شہید کی ماں

شہید کا رُتبَہ و مرتبہ یقینا اعلیٰ و افضل ہے۔شریعت کی اصطلاح میں ایک مسلمان کی بلا شرکت غیرے اﷲ تعالیٰ کی اطاعت ، لا شریک تسلیم کرنے اور نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کی رسالت کے اقرار کو شہادت کہاگیا ہے ۔روئے زمین پر اﷲ کی حاکمیت اورکلمتہ اﷲ کی اشاعت کی غرض سے ایک مسلمان کا اپنی جان دے دینا بھی شہادت ہے۔شہید کی تعریف اردو ترقی بورڈ کی اردو لغت میں یہ بیان کی گئی ہے کہ ـ’’دین اسلام کی خاطر جان دینے والا، خدا کی راہ میں قربان ہونے والا، امر حق پر جان دینے والا ، شہادت کا تربی پانے والا‘‘۔ لفظ شہید ‘ شہادت ہی سے مشتق ہے ۔اسی لیے قرآن مجید میں بمعنی شاہد آیا ہے۔ شہید وہ شخص جس کے حق میں جنت کی شہادت دی گئی ہے۔
مرے خاک و خُون سے تُونے یہ جہاں کیا ہے پیدا
صِلۂ شہید کیا ہے ، تب و تابِ جاو دانہ
شہید خدا تعالیٰ کا ایک وصفی نام بھی ہے۔
یا عظیم ُ یا حلیم ُ یا رقیب ُ یا مجیب
یا حمید ُ یا معید ُ یا شہیدُ یا حسیب

اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں شہدا کو مَردہ یا مرا ہوا کہنے سے منع فرما یا ہے ۔ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے ترجمہ’’ اور جو لوگ خدا کی رہا میں مارے جائیں یہ نہ کہنا کہ وہ مَر ے ہوئے ہیں (وہ مُردہ نہیں)بلکہ زندہ ہیں لیکن تم نہیں جانتے‘‘ (سورۃ البقرا آیت ۱۵۴)، قرآن مجید کی سورۃ آل عمران کی آیت ۱۶۹ میں ارشادِ خدا وندی ہے۔ ترجمہ’’جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے اُن کو مرے ہوئے نہ سمجھنا (وہ مرے ہوئے نہیں ہیں) بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں اور اُن کو رزق مل رہا ہے‘‘۔اﷲ تعالیٰ نے قیامت کے روز شہدا کو انبیاء، صدیقین ،صالحین اور نیک لوگوں کے ساتھ ہونے کی نوید بھی سنائی ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ ’’اور جو لوگ خدا اور اُ س کے رسُول کی اطاعت کرتے ہیں وہ قیامت کے روز ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر خدا نے بڑا فضل کیا یعنی انبیاء، صدیقین، صالحین اور شہید اور نیک لوگ اوراُن لوگوں کی رفاقت بہت ہی
خوب ہے‘‘۔(سورۃ النساء آیت ۶۹)

شہداکا اعزاز یہ بھی ہے کہ وہ قیامت کے روز وہ شفاعت کرنے والوں میں شامل ہوں گے۔ ابن ماجہ کی حدیث ہے حضرت عثمان بن عفانؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ’’ قیامت میں تین طرح کے لوگ (خصوصیت سے) شفاعت کریں گے۔انبیاء ، پھر دین کا علم رکھنے والے اور پھر شہداء‘‘۔شہید کی قدر و قیمت کا اندازہ شاعر مشرق علامہ اقبال کے اس شعر سے بھی واضح ہے ۔
اُن شہیدوں کی دِیَت اہل کلیسا سے نہ مانگ
قدر و قیمت میں ہے خُون جن کا حرم سے بڑھ کر

