حکومت اور ہندو توا کا رویہ تبدیل

جارحیت کی جگہ آئینی اصولوں کی پیروی

ہندو توا اور مودی توا کے ایجنڈوں کی 9 ماہ کی نگرانی کے بعد عالمی برادری ہندوستان کے مصنوعی قوم پرست اور ضارحیت پسند ایجنڈہ پر اپنی محتاط رائے کے ساتھ سامنے آگئی ہے۔پے در پے چا واقعات ہماری طرف اپنی طرف مبذول کرتے ہیں۔[1[27 جنوری کو یوم جمہوریہ پریڈ میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کیلئے آئے ہوئے صدر امریکہ بارک اوبامہ کا ایک اجتماع سے خطاب کے دوران ہندوستان میں مذہبی رواداری پر زور۔[2[اس کے ایک ہفتہ کے اندر واشنگٹن ڈی سی میں نیشنی پرئیر بریک فاسٹ کے دوران پھر ایک بار 3000 قومی اور بین الاقوامی مہمانوں سے خطاب کرتے ہوئے ہندوستان میں مذہبی رواداری کے فقدان [پر بپھر ایک بار اظہار تشویش اور موجودہ صورتحال پر مہاتما گاندھی کے سکتہ میں آ جانے کے اندیشہ کے اظہار کے ساتھ معاملہ کی سنگینی کی طرف اشارہ۔[3]نیو یارک ٹئمز میں ایک مضمون میں اس صورتحال پر فکر مندی کا اظہار۔ اور اب [4[ ایک بڑے سرمایہ کار بلکہ انوسٹمنٹ گرو جم راجر کا مودی کے صرف بات کرنے اور عمل سے گریز کرنے پر اظہار ناخوشی۔مقامی عیسائی انجمنوں،مسلم تنظیموں اور اپوزیشن پارٹیوں کے ردعمل سے الگ بین الاقوامی برادری میں مودی تو اور ہندوتوا کی لہر پر یہ ردعمل اپنا جلوہ دکھا گئے۔حکمران جماعت، حکمران اتحاد، وزیر اعظم، وزیر داخلہ،وشو ہندو پریشد سب کو کثرت میں وحدت کی اصطلاح یاد آگئی۔پوری سرکاری ممشنری حرکت میں ہے۔کوئی اوبامہ کے بیان کو ہندوستان کے داخلی امور میں مداخلت کہ کے اسے مسترد نہیں کر رہا ہے۔جم روجر کا بیان مجذوب کی بڑ کہ کر نظثر انداز نہیں کیا جا رہا ہے۔کیونکہ اس بین الاقوامی ردعمل میں ہندوستان کے عوام کی رائے اپنی جھلکیاں دکھا رہی ہے۔ معدی اور امت شاہ نے ہندوستان کو گجرات سمجھ لیا تھا۔ ہندوستان گجرات نہیں یہ ہم رواول سے کہتے آ رہے ہیں۔ہندوستانم کو ایک لہر سے نکل کر اپنی بات کہنے کا پہلا جو موقع دہلی اسمبلی کے انتخاب میں ملا اس میں اس نے اپنی رائے کافی ہوشیاری کے ساتھ سنادی۔ اس میں شاونیت کے خلاف ہندوستانیت کا تناسب 3 کے مقابل 67 کا بنا۔یہ داخلی چوٹ بہت شدید تھا جس پر اندر باہر سے مزید ردے لگے اور عقل ٹھکانے آ گئی۔جنوبی دہلی میں ایک چرچ پر حملہ۔ 9 مہینہ میں اپنی نوعیت کی چھٹی واردات اور اس واردات پر ردعمل صبح صبح پولیس کمشنر بی ایس بسی وزیر اعظم نریندر مودی کے سامنے طلب کر لے گئے۔دہلی پولیس کے 68ویں یوم تاسیس کی پریڈ میں مرکزی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے پولس کو نئی اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی حکومت کے ساتھ بھر پور تعاون کرنے کی ہدایت دی۔