پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود: تحقیق کے حوالے سے ایک مکالمہ

سابق چیٔر مین۔ شعبہ لا ئبریری و انفارمیشن سائنس ، جامعہ پنجاب، لاہور
( یہ مکالمہ ر اقم الحروف نے اپنی پی ایچ ڈی تحقیق کے حوالے سے کیا جو موضوع کی تحقیقی ضرورت تھا۔ پاکستان میں لائبریری پروفیشنلز میں ڈاکٹر خالد محمود اعلیٰ مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ پاکستان لائبریرین شپ کی ایک جانی پہچانی ، فعال ،مستعد،زیرک،تیزفہم،ذی اِستعداد،لائق فائِق شخصیت ہیں ۔ جامعہ پنجاب میں لائبریری و انفارمیشن سائنس کے شعبہ میں انقلابی تبدیلی اور ایم فل و پی ایچ ڈی کی تعلیم کو مستحکم بنیادوں پر رائج اور عام کرنے میں ڈاکٹر خالد کا کلیدی کردار ہے۔یہی نہیں بلکہ پاکستان میں لائبریری و انفارمیشن سائنس کی اعلیٰ تعلیم (ایم فل و پی ایچ ڈی) کو جامعات کی سطح پر جاری و ساری کرنے اور ملک میں اس شعبے میں تحقیقی کلچر کو شروع کرنے میں ڈاکٹر خالد محمود نے جو کردار ادا کیا ہے وہ اپنی نوعیت کا مثالی اور تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ راقم الحروف نے جب یہ انٹر ویو کیا ( ۲۸ دسمبر ۲۰۰۴ء ) تو وہ شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس ، جامعہ پنجاب لاہورمیں پروفیسر و چیرٔمین تھے۔ انہوں نے اسی شعبہ سے ایم ایل آئی ایس کیا اوراسی شعبہ سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ کالج لائبریرین کی حیثیت سے پیشہ ورانہ خدمات کا آغاز کیا۔ لیکچرر کی حیثیت سے شعبہ میں شمولیت اختیار کی اور تیز رفتاری سے ترقی کی مزلیں عبور کرتے ہوئے پروفیسر اور شعبہ کے سربراہ کے مرتبہ پرفائز ہوئے۔ انہیں امریکہ کی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، لاس اینجلس کے شعبہ انفارمیشن اسٹڈیز، گریجویٹ اسکول آف ایجویشن و انفارمیشن اسٹڈیز سے ۲۰۱۱ء میں HEC sponsored post-doctoral research مکمل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔اپنے مضمون کے نامور و معتبر لکھاری ہیں۔ متعدد کتابوں اور مضامین کے خالق ہیں۔ پڑھنا، پڑھانا اور لکھنا ان کے محبوب مشاغل ہیں۔ ۲۰۱۳ء سے یونیورسٹی آف دمام، سعودی عرابیہ کے انفارمیشن لرننگ و ریسرچ کامن(Infromation Learning & Research Commons,ILRD)ڈین شپ آف لائبریری افیئر کے ہیڈ کی حیثیت سے منسلک ہیں۔ یہ انٹر ویو میرے پی ایچ ڈی مقالے میں شامل ہے۔ مقالے کا عنوان ہے ’’ پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی تر قی میں شہید حکیم محمد سعید کا کردار ‘‘ ۔ اس تحقیق پر راقم الحروف کو ۲۰۰۹ء میں جامعہ ہمدرد سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض ہوئی ۔ شہید حکیم محمد سعید کی شخصیت ، خدمات اور تحقیقی موضوع کے حوالے سے ڈا کٹر خالد محمود کی رائے اور خیالات جو اس گفتگو کے نتیجہ میں سامنے آسکے تحقیق میں معاون ثابت ہوئے۔

تعارف :
ڈاکٹر خالد محمودپاکستان لا ئبرین شپ کی ان چند شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے اپنی ذہانت ، قابلیت اور محنت سے لا ئبریری پروفیشن میں جلد وہ مقام حاصل کر لیا جس کے لیے طویل جدوجہد اور وقت درکار ہوتاہے۔ ۱۹۸۹ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایل آئی ایس کر نے کے بعد کالج لا ئبریرین کی حیثیت سے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کیا۔ قائداعظم لا ئبریری، لاہور میں بھی ایک سال خدمات انجام دیں۔ ۱۹۹۳ء میں شعبہ لا ئبریری و انفارمیشن سائنس پنجاب یو نیورسٹی میں لیکچرار منتخب ہو ئے اور تاحال ایک استاد کی حیثیت سے مصروف عمل ہیں۔۱۹۹۹ء میں شعبہ لا ئبریری و انفارمیشن سائنس ،جامعہ پنجاب نے لا ئبریری سائنس میں پی ایچ ڈی پروگرام شروع کیا،پی ایچ ڈی میں داخلہ لینے والے پہلے تین امیدوارں میں سے ایک آپ بھی تھے جنہو ں نے سب سے پہلے ۲۰۰۴ء میں پروفیسر ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔

