فضیلت امت مصطفی ﷺ قرآن وحدیث کی روشنی میں

نبی کریمﷺکواپنے بعداُمت کے شرک میں مبتلانہ ہونے کااندیشہ تھا
اﷲ رب العزت نے بعض کوبعض پرفضیلت دی ہے ،انبیاء کرام علیہم الرضوان میں سے نبی کریمﷺکوسب سے زیادہ فضیلت دی ہے۔ جس طرح خالق کائنات مالک ارض وسماوات نے انبیاء کرام علیہم الرضوان میں سے نبی کریمﷺکوسب سے زیادہ فضیلت دی ہے اسی طرح تمام امتوں میں سے امت مصطفیﷺکوفضیلت دی ہے ۔جس طرح ہمارے پیارے آقامحمدمصطفیﷺتمام انبیاء ورسل کے سرادرہیں۔ اسی طرح امت مصطفیﷺتمام امتوں کی سردارہے آقاﷺکی امت تمام امتوں سے افضل ہے بنی اسرائیل کاعالمین سے افضل ہونااس وقت ہی تھانبی کریمﷺکی امت کاافضل ہونادائمی ہے ۔ آقاﷺکی امت تمام عالم کی استاذہے۔ہرمسلمان کومبلغ ہوناچاہیے جومسئلہ معلوم ہودوسروں کوبھی بتائیں اورخودبھی اسکی اپنے عمل سے تبلیغ کرے خالق کائنات مالک ارض و سماوات کاہم جتنابھی شکراداکریں کم ہے کیونکہ اس نے ہمیں نبی علیہ الصّلوٰۃ والسلام کی امت میں پیداکیا۔آج کائنات میں ہمیں جوکچھ بھی مل رہاہے وہ سب کاسب وسیلہ مصطفیٰ ﷺہے اگراﷲ رب العزت اپنے محبوب کوپیدانہ کرتاتوخالق کائنات اپنارب ہونابھی ظاہرنہ کرتاکتنے خوش نصیب ہیں ہم کہ اﷲ رب العزت کے محبوب ﷺکی امت میں سے ہیں ۔جس امت کے بارے میں اﷲ پاک نے اپنی لاریب کتاب قرآن مجید،فرقان حمید، برھان عظیم میں ارشادفرمایاہے.کُنْتُمْ خِیْرَاُمَّۃِِِِ اُخْرِجَتْ لِلنَّاس ِتاَمُرُوْن َباِلْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَن ِالْمُنْکَر۔(آل عمران آیت نمبر۰اا)
ترجمہ:’’تم بہترین امت ہوجسے لوگوں کے لئے بھیجاگیاہے تم نیکی کاحکم دیتے ہواوربرائی سے منع کرتے ہو‘‘۔اس آیت کریمہ میں اﷲ رب العزت نے امت مصطفیﷺکی یہ فضیلت بیان کی ہے کہ یہ وہ امت ہے جولوگوں کونیکی کاحکم دیتی ہے اوربرائی سے منع کرتی ہے۔ امت مصطفیﷺکاکام لوگوں کواچھی باتوں کاحکم دیناہے بلکہ یہ نہیں کہ اچھی باتوں سے لوگوں کوروکناہے۔اچھی باتوں سے روکناولیدبن مغیرہ کاشیوہ تھاآج لوگ جوئے سینماوغیرہ سے لوگوں کونہیں روکتے بلکہ اچھے کاموں سے روکتے ہیں اچھی باتوں سے روکنا کافروں کاطریقہ ہے ۔ جولوگ ہمیشہ کارِخیرسے روکتے ہیں انہیں عبرت حاصل کرنی چاہیے ۔ارشادباری تعالیٰ ہے ۔اورتم میں سے ایک گروہ ایساہوناچاہیے جوبھلائی کی طرف دعوت دے وہ نیکی کاحکم دے اوربرائی سے منع کرے اوروہی لوگ کامیاب ہیں ۔(آل عمران ۱۰۴)حضرت ابوسعیدخدری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺکویہ ارشادفرماتے ہوئے سناہے۔تم میں سے جوشخص کسی گناہ کودیکھے تواسے اپنے ہاتھ کے ذریعے ختم کردے اوراگروہ اس چیزکی استطاعت نہ رکھتاہوتواپنی زبان کے ذریعے مخالفت کرے اگروہ اسکی طاقت نہ رکھتاہواپنے دل میں اُسے براسمجھے یہ ایمان کاکمزورترین درجہ ہے۔(رواہ مسلم)

حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے ارشادفرمایاہے!بنی اسرائیل میں پہلی خرابی کاآغازایسے ہواکہ ایک شخص ملتااوردوسرے سے کہتااے بندے !اﷲ تعالیٰ سے ڈرواورتم جوکررہے ہواسے چھوڑدویہ تمہارے لئے جائزنہیں پھرجب وہ اگلے دن اسے ملاتودوسراشخص اسی حال میں تھاتوپہلے نے اسے منع نہیں کیاکیونکہ وہ اسکے ساتھ کھاتاپیتاتھابیٹھتاتھاجب ان لوگوں نے ایساکرناشروع کیاتواﷲ پاک نے ان کے دل ایک جیسے کردیے پھرآقاﷺنے یہ آیت کریمہ پڑھی "بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفرکیاان پرحضرت داؤداورحضرت عیسیٰ بن مریم علیہم السلام کی زبانی لعنت کی گئی ہے ایسااس وجہ سے ہواکہ انہوں نے نافرمانی کی اورحدسے تجاوزکرگئے وہ برائیوں سے روکتے نہیں تھے انہوں نے جوکیابہت براکیاتم ان میں سے بہت سے لوگوں کودیکھوگے جودوستی رکھتے ہیں ان لوگوں کے ساتھ جوکافرہیں وہ اپنے لئے جوچیزآگے بھیج رہے ہیں وہ بہت بُری ہے(المائدہ)فاسق ہیں۔پھرآپﷺنے ارشادفرمایاہرگزنہیں اﷲ کی قسم یاتونیکی کاحکم دیتے رہوگے اوربرائی سے منع کرتے رہوگے اورظالم کے ہاتھ کوروکتے رہوگے اوراسے حق کے سامنے جھکاتے رہوگے اورتم حق پراکتفاکروگے یاپھراﷲ تعالیٰ تمہارے قلوب ایک جیسے کردے گااوروہ تم پراسی طرح لعنت کرے گاجیسے اس نے ان پرکی تھی۔(داؤد،ترمذی)اس حدیث مبارکہ کوامام ابوداؤدعلیہ الرحمہ نے روایت کیاہے۔امام ترمذی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن ہے مذکورہ بالاالفاظ ابوداؤدکے ہیں ۔ترمذی رحمۃ اﷲ علیہ کے الفاظ یہ ہیں ۔"نبی کریمﷺنے ارشادفرمایاجب بنی اسرائیل میں گناہوں کاآغازہواتوانکے علماء نے انہیں روکناشروع کیالیکن وہ بازنہیں آئے وہ علماء ان کے ساتھ ان کی محفلوں میں بیٹھے رہے کھاتے اورپیتے رہے تواﷲ تعالیٰ نے ان کے قلوب ایک جیسے کردیے اور(اﷲ تعالیٰ نے)حضرت داؤدعلیہ السلام اورحضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی زبانی ان پرلعنت کی ایسااسی وجہ سے ہواکیونکہ ان لوگوں نے نافرمانی کی اوروہ حدسے تجاوزکرگئے ۔راوی بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺسیدھے ہوکربیٹھ گئے پہلے آپﷺٹیک لگاکربیٹھے ہوئے تھے آپﷺنے فرمایاتمہیں اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے یہاں تک کہ تم انہیں حق پرآمادہ کروگے۔خلیفہ اوّل سیدناحضرت ابوبکرصدیق ؓ فرماتے ہیں اے لوگو!تم نے یہ آیت کریمہ پڑھی ہے "اے ایمان والو!