدمی پاگل ہوجاتا ہے۔اس کا مطلب آج ہمارے سامنے واضح ہورہا ہے۔پاگل کا مطلب یہ نہیں کہ انسان راستوں پر پتھر پھینکتا پھرے ،بلکہ ذہنی چڑچڑاپن۔آج ہم غور کریں تو یہ بات بالکل واضح ہوجائے گی کہ ہمارے بچوں میں اور ہمارے بچپن میں کیا فرق ہے۔ جب ہم اس عمر میں تھے تب کیا ہم بھی ایسے ہی تھے،کیا اسی طرح لوگوں سے ہمارا انداز گفتگو تھا؟بڑوں کا ادب ہم کس طرح کرتے تھے اور آج کے بچے کس طرح کرتے ہیں؟ اپنے ماں باپ سے بات کرنے کا سلیقہ اور طریقہ وغیرہ وغیرہ بہت ساری باتیں ہیں جن کا موازنہ کرنے پر ہمیں یہ احساس ہوگا۔ان تمام تر منفی پہلوؤں کو پاگل پن کا نام دیا جانا کچھ غلط نہیں۔جب آپ کولگے کہ میرا بچّہ ذہن پر بوجھ محسوس تو نہیں کر رہا ہے،فوراً اُسے دوسرے اُس کے من پسند مشغلے میں شامل کرنے کی اجازت دینا آپ کا اولین فریضہ ہے۔تعلیم کا تعلق تفریح سے بھی ہے،انکی تفریح کا خاص خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔

قابل مبارکباد ہیں وہ والدین جو آج کے اس پر فتن دور میں اپنے نونہالوں سے مشفقانہ برتاؤ رکھتے ہوئے اُن کی ذہنی پریشانیوں کو خود سہل طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اُن کے بچے دوسرے بچوں کے مقابلے زیادہ ادب و تعظیم کا مظاہرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جنہیں دیکھ کر دوسرے یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ’’کتنا ہونہار اور اخلاق مند بچہ ہے۔یہ جملہ سن کر والدین کو جو خوشی محسوس ہوتی ہے اُس کا تصور ممکن نہیں۔

ہر طالب علم کی پختگی کی ایک مخصوص عمر ہوتی ہے۔کچھ کا ذہن آٹھ سال میں کچھ کا دس سال میں کچھ کا بارہ سال میں اور کئی طلباء کا ذہن تو پندرہ یا اٹھارہ سال میں پختہ ہوتا ہے۔ایسے میں اُن کے ذہنوں کو زبردستی اُلجھانا عقلمندی نہیں۔ملک کی سرکار کو ان سب باتوں سے کوئی سروکار نہیں بس سرکار کی جانب سے تو اعلان کردیا جاتا ہے کہ تعلیم کے معاملے میں ہمیں دوسرے ممالک سے آگے بڑھنا ہے۔اس ضمن میں ڈھیرں اسکیموں کا نزول ہونا ہمیں نظر آتا ہی ہے۔مفت یونیفارم،مفت کتابیں،مفت بیاضیں،مفت بس پاس،وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب مفت تعلیم کے نام پر الگ الگ ڈھنڈورے ہیں جن کا پورا پورا فائدہ ان سے منسلک افسران اُٹھا رہے ہیں اور آگے بھی اُٹھاتے رہیں گے۔ایسا نہیں ہے کہ اس ملک میں ایماندار افسران نہیں،بلکہ ایسے ایماندار افسران کی وجہ سے ہی آج تعلیم کا کچھ معیار مدارس میں زندہ و باقی ہے۔ طلباء کے مستقبل کو پارہ پارہ کرنے والی تعلیم کی اس ریل پیل میں بہت ساری وجوہات یکے بعد دیگرے ہمیں نظر آتی ہی جائے گی۔اسی لئے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
’’بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی‘‘
Ansari Nafees
About the Author: Ansari Nafees Read More Articles by Ansari Nafees: 27 Articles with 22113 views اردو کا ایک ادنیٰ خادم.. View More