شہادت کا رتبہ پانے والے کو جب اس قدر اعلیٰ و عرفہ ، بلند و بالا مرتبہ حاصل ہے تو اس ماں کا کیا مقام ہو گا کہ جس نے اس شہید کو نو ماہ اپنی کوک میں رکھا، پیدائش کی شدید تکلیف برداشت کی، اس کے لیے خود گیلے میں لیٹی اسے سوکھا بستر فراہم کیا، خود بھوکی رہی اپنے لخت جگر بھوک سے رونے نہ دیا، سر د اور گرم راتوں میں اٹھ اٹھ کر اسے دودھ پلایا، اس کے لیٹے رہنے سے بیٹھنے تک، بیٹھنے سے انگلی پکڑ کر چلنے تک ،بچپن سے جوانی تک اس کا ایک پل ، اس کی ایک ادا کو دیکھ دیکھ کر پھولے نہ سمانے والی ماں ،فوجی وردی میں ملبوس اپنے کڑیل ، بانکے ، سجیلے ، حسین و جمیل بیٹے پر واری اور نثار جانے والی ماں پر اس وقت کیا گزری ہوگی جب اس کے لال کی یہ خبر اس نے اپنے کانوں سے سنی ہوگی کہ
اس کے لال کو شہادت کا رتبہ نصیب ہوچکا ہے۔ یقینا ماں جس کے پیروں تلے پہلے ہی جنت رکھ دی گئی ہے شہید بیٹے کی شہادت پر اسے بھی شہادت کا درجہ ہی حاصل ہوگا۔ مسرور جالندھری کا شعر ؂
دیکھ لو شہیدوں کے پروقار چہروں کے
کیا نکھار آتا ہے خون میں نہا نے سے

اس تمہید کے بعد میں ایسی ہی ایک ماں اور ایک بیوی کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں ، سلام عقیدت کے پھول نجھاور کرنا چاہتا ہوں کہ جس کا شوہرمیجر محمد شریف ، جس کے ایک بیٹے میجر شبیر شریف شہید (نشان حیدر، ستارہ جرات) جنہوں نے ۱۹۷۱ء کی پاک بھارت جنگ میں شہادت نوش کیا ، ایک بیٹا کیپٹن ممتاز شریف(تمغہ بسالت) اور ایک بیٹا اسلامی جمہوریہ پاکستان کی فوج جو کہ دنیا کی سب سے ڈسیپلن فوج ہے کا سپہ سالار ہے۔ یہ سپہ سالار ہیں جنرل راحیل شریف اور یہ عظیم خاتون ان تینوں بیٹوں کی ماں ہے کہ جس نے ہفتہ ۱۴ فروری ۲۰۱۵ء کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے داعی اجل کو لبیک کہا اور اپنے شہید بیٹے میجر شبیر شریف شہیدسے جاملی۔اپنے شہید بیٹے کی جدائی میں ۴۴ سال کا طویل عرصہ گزارا۔ اب ماں نے اپنے شہید بیٹے کو اپنے سینے سے لگا کر اپنے سینے کو ٹھنڈا کیا ہوگااور شہید بیٹا بھی اپنی ماں کو پا کر کس قدر خوش ہوا ہوگا۔ جنت میں شہید بیٹے اوراس کی ماں کے اس حسین ملاپ پر آسماں بھی پھولے نہ سمایا ہوگا۔شہیدوں نے آگے بڑھ کر شہید کی ماں کو لبیک کہا ہوگا۔