تم اپنی فکرکروجوشخص گمراہ ہوگاوہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گاجبکہ تم ہدایت یافتہ ہو۔(المائدہ ۱۰۵)میں نے نبی کریمﷺکویہ ارشادفرماتے ہوئے سناہے جب ظالم کودیکھیں اوراس کے ہاتھ نہ روکیں توپھرعنقریب اﷲ تعالیٰ ان سب پرعذاب نازل کرے گا۔آج مسلمانوں کے ایمان کوخطرہ کیاہے حملہ ہمارے ایمان پرکس چیزکاہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لیکربعثت محمدیﷺتک،آقاﷺکی تشریف آوری تک جوانبیاء کرام علیہم الرضوان کے مبعوث ہونے کازمانہ تھاان کی امت ،قومیں جوپہلے زمانے کی تھیں ۔اس زمانے کے لوگوں کے عقیدے پرشرک کا حملہ ہوتاتھاانسان بت پرست تھے کوئی چاندکی پرستش ،کوئی سورج کی ،کوئی ستاروں کی ،کوئی ہاتھوں کے تراشے ہوئے بتوں کے سامنے جبین نیازجھوکانے والا تھاالغرض انسانی طبقات شرک کی مختلف صورتوں میں ملوث تھے اورہردورکے انسانی طبقات کے عقیدے پرشرک کاحملہ تھاوہ لوگوں کوخداکاشریک بنارہے تھے ۔پوری تاریخ میں چونکہ شرک کاحملہ تھالہذاجوپیغمبرمبعوث ہوااسکی دعوت کی بنیاددعوت توحیداورردِ شرک تھاآج جن لوگوں نے پوری دنیامیں شرک کے نام کاہنگامہ کھڑاکررکھاہے اوریوں لگ رہاہے جیسے پوری امت مشرک ہوگئی ہے اسلحہ اورہتھیار لیکرپوری امت کومشرک بناکرتوحیدکے نام پرایک نام نہادتصورتوحیدکے اوپراورنام نہادشرک پرامت مصطفیﷺکومرکزنبوت سے دورلے جایاجارہا ہے وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہرپیغمبرکی دعوت کی بنیاددعوت توحیداورردشرک حتیٰ کہ نبی کریمﷺکی دعوت کی بنیادبھی دعوت توحیداورردِشرک لہذاوہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہی مسئلہ ہے کہ آج اسلام میں امت مسلمہ کودرست کرنے کاجب مسلمانوں کے عقیدے پرشرک کاحملہ تھاتوضروری تھاکہ ہرپیغمبرشرک کاردکرتا اور توحیدکانکھراہواخالص تصورانسانیت کے سامنے پیش کرتایہی وجہ تھی کہ ہرپیغمبردعوت توحیداورردِشرک کے ساتھ مبعوث ہواتاآنکہ نبیﷺتشریف لے آئے آقاﷺکی تئیس برس کی جدوجہدمیں شرک ہارگیااورتوحیدجیت گئی شرک مارکھاگیاشرک دفن ہوگیا۔نبی کریمﷺکی امت میں شرک کمزورہوگیا اوراس شرک کے پلٹ کرزندہ ہوجانے کاکوئی امکان باقی نہ رہا پہلے تھاہرپیغمبرکے بعدنئی نسلیں اس پیغمبر سے بھی شرک کرناشروع کردیتیں اُسے بھی اﷲ پاک کاشریک ٹھہراتیں ۔پلٹ پلٹ کرشرک حملہ آورہوتا رہاشرک طاقتورتھا۔اس لئے شرک کے خلاف ایک جنگ تھی آقاﷺکی بعثت مبارکہ نے اس جنگ کوجیت لیا۔شرک پرمبنی تصورات کبھی دلائل ابراہیم بلکہ برھان مطلق کی آمدکے ساتھ ردہوگئے شرک کی کمرٹوٹ گئی اورشرک کی کمرٹوٹنے کی علامت یہ تھی کہ اﷲ پاک نے فرمایا"آج کافرلوگ تمہارے دین (کے غالب آجانے کے باعث اپنے ناپاک ارادوں ) سے مایوس ہوگئے سو(اے مسلمانو!)