وشو ہندو پریشد نے سنگھی تنظیموں کو مودی کے کام میں مشکل کھڑے کرنے سے گریز کا مشورہ دیا۔اور پھر وزیراعظم کی حیثیت سے نریندر مودی نے مذہبی رواداری کے حق میں زبان کھولی۔یہ سب کچھ ابتدائی 9 مہینوں میں ہی ہو گیا۔بھارتیہ جنتا پارٹی، سنگھ، اس کی ذیلی اور ہم شیر اور محاذی تنظیموں کو اب سر جوڑ کر یہ سوچنے کیلئے کہ نہیں کہ کیسے دبدبہ برقرار رکھا جائے بلکہ اس پر غور کرنے کیلئیے بیٹھنا چاہئے کہ کیا ہندوستان کا سیکولر سوشلسٹ کردار بدلنا اتنا آسان ہے۔؟کیا ہندوستان آئین کی تمہید سے سیکولر اور سوشلسٹ جیسے الفاظ نکال دینے پر راضی ہو جائے گا؟کیا گھر واپسی جیسی سیدھی سادی اصطلاح کے پیچھے چھپا ہوا جبری تبدیل مذہب کا خوف ناک منصوبہ حکومت کی خاموش سرپرستی سے تکمیل تک پہنچ سکے گا۔؟ کیا گیتا کو قومی کتاب کا درجہ دیا جا سکے گا؟نہرووین لائن سے بہ آسانی انحراف کرنا ممکن ہوگا؟پلاننگ کمیشن کو توڑ کر اندھیرے میں دیر تک بھٹکنے کے بعد پالیسی کمیشن پر قناعت کی ذلت سے بچنے کیلئے نیشنل انسٹیٹیوٹ فار ٹرانس فارمیشن آف انڈیا[NITI] کی اصطلاح بنانے کا عمل جاری رکھنا ممکن ہوگا۔؟JNNRUM کے نام سے منسوب شہری احیا کے مشن کو اٹل بہاری کے نام سے منسوب کرکے کسی طبقہ کو خوش کیا جا سکتا ہے؟گاندھی جینتی کی تقریبات پر صاف ہندوستان مہم کے افتتاح کی چٹان رکھ کر اس کی روح کو ڈھکنا آسان ہوگا؟کیا 2اکتوبر کو اروند کیجریوال کے انتخابی نشان کھاڑو کو ہائی جیک لرنے کی کوشش عام آدمی کو ٹھنڈے پیٹوں قبول ہو گئی۔ اس نے جھاڑو سے مودی کو جوڑ لیاَ؟کیا اداروں کے انگریزی ناموں پر ہندی کا غلبہ آسانی سے قبولیت کا درجہ اختیا کر گیا؟کیا لو جہاد، بہو لاؤ بیٹی بچاؤ جیسے سماجی انتشار پسند نعرے ووٹ میں تبدیل ہو سکے؟سادھو سنت سماج کی سیاسی دوستی سے بی جے پی بطور حکمران جماعت کتنا فائدہ ہو سکا؟ان سوالوں اکے جوابات آسان نہیں ہیں۔اگر منتھن کے بعد ان کا جواب ہاں میں آتا ہوا دکھانے کی کوشش کی گئی تو ہندوستان کی مارکیٹنگ پر کافی گہری چوٹ لگے گی کیونکہ جس ہندوستان کو اقوام عالم میں من موہن سنگھ اپنی اقتصادی مہارت سے 2008 کے گلوبل ملٹ ڈاؤن [اقتصادی بحران] کی مار سہنے سے بچانے کیلئے بینکوں کو بحران کی علامتیں دیکھتے ہی کشن [گدا] فراہم کرنے کیلئے تقویتی پیکج دے کر بینکوں کی حساب بت باق کرنے کی اہلیت بڑھائی تھی، اس ہندوستان پر سرمایہ کاروں کا بھروسہ ابھی ہے مگر بقول جم راجر آگے بھی رہنے کا یقین نہیں۔ منڈی میں مصنوعی پیسہ کیموجودگی ہمیشہ بڑا اقتصادی بحران لاتی ہے من موہن کو اس کی سمجھ تھی انہوں نے بحران کو ہندوستان آن ے سے پہلے کمزور بنا دیا تھا اور تب امریکہ اور برطانیہ جیسی بڑی اقتصادی طاقتیں ہندوستان کی طرف دیکھ کر حیران تھین کہ وہ اپنے بینکوں کو دیوالیہ ہونے سے نہیں بچا سکیں اور ہندوستانی بینک کاری اور مالیاتی نظام بحران کو ذرا سے جھٹکے کے ساتھ مسکتراتے ہوئے جھیل گیا۔آج کی سیات اقتصادیات سے تحریک پاتی ہے۔ دوست دشمن سب اقتصادی فائدہ کی بنتی بگڑتی صورتوں سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔صرف زبانی جمع خرچ سے نہیں۔جم کا کہنا ہے کہ مودی 9 مہیننہ سے صرف باتیں کر رہے ہیں۔ جم یہ بھول رہے ہیں کہ مودی وہاں بول رہے ہیں جہاں بولنا کم ضروری ہے۔بیان دینے کی اصل جگہ پارلیمنٹ ہے اور وہاں نہ بولنے کی قسم انہوں نے اس شدت سے کھا رکھی تھی کہ 7 مہینوں میں 10آرڈی ننس لانے کا اعزاز حاصل کر لیا مگر ہندو جارحیت پسندی کے خلاف لب کھول کر ایوان میں وہ ماحول نہیں بننے دیا جس میں کئی اہم بل پاس ہو جاتے۔گویا پارلیمانی کام کاج ٹھپ کیا۔ غیر ملکی دوروں پر اس طرح رہے کہ بعض مخالف سیاست دانوں نے غیر رہائشی پرائم منسٹر کی اصطلاح تک وضع کرلی۔اب بین القوامی سطح پر ان سے بولنا چھوڑ کر کام کاج شروع کرنے کا دباؤ بڑھ رہا ہے جس میں مذہبی رواداری کی بحالی بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ اقتصادی اصظلاحات مگر مودی توا اور ہندوتوا دونوں کے پہاس ملک کو آگے لے جانے کا کوئی ایجنڈا نہیں ، پیچھے قرون وسطیِ میں لے جانے کا جنون ہے اس لئے 9مہینے میں ہی راستہ درست کرنے کا مرحلہ آگیا ہے۔ یا تو مودی اسی راہ پر چلیں جس پر آزاد ہندوستان نے چلنے کا فیصلہ کیا تھا اور چل کر یہاں تک آیا تھا یا پھر اس حشر کیلئے تیار رہیں جو نوشتہ دیوار کی حیظیت سے اس وقت بہت زیادہ اجا گر ہو چکا ہے۔چونکہ مودی کی فکر پر حالیہ مقامی اور بیرونی دباؤ اثر انداز ہو کر ان سے ہندوساتنیت کا اعتراف کرانے لگی ہے اور ہندوستانی میں وہاپنی معنویت چند مہینوں میں کھونا بھی نہیں چاہیں گے اس لئے چنتن میں سیکولر سوشلسٹ ہندوستان کی روایتوں کا احترام زیادہ نمایاں ہونا چاہئے۔اس کے بغیر چارہ بھی نہیں یگر ہندوستان نے تمام مذاہب کا ہمیشہ خیر مقدم اور احترام کرنے کی روایت بنائی ہے تو وہین روایت اہپنی پیروی کا حکم بھی نافذ کر رہی ہے۔اوبامہ کی زبان سے بھی،جم کی زبان سے بھی،نیو یارک ٹایمز کی زبان سے بھی اور عام آدمی کی زبان سے بھی۔سننے کی سکت اور عمل کرنے کا جذبہ بیدار ہونا ضروری ہے۔سماجی امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے بغیر نہ میک ان انڈیا کامیاب ہو سکتا ہے نہ پالیسی کمیشن کی منصوبہ بندی سے فیض حاصل ہونا ممکن ہے۔

Ashhar Hashimi
About the Author: Ashhar Hashimi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.