یہ عظیم ماں پاکستان آرمی کے ایک مثالی خاندان جسے ’میجر محمد شریف کا خاندان‘کا کہا جاسکتا ہے کا اٹوٹ حصہ تھی۔ میری ذاتی رائے میں شہیدوں کی مائیں شہید ہی تو ہوتی ہیں۔جنرل راحیل شریف کی ماں صرف میجر محمد شریف کے خاندان کی ماں ہی نہیں تھی بلکہ پاکستانی قوم کی قابل احترام ہستی تھی۔ شہید مرتے نہیں ، انہیں مردہ مت کہو وہ تو زندہ ہیں، انہیں تو رزق مہیا ہوتا ہے۔ شہید کی یہ ماں۹۶ برس کی عمرمیں ہفتہ ۱۴ فروری ۲۰۱۵ء کو راولپنڈی کے ایک اسپتال میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے خالق حقیقی سے جا ملی۔ وہ فوجی ادارہ قلب ( ایف آئی سی) راولپنڈی میں زیر علاج تھیں۔کہا جاتا ہے کہ انہوں نے تین نسلوں کو پاکستان کی فوج میں شامل ہوکر بہادری ، جواں مردی اور وطن عزیز کے لیے جان کا نذرانہ پیش کرنے کی عملی ترغیب دی اور وہ اس میں پوری طرح کامیاب و کامران نظر آتی ہیں۔ پہلی نسل ان کے والد اور ان کے پانچ بھائی تھے ، ان کے شوہر اور دیگر عزیز رشتہ دار جنہوں نے افواج پاکستان میں شامل رہ کر وطن عزیز کی خدمت کی، دوسری نسل ان کی اولاد یعنی بیٹے( میجر شبیر شریف شہید (نشان حیدر، ستارہ جرات)، بیٹا کیپٹن ممتاز شریف(تمغہ بسالت) اور بیٹا اسلامی جمہوریہ پاکستان کی فوج کا سپہ سالار( جنرل راحیل شریف )اور اس نسل کے دیگر افراد شامل ہیں۔موجودہ نسل ان کی اولاد کی اولاد یعنی پوتے اور نواسے ہیں جو اپنے بزگوں کے نقش قدم پر چل کر افواج پاکستان میں خدمت انجام دے رہے ہیں۔وہ عزیز بھٹی شہید (نشان حیدر) کی قریبی عزیز تھی، میجر عزیز بھٹی کی والدہ ان کی خالہ تھیں اس اعتبار سے میجر عزیز بھٹی شہیدان کے خالہ زاد بھائی بھی تھے۔ نماز جنازہ چکلالہ گیریژن راولپنڈی میں ادائیگی کے بعد ان کاجسد خاکی لاہور لایا گیااور مرحومہ کو کیولری گراؤنڈ قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔

شاعر مشرق علامہ اقبال نے ماں کے لیے جن احساساس اور جذبات کا اظہار اپنی اس نظم میں کیا وہ ہر کے اپنی ماں کے لیے ۔
یاد سے تیری دلِ درد آشنا معمور ہے
جیسے کعبہ میں دعاؤں سے فضا معمور ہے
مثلِ ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہو ترا!
نُور سے معمور یہ خاکی شبستان ہو ترا !
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے!
سبزۂ نور ستہ اس گھر کی نگہبانی کر ے !

میجر محمد شریف کا خاندان بنیادی طور پر راجپوت ہے ۔ پاکستان میں یہ خاندان پنجاب کے ضلع گجرات کے شہر کنجاہ(Kunjah)سے تعلق رکھتا ہے۔یہاں کے رہائشی کنجاہی کہلاتے ہیں۔ یہ پنجاب کا چھوٹا سا شہر نما گاؤں ہے جس کی آباد تقریباً ۴۰ ہزار نفوس پر مشتمل ہوگی ۔یہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے ۱۰۵ میں شامل ہے جہاں سے چودھری پرویز الہٰی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے رہے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کا زریعہ معاش زراعت ہے تاہم فوج میں خدمات سر انجام دینا اپنے لیے باعث فخر تصور کرتے ہیں۔کنجاہ کے معروف لوگوں میں میجر محمد شریف کا خاندان اور ان کے بہادر بیٹے میجر شبیر شریف شہید (نشان حیدر، ستارہ جرات)،کیپٹن ممتاز شریف(تمغہ بسالت) اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف ہیں ۔ ان کے علاوہ محمد اکرم غنیمت کنجاہی معروف محقق تھے جنہوں نے ’نیرنگ عشق ‘لکھی تھی، شریف کنجاہی (۱۹۱۵ء ۔۲۰۰۷ء) پنجابی زبان کے معروف شاعر اور مصنف و استاد تھے۔ یہ ۱۹۷۰ء میں جامعہ پنجاب لاہور کے شعبہ پنجابی کے اولین اساتذہ میں سے تھے۔ شاعر، نثر نگار اور پنجابی ادب کے نامور تخلیق کار تھے۔ انہوں نے پنجابی ادب کو اپنی تخلیقات سے مالامال کیا۔پنجابی شاعری اور ادب کے حوالے سے قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔

جنرل راحیل شریف کی ماں نے اپنے شہید لخت جگر نشان حیدر حاصل کرنے والے میجر شبیر شریف کی شہادت پر کہا تھا کہ ’میرے شبیر نے اپنے وطن پر جان قربان کرکے ماں کا سر فخر سے بلند کردیا ہے ‘۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صرف یہی نہیں بلکہ مجھے اپنے بیٹوں پر ناز ہے راحیل اور ممتاز بھی ایک سیکنڈ نہیں لگائیں گے اگر انہیں پاکستان پر اپنی جان نچھاور کرنا پڑے۔ ان کا کہنا تھا کہ’ مجھے اپنے بیٹوں کے کارناموں پر فخر ہے، ہمارا پورا خاندان آرمی میں فرائض انجام دیتا آرہا ہے۔ میرے پانچوں بھائی اور والد آرمی میں تھے اور پھر میرے شوہر محمد شریف بھی آرمی افسر اور اب پاکستان پر مر مٹنے کے لیے تیار راحیل اور ممتاز بھی اپنی باری کے منتظر‘ ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بس میں اتنا کہوں گی کہ سب کوسخت محنت اور ایمانداری سے کام کرنا چاہئے ، والدین کی خدمت کریں کیونکہ ماں باپ کی خدمت اور محنت ہی کامیابی کی کنجی ہے۔جنرل راحیل کی والدہ مرحومہ کے یہ خیالات ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے اپنے کالم ’شہدائے وطن کی ’’امی جان‘‘(جنگ ۱۷ فروری ۲۰۱۵ء) میں تحریر کیے ہیں۔

اﷲ اﷲ ایک خاتون اور ایک ماں ہوتے ہوئے وطن سے محبت ، عقیدت اور قربانی کا لازوال اور مثالی جذبہ رکھنے والی ماں کو سلام، پروردگار انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔بہادر بیٹے کی ماں نے اپنے بیٹے میجر شبیر شریف کی شہادت کی خبر سنی تو انہیں اس وقت اپنے بہادر بیٹے کی یہ بات یاد آگئی جو کبھی اس نے اپنی ماں سے کہی ہوگئی کہ ’امی جی! شہیدوں پر ماتم کرنا ان کے ساتھ زیادتی ہے‘۔ اپنے بیٹے کی اس دلیل پر ایک ماں نے اپنے آپ کو حوصلہ دیا ، سہارا دیا اور فخر کیا کہ اس کے بہادر بیٹے نے جام شہادت نوش کیا اور وہ اعزاز کے ساتھ دنیا چھوڑ گیا اور اپنے خاندان اور ملک کے لیے باعث فخر بنا۔ سلام ہو اس ماں پر جس نے نہ صرف بہادر بیٹوں کو شہادت کے لیے تیار کیا، وطن سے محبت اور اس کے لیے جان قربان کردینے کی ترغیب دی۔ماں پھر ماں ہے اس کی جدائی کا احساس وہ لوگ اچھی طرح کرسکتے ہیں کہ
جن کی ماں دنیا سے جاچکی ہوں ۔
پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے
کوئی ان بچوں سے پوچھے جن کی مرجاتی ہے ماں

ماں کی جدائی کا دکھ اورصدمہ یقینا جنرل راحیل شریف اور مرحومہ کی تمام اولادوں کو ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ مرحومہ کو جنت الفروس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور تمام لواحقین اور جنرل رحیل شریف کو صبر جمیل عطا فرمائے ،آمین .آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے!(۱۹ فروی ۲۰۱۵ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1273965 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More