تم ان سے مت ڈرواورمجھ سے ہی ڈراکرو،(سورۃ المائدہ آیت ۳)شرک ہارگیاتوحیدکی بنیادیں مضبوط ہوگئیں ۔ آقاﷺاس دنیاسے ظاہراََپردہ فرمانے سے قبل امت کویہ خوشخبری سناکرگئے آقاﷺسے پہلے کسی پیغمبرنے امت کویہ خوشخبری نہیں سنائی تھی جیسے قرآن پاک کے بارے میں خوشخبری سنائی "بے شک یہ ذکرعظیم(قرآن)ہم نے ہی اتاراہے اوریقینا ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے "یہ حفاظت کسی پیغمبرنے اپنی کتاب کے بارے میں اﷲ پاک کی طرف سے نہیں دی تھی ۔چونکہ ضمانت نہ دی تھی ساری کتابوں میں ردبدل ہوتارہاقرآن پاک کے بارے میں اﷲ پاک کی طرف سے ضمانت آگئی چودہ سوسال گزرگئے شرق سے غرب تک ساری دشمنان اسلام کی دنیاقرآن پاک میں ایک حرف کی ترمیم نہ کرسکیں اور قیامت تک کوئی بھی نہیں کرسکتاکیونکہ اس کی حفاظت کی ضمانت آگئی ہے جس طرح قرآن کی ضمانت اﷲ پاک نے کرلی لہذاقرآن پاک میں کوئی رد بدل نہیں کرسکتا اسی طرح کسی پیغمبرنے اپنی امت کواس چیزکی ضمانت نہیں دی تھی کہ اب میرے بعدشرک نہیں ہوگاکسی پیغمبرکی زبان مبارکہ سے اس گارنٹی کااعلان نہیں ہواکہ میرے بعداب شرک پلٹ کرنہیں آئے گا۔اب میرے بعدتم شرک میں مبتلانہ ہوگے یہ گارنٹی نہیں تھی نتیجہ یہ ہواکہ جس طرح ان کی کتابیں بدل دی گئیں اسی طرح شرک بھی پلٹ پلٹ کرحملہ آورہوتارہا۔صحیح بخاری اورصحیح مسلم ،ابوداؤدفی السنن ،احمدبن حنبل میں متفق علیہ حدیث مبارکہ ہے کہ حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ (یہ گیارہواں سن ہجری تھا)آقاﷺشہدائے احدکے مزارت پرتشریف لے گئے (یہ ان کی وفات کا آٹھواں سال تھا)واقعہ احدسن ۳ہجری میں پیش آیا آقاﷺواقعہ شہدائے احدکے آٹھ سال بعدتشریف لے گئے یادرہے آقاﷺکا وصال مبارک بھی گیارہواں سن ہجری ہے آقاﷺنے اپنی حیات مبارکہ کے آخری ایام مبارکہ میں اپنی امت کویہ خوشخبری سنائی ۔حضرت عقبہ بن عامر ؓ روایت کرتے ہیں کہ آقاﷺنے شہدائے اُحدپر(دوبارہ)آٹھ سال بعداس طرح نمازپڑھی گویازندوں اورمردوں کوالوداع کہہ رہے ہیں پھر آپ ﷺمنبرپرجلوہ افروزہوئے اورفرمایامیں تمہاراپیش روہوں میں تمہارے اوپرگواہ ہوں ہماری ملاقات کی جگہ حوض کوثرہے اورمیں اس جگہ سے حوض ِکوثرکودیکھ رہاہوں اورمجھے تمہارے متعلق اس بات کاڈرنہیں کہ تم(میرے بعد)شرک میں مبتلاہوجاؤگے بلکہ تمہارے متعلق مجھے دنیاداری کی محبت میں مبتلاہوجانے کااندیشہ ہے ۔حضرت عقبہؓ فرماتے ہیں کہ یہ میراحضورنبی اکرمﷺکاآخری دیدارتھا(یعنی اس کے بعدآپﷺکاجلدہی وصال ہوگیا)ـ۔حضرت عقبہ بن عامرؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا!بے شک میں تمہاراپیش روہوں اورتم پرگواہ ہوں بیشک خداکی قسم!