ڈاکٹر خالد محمود لائبریری و انفارمیشن سائنس کے ان پا کستانی مصنفین میں سے ایک ہیں جن کی تحریریں پاکستان کے علاوہ بین الا قوامی پیشہ ورانہ رسائل و جرائد میں شائع ہوئیں ۔ لائبریری آٹو میشن ڈاکٹر خالد کا خاص موضوع ہے۔ اس موضوع پر آپ کی ایک کتاب بھی منظر عام پر آچکی ہے۔راقم الحروف اور ڈاکٹر خالد محمود کی مر تب کر دہ کتاب ’’لائبریری و انفارمیشن سائنس کے رسائل و جرائد کا ۵۰ سالہ اشاریہ‘‘ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ کتاب پاکستان میں لائبریری سائنس کی اولین کتا ب ہے جس کا ویب ورژن سب سے پہلے انٹر نیٹ پر آیا۔’’پاکستان جنرل آف لائبریری و انفارمیشن سائنس‘‘، لاہور اور ’’پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جنرل‘‘ کی ادارت میں شامل ہیں۔ڈاکٹر خالد محمودسے یہ گفتگو ان کے کراچی آمد کے موقع پر بروز منگل بتاریخ ۲۸ دسمبر ۲۰۰۴ء کو راقم الحروف کی رہائش گاہ پر ہو ئی۔

۱ : لا ئبریری سائنس کے استاد کی حیثیت سے آپ پاکستان میں لا ئبریری سائنس کی تعلیم کا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں؟
ج : میں تو پاکستان میں لا ئبریری سائنس کی تعلیم اور اس پیشے کا مستقبل روشن دیکھتا ہوں ۔ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں جہاں پرترقی اور تبدیلی نہ ہو ئی ہو، کتب خانو ں میں بھی تبدیلیاں آرہی ہیں لیکن میرے خیال میں لا ئبریری کا جو تصور ہے اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی وہ وہی ہے۔ تر قی یافتہ مما لک میں کتب خانو ں نے بھی تر قی کی ان کے بغیر کوئی ملک ترقی کر ہی نہیں سکتا۔ اس میں شک نہیں کہ یہ تبدیلیاں آئی ہیں اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے ابھی تو مزید تر قی ہو گی ، تبدیلیاں آئیں گی لیکن ان تمام کے باوجود اس پروفیشن کا مستقبل روشن ہے۔

۲۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ لا ئبریریز میں کمپیو ٹر کے آجا نے کے بعد لا ئبریری سائنس کو ثانوی حیثیت حاصل ہو گئی ہے اس سلسلے میں آپکی کیا رائے ہے؟
ج : میں اس بات سے اتفاق نہیں کر تا کہ کمپیوٹر کے آجا نے کے بعد لا ئبریری سائنس کو ثانوی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ یہ ایک چیلنج ضرور ہے۔ کمپیوٹر کے باعث معلومات یا انفارمیشن کے حصول ، نظام بازیافت(Retrieval System)اور ترسیل میں تبدیلی اور تیزی ضرور آئی ہے ۔ جن ممالک نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو مکمل طور پر اپنایا وہاں پر زیادہ تیزی سے ترقی ہو ئی۔ کتب خانے اس جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے اپنے آپ کو زیادہ بہتر محسو س کر رہے ہیں۔ کمپیو ٹر لا ئبریری کا نعم البدل ہر گز نہیں یہ تو ان کے لئے ایک بہترین مددگارکی حیثیت رکھتاہے۔