میں اپنے حوض (کوثر)کواس وقت بھی دیکھ رہاہوں اوربے شک مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں (یافرمایازمین کی کنجیاں)عطاکردی گئی ہیں اورخداکی قسم! مجھے یہ ڈرنہیں کہ میرے بعدتم شرک کرنے لگوگے بلکہ مجھے ڈراس بات کاہے کہ تم دنیاکی محبت میں مبتلاہوجاؤگے۔(متفق علیہ)حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ!نے فرمایا:مجھے تمہارے متعلق اس بات کاتوڈرہی نہیں ہے کہ تم میرے بعدشرک کروگے بلکہ مجھے ڈرہے کہ تم دنیاکی محبت میں گرفتارہوجاؤگے اورآپس میں لڑائی کروگے اورہلاک ہوجاؤگے جیساکہ تم سے پہلے لوگ ہوئے۔حضرت عقبہؓ فرماتے ہیں کہ یہ آخری بارتھی جب میں نے نبی کریمﷺکومنبرپرجلوہ افروزدیکھا(یعنی اس کے بعدجلدہی آپﷺکاوصال ہوگیا)( مسلم) درج بالااحادیث سے معلوم ہواکہ آقاﷺاپنے زندگی کے آخری ایام میں امت کویہ خوشخبری سناگئے ہیں کہ میرے بعدتم شرک میں مبتلا نہ ہوگے ۔جولوگ اذان سے قبل درودوسلام ،دعابعدازنمازہ جنازہ،آقاﷺکے وسیلہ ،ندائے یارسولﷺآقاﷺکی ذات پرسلام کوشرک کہنے والے ان احادیث کامطالعہ کریں جولوگ اعتراضات کرتے ہیں وہ گمراہ ہ بھی ہیں اورآقاﷺکی فیض سے محروم بھی ہیں حضرت سلیمان بن بریدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے والدسے روایت کیاہے کہ آقائے دوجہاںﷺ نے فرمایاجنتیوں کی ایک سوبیس صفیں ہوں گی جن میں سے اسی صفیں میری امت کی ہونگی اورباقی تمام امتوں کی صرف چالیس صفیں ہونگی (ترمذی،ابن ماجہ)حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایامجھے وہ کچھ عطاکیاگیاہے جو(سابقہ)انبیاء کرام علیہم الرضوان میں سے کسی کو نہیں عطاکیاگیاہم نے عرض کیایارسول اﷲﷺوہ کیاہے ؟آقاﷺنے فرمایامیری رعب ودبدبہ سے مددکی گئی اورمجھے زمین (کے تمام خزانوں)کی کنجیاں عطاکی گئیں اورمیرانام احمدرکھاگیااورمٹی کوبھی میرے لئے پاکیزہ قراردیاگیااورمیری امت کوبہترین امت بنایاگیا۔(ابن شیبہ )حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی کریمﷺکے ساتھ ایک قبہ (مکان)میں تھے کہ آپﷺنے فرمایا"کیاتم اس بات پرراضی ہوکہ اہل جنت کاتہائی حصہ تم ( میں سے)ہو؟ہم نے عرض کیاہاں آقاﷺنے فرمایااس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمدمصطفیﷺکی جان ہے !مجھے امیدہے کہ تم(تعدادمیں)اہل جنت میں سے نصف ہوں گے اوروہ یوں کہ جنت میں مسلمان کے سواکوئی داخل نہیں ہوگااورمشرکوں کے مقابلے میں تم یوں ہوجیسے کالے بیل کی جلدپرایک سفیدبال یاسرخ بیل کی جلدپرایک کالابال"۔(متفق علیہ)

حضرت عمروبن قیسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایااﷲ تعالیٰ نے میری امت کومرحوم قراردیااوراس کی عمرمختصررکھی سوہم ہی آخری ہیں اورہم ہی قیامت کے دن اول ہوں گے اورمیں بغیرکسی فخرکے یہ بات کہہ رہاہوں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اﷲ ہیں اورحضرت موسیٰ علیہ السلام صفی اﷲ ہیں اورمیں ہی حبیب اﷲ ہوں اورروزقیامت میرے پاس ہی حمدکاجھنڈاہوگااوراﷲ تعالیٰ نے میری امت کے بارے میں مجھ سے تین وعدے فرمائے اورتین چیزوں سے نجات عطاکی ان پرعام قحط سالی مسلط نہیں کرے گااورکوئی دشمن انہیں ختم نہیں کرسکے گااورانہیں گمراہی پرکبھی جمع نہیں کرے گا ۔(درامی)حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا(امت مسلمہ)وہ (خوش نصیب )امت ہے جس پر(اﷲ تعالیٰ کی خصوصی )رحمت نازل کی گئی ہے اس کاعذاب اسکے ہاتھ میں ہے جب قیامت کادن ہوگاتوہرایک مسلمان کوایک کافردے کرکہاجائے گایہ تمہارادوزخ کافدیہ ہے(ابن ماجہ)حضرت ثوبان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایابیشک اﷲ پاک نے زمین کومیرے لئے لپیٹ دیااورمیں نے اس کے مشارق ومغارب کودیکھاعنقریب میری حکومت وہاں تک پہنچے گی جہاں تک میرے لئے زمین لپیٹی گئی مجھے(قیصروکسریٰ کے) دوخزانے سرخ اورسفیددیے گئے میں نے اپنے رب سے اپنی امت کے بارے میں سوال کیاکہ انہیں قحط سالی سے ہلاک نہ کیاجائے اورنہ ان پر ان کے غیرسے دشمن مسلط کرے جوانہیں مکمل طورپرنیست ونابودکردے اوربے شک میرے رب نے مجھے فرمایااے محمدمصطفیﷺ!میں جب ایک فیصلہ کرلیتاہوں تواس کوواپس نہیں لوٹایاجاسکتااوربے شک میں نے آپ کو آپ کی امت کے لئے یہ چیزعطافرمادی ہے کہ میں انہیں قحط سالی سے نہیں ماروں گااورنہ ہی ان کے علاوہ کسی اورکوان پردشمن مسلط کرونگاجوانہیں مکمل طورپرنیست ونابودکردے اگرچہ(وہ دشمن ان کے خلاف ہرطرف سے اکٹھے )ہوجائیں یہاں تک کہ ان میں سے خودبعض کوبعض ہلاک نہ کریں اوربعض بعض کوقیدی نہ بنائیں۔(مسلم شریف)حضرت بہزحکیم بواسط اپنے والداپنے داداسے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم رؤف رحیمﷺنے فرمایاہم قیامت کے دن ستر۷۰امتوں کی تکمیل کریں گے اورہم سب سے آخری اورسب سے بہترہوں گے(ابن ماجہ)حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایامیرے سامنے تمام امتیں پیش کی گئیں پس ایک نبی گزرنے لگا او راسکے ساتھ اسکی امت تھی ایک نبی ایسابھی گزراکہ اس کے ساتھ چندافرادتھے ایک نبی کے ساتھ دس آدمی ایک نبی کے ساتھ پانچ آدمی ایک نبی صرف تنہامیں نے نظردوڑائی توایک بڑی جماعت نظرآئی میں نے پوچھااے جبرائیل علیہ السلام!کیایہ میری امت ہے ؟عرض کیانہیں بلکہ یارسول اﷲﷺآپ افق کی جانب توجہ فرمائیں میں نے دیکھاتوبہت ہی بڑی جماعت تھی عرض کیایہ آپﷺکی امت ہے اوریہ جوسترہزاران کے آگے ہیں ان کے لئے نہ حساب ہے نہ عذاب ،میں نے پوچھاکس وجہ سے ؟