۳ : آپ پاکستان میں لا ئبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں اسپل (SPIL)اور اس کے تاسیسی صدر حکیم محمد سعید شہید کے کردار کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ج : میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی ملک یا خطہ میں کتب خانو ں کی تر قی میں لا ئبریری سائنس کے علاوہ ان اشخاص کا کر دار بھی اہم ہوتاہے۔ ان کی مدد اور رہنمائی کے بغیر کتب خانے ترقی نہیں کر سکتے۔امریکہ جیسے تر قی یافتہ ملک میں کارنیگی (Andrew Carnegie)جیسے شخص نے عوامی کتب خانوں کے قیام اور تر قی میں اہم کردار اداکیا۔ اس نے بے شمار کتب خانو ں کی عمارات تعمیر کرائیں۔۱۹۱۵ء میں ایلون ایس جانسن(Alvin S, Johnson) نے کار نیگی لا ئبریریز کا ایک سروے کیاجس کے مطابق کارنیگی کتب خانوں میں بہتر لا ئبریری خدمات موجود نہیں تھیں کیوں کہ ان میں تر بیت یافتہ لو گ نہیں تھے، جانسن نے کارنیگی کارپوریشن کو یہ مشورہ دیا کہ وہ کتب خانوں کی عمارات کی تعمیر کے لئے رقم دینے سے قبل لا ئبریرینز کی تر بیت کا اہتما م بھی کریں۔ ولیم گیٹس نے (Introduction to Librarianship) میں لکھا ہے کہ انیسویں صدی کے آخری سالوں میں امریکہ میں سٹی لا ئبریریز کے قیام کے لیے اینڈریو کارنیگی(Andrew Carnegie)نے مالی امداد فراہم کی ، ۱۸۸۱ء سے ۱۸۹۸ ء کے درمیان کارنیگی نے ۱۶ میونسپل لا ئبریریز قائم کیں اس کے بعد کارنیگی نے امریکہ ہی کی مختلف اسٹیٹس اور علا قوں میں ۳۰ کتب خانو ں کے لیے چار ملین ڈالر کی رقم فراہم کی تھی۔ پاکستان میں بھی کتب خانو ں کی اہمیت اور ضرورت کا احساس رکھنے والی شخصیات کی کمی نہیں۔ حکیم محمد سعید نے لا ئبریرین شپ کے پیشے کی اہمیت کا احساس کر تے ہوئے لا ئبریرینز برادری کو عزت دی وہ انہیں ساتھ لے کر چلنے والے تھے عام طور پر لوگ ایسا نہیں کر تے۔

۴ : اسپل(SPIL) منعقدہ سیمینار، ورکشاپس اور کانفرنسیزکے پا کستان لا ئبریرین شپ پر کیا اثرات مرتب ہو ے؟
ج : اسپل(SPIL) کے منعقد کر دہ سیمینار،ورکشاپس اور کانفرنسیزایک اچھی اور کامیاب کوشش تھی۔ میرے خیال میں لا ئبریری تحریک پر ان کے اثرات کرا چی اور سندھ تک محدود رہے اس کے با وجود ملک میں لا ئبریری تحریک کے لیے اس سے زیادہ جدوجہد کی ضرورت تھی جو ایک شخص کے گرد گھومنے والی ایسو سی ایشن مکمل طور پر نہیں کر سکتی ان کی اپنی کوششیں لا ئق تحسین ہیں لیکن ملکی سطح پر اس کے مثبت اثرات مرتب کرانے کیلیے ناکافی تھیں۔

۵۔ کیا ’’اسپل گولڈ میڈل ‘‘ پا کستان میں لائبریری تعلیم کے فروغ میں معا ون ہو سکا؟
ج : اسپل(SPIL) کے اس اقدام سے یہ با ت واضح ہو تی ہے کہ یہ انجمن لا ئبریرین شپ کی پیشہ ورانہ تعلیم کو لا زمی قرار دیتی ہے اور یہ انجمن چاہتی تھی کہ جامعات میں لا ئبریری کے طلبہ کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ وہ جب عملی میدان میں جائیں تو زیادہ محنت اور بہتر طریقے سے خدمات انجام دیں۔

۶ : آپ کے خیال میں اسپل(SPIL) کی مطبوعات لا ئبریری مواد میں کس حد تک مفید اور کارآمد ثا بت ہوئیں؟
ج : اسپل(SPIL) کے لا ئبریری لٹریچر جن میں Proceedings ‘ Guide Books ‘ Library Plan ‘ رپورٹس اور تجاویز و Memorandums اور نصابی کتب بھی شا مل ہیں۔ یہ لٹریچر پا کستان لا ئبریرین شپ کے اولین لٹریچر میں شمارہو تا ہے۔ اس کے بعد جو بھی کا م ہوا ہے یہ اس کی بنیاد ہے، پا کستان میں لا ئبریرین شپ کی تاریخ میں اسپل (SPIL) اور اس کی سر گرمیوں نیز اس کے لٹریچر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اس کی مطبوعات کا ذکر کیے بغیر اس ملک میں لا ئبریرین شپ کی تاریخ ادھوری رہے گی۔ معیار کے اعتبار سے بھی یہ ادب بہتر اور معیاری ہے۔