انہوں نے کہایہ لوگ داغ نہیں لگواتے تھے غیرشرعی جھاڑپھونک نہیں کرتے تھے شگون نہیں لیتے تھے اوراپنے رب پر(کامل)بھروسہ رکھتے تھے حضرت عکاشہ بن محصن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کھڑے ہوکرعرض کیایارسول اﷲﷺ!اﷲ تعالیٰ سے دعاکیجیے کہ وہ مجھے بھی ان لوگوں میں داخل فرمالے آپﷺنے دعافرمائی اے اﷲ اسے ان لوگوں میں شامل فرماپھردوسراآدمی کھڑاہوکرعرض گزارہوایارسول اﷲﷺاﷲ تعالیٰ سے دعاکیجیے کہ مجھے بھی ان میں شامل فرمالے آپﷺنے فرمایاعکاشہ تم سے سبقت لے گیا۔(متفق علیہ)حضرت امیرالمومنین عمربن خطاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا جنت تمام انبیاء کرام علہیم السلام پراس وقت تک حرام کردی گئی ہے جب تک میں اس میں داخل نہ ہوجاؤں اورتمام امتوں پراس وقت تک حرام ہے جب تک کہ میری امت اس میں داخل نہ ہوجائے۔

حضرت محجن بن ادرع سلمی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایااﷲ تعالیٰ نے اس امت (محمدیہ )کے لیے آسانی کوپسند فرمایاہے اور(اس کے لئے)تنگی کوناپسندفرمایاہے ۔آپﷺنے یہ جملہ تین مرتبہ فرمایا۔(طبرانی فی المعجم الکبیر)

حضرت حذیفہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک روزآقاﷺنے اتناطویل سجدہ فرمایاکہ ہم نے گمان کیاشایدآپﷺکاوصال اقدس ہوگیاہے پھرجب آپﷺسجدہ سے فارغ ہوئے توفرمایامیرے رب نے مجھ سے میری امت کے بارے میں مشورہ طلب کیااس میں بیان فرمایا اورہمارے لئے وہ بہت سی چیزیں حلال کردیں جوہم سے پہلی(امتوں پر)ممنوع تھیں اورہم پراس دنیامیں کوئی تنگی(روا)نہیں رکھی۔

حضرت ابودرداء رضی اﷲ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے فرمایامیں ہی سب سے پہلاشخص ہونگاجسے قیامت کے دن بارگاہ الٰہی میں سجدہ کرنے کی اجازت دی جائے گی اورمیں ہی ہونگاجسے سب سے پہلے سراٹھانے کی اجازت ہوگی۔سومیں اپنے سامنے دیکھوں گااوراپنی امت کودوسری امتوں کے درمیان بھی پہچان لوں گااسی طرح اپنے پیچھے اوراپنی داہنی طرف بھی انہیں دیکھ کرپہچان لوں گاایک شخص نے عرض کیایارسول اﷲﷺآپ اپنی امت کودوسری امتوں کے درمیان کیسے پہچانیں گے جبکہ ان میں حضرت نوح علیہ السلام کی امت سے لیکرآپﷺکی امت تک کے لوگ ہوں گے ؟آپﷺنے فرمایاان کے اعضاء وضوکے اثرسے چمک رہے ہوں گے اوران کے سواکسی اور(امت)کے ساتھ ایسانہیں ہوگااورمیں انہیں پہچان لوں گاکہ ان کے نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیاجائے گااورانہیں پہچان لوں گاکہ ان کے آگے ان کی اولاددوڑتی ہوگی۔(رواہ احمد)حضرت ابوذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اورحضرت ابودرداء رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایامیں قیامت کے روز ضروراپنی امت کودوسری امتوں کے درمیان پہچان لوں گاصحابہ کرام ؓ نے عرض کیایارسول اﷲﷺآپ اپنی امت کوکیسے پہچانیں گے ؟فرمایامیں انہیں پہچان لوں گاکہ ان کانامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیاجائے گااوران کی پیشانیوں پرسجدوں کااثرہوگااورمیں انہیں ان کے نورسے پہچان لوں گاجوان کے آگے آگے دوڑرہاہوگا۔(احمدبن حنبل)

حضرت ابوامامہ باہلی روایت فرماتے ہیں کہ قیامت کے روزروشن پیشانیوں اورچمکتے ہاتھ پاؤں والے لوگوں کی ایک جماعت نمودارہوگی جوافق پرچھاجائے گی ان کانورسورج کی طرح ہوگاسوایک ندادینے والاندادیگانبی اُمِّی پس اس نداء پرہرامی نبی متوجہ ہوگالیکن کہاجائے گاکہ اس سے مرادمحمدﷺاوران کی امت ہے سووہ جنت میں داخل ہونگے ان پرکوئی حساب اورعذاب نہیں ہوگاپھراس طرح کی ایک اورجماعت نمودارہوگی جنکی پیشانیاں اورہاتھ پاؤں چمک رہے ہوں گے ان کانورچودھویں کے چاندکی طرح کاہوگااوران کانورافق پرچھاجائے گاسوپھرندادینے والاندا دے گااور کہے گانبی اُمِّی پس اس نداپرہرامی نبی متوجہ ہوجائے گالیکن کہاجائے گااس نداسے حضورنبی کریمﷺاوران کی امت ہے پس وہ بغیر حساب وعذاب کے جنت میں داخل ہوجائیں گے پھراسی طرح ایک اورجماعت نمودارہوگی ان کی (بھی)پیشانیوں اورہاتھ پاؤں چمکتے ہوں گے ان کانورآسمان میں بڑے ستارے کی طرح ہوگاان کانورافق پرچھاجائے گاپس ندادینے والاآوازدے گانبی اُمِّی پس اس پرہرامی نبی متوجہ ہوگا کہا جائے گااس سے مرادبھی محمدﷺاوران کی امت ہے پس وہ بغیرحساب وعذاب کے جنت میں داخل ہوجائیں گے پھر آپﷺکارب (اپنی شان کے لائق)تشریف لائے گاپھرمیزان وحساب قائم کیاجائے گا۔(طبرانی)حضرت ابومالک اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایابیشک اﷲ تعالیٰ نے تمہیں تین آفتوں سے بچالیاایک یہ کہ تمہارانبی تمہارے لئے ایسی بددعانہیں کرے گاکہ تم سارے ہلاک ہوجاؤدوسرایہ کہ (مجموعی طورپر)اہل باطل اہل حق پرغالب نہ ہوں تیسرایہ کہ تم(مجموعی طورپر)گمراہی پرجمع نہیں ہونگے۔(ابوداؤد)

اﷲ پاک ہمیں صراط مستقیم کے راستے پرچلنے اوراس پرعمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔تاکہ ہم بروزقیامت نبی کریمﷺکی شفاعت اورتیری جنت کے حقداربن جائیں ۔آمین

Hafiz kareem ullah Chishti
About the Author: Hafiz kareem ullah Chishti Read More Articles by Hafiz kareem ullah Chishti: 179 Articles with 272408 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.