۷ : حکیم محمد سعید شہید کے قائم کر دہ کتب خانے بیت الحکمتہ کے با رے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
ج : بیت الحکمہ کو دیکھنے کا مجھے موقع ملا ، میری رائے یہ ہے کہ یہ کتب خانہ پا کستان ہی نہیں بلکہ جنو بی ایشیا ء کا سب سے بڑا کتب خانہ ہے۔ذخیرہ کتب ، عمارت اور اس میں قائم مختلف شعبہ جات دیکھ کر یہ اندازہ ہو تا ہے کہ حکیم محمد سعید شہید لا ئبریری کے لئے کس قدر شدید محبت رکھتے تھے۔ کتب خانہ جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہے قارئین و محققین کے لیے تمام طرح کی سہولیات مہیا ہیں خاص طور پر اس کا شعبہ ’تراشہ جات‘ اپنی نوعیت کی واحد مثال ہے شعبہ مخطوطات بھی قابل تعریف ہے ۔ اسٹاف کا خدمات مہیا کر نے کا انداز بھی اچھا ہے۔

۸ : لا ئبریری سا ئنس میں پی ایچ ڈی کی تعلیم کا آغار جا معہ کرا چی سے ۱۹۶۷ء میں ہو چکا تھا۔ ۳۷ سال میں صرف ۲ جامعہ کراچی سے اور ایک اسلا میہ یو نیورسٹی بہاولپور سے یہ سند حا صل کر سکے اب آپ چو تھے فر د ہیں یہ سند حاصل کر نے والے، آپ کے خیال میں اس کی وجہ اپنے مضمون سے عدم دلچسپی رہی یا کوئی اور رکا وٹ؟
ج : ۱۹۶۷ء میں کا فی لوگ رجسٹر ہو ئے ان کے کام نہ کر نے کی وجہ میرے خیا ل میں عدم دلچسپی تھی بعد میں لا ئبریری سائنس میں پی ایچ ڈی کی تعلیم کے فروغ نہ پا نے کی دو وجوہات ہیں۔
(۱) جن احباب نے پی ایچ ڈی کر لیا انہوں نے دیگر لوگوں کو اس جانب راغب نہیں کیا، یعنی حوصلہ افزائی کر نے کے بجائے حوصلہ شکنی کر تے رہے۔
(۲) پی ایچ ڈی ایک مشکل کام ہے ہمارے لا ئبریرینز نے ہمت نہیں کی کہ وہ اس مشکل کا م کو کر گذر نے کی کوشش کر تے تو یقیناً کر سکتے تھے۔

۹ : آخر میں یہ فرمائیں کے آپ اس تحقیق کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اس موضوع پر کچھ کہنا چاہیں گے؟
ج : مجھے جب یہ معلوم ہوا کہ آپ نے حکیم محمد سعید شہید کی لا ئبریری سے متعلق خدمات کو موضوعِ تحقیق بنایا ہے تو میں نے اس پر خوشی محسوس کی، مجھے یہ کہتے ہو ئے مسرت ہو رہی ہے کہ حکیم صاحب واقعی اس لائق ہیں کہ ان کی اس شعبے کے لیے جو خدمات ہیں اور جو اس قدر زیادہ ہیں کہ یہ موضوعِ تحقیق ایک خراج تحسین ہوگا اور اس لحاظ سے بھی یہ موضوع بہت اچھا ہے کہ پا کستان میں جس شخص نے اس شعبے کے لیے اتنا کام کیااس پر اس قسم کی تحقیق دوسرے لوگوں کے لییو معاشرے کے سر کردہ افراد ہیں کے لیے یہ تحقیق متوجہ کا باعث ہو گی کہ اس پیشے کے لوگ اپنے محسنوں اور ان کی خدمات کو یاد رکھتے ہیں۔ میری تجویز یہ ہے کہ یہ تحقیق جامع ہو کوئی گوشہ خالی نہ رہ جائے۔

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1277459 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More