آزربائیجان کے سفر کی مختصر داستان

مشرقی یورپ اور مغربی ایشیاء کی سرحدوں کو ملانے والے ملک آذربائیجان کے حقائق سے عوام کم ہی آگاہ ہیں۔ تواریخِ عالم میں 1918 عیسوی کے اعداد و شمار کے مطابق یہ پہلا مسلم اکثریتی ملک تھا جس میں جدید علوم کی جامعات کے ساتھ مغربی تھیٹر وغیرہ بھی قائم تھے۔ اس کے شمال میں روس، شمال مغرب میں جارجیا، مغرب میں آرمینیا اور جنوب میں ایران واقع ہے۔ شمال مغرب میں ترکی بھی واقع ہے اور ایک مختصر زمینی حدود بھی دونوں ممالک کے درمیان واقع ہے ۔ اس زمینی حدود کے ذریعے تجارت یا سفر تاحال ممکن نہیں ہے۔ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان ایک ساڑھے پانچ ہزار مربع کلو میٹر کا علاقہ "نخچیون " متنازعہ ہے، جس پر کئی بار محاذ آرائی بھی ہو چکی ہے۔

آذربائیجان 1920 میں سوویت یونین کا حصہ بنا اور اکتوبر 1991 میں سوویت یونین کی تقسیم کے بعد ایک الگ اور خود مختار ریاست کی شکل میں دنیا کے نقشے پر آیا۔ "باکو" ملک کا دارالحکومت اور واحد بین الاقوامی ہوائی اڈا ہے۔ تیل کی دولت سے مالا مال اس ملک کا سمند ر پانیوں کے ساتھ ساتھ تیل بھی اگلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باکو شہر کے نواح کا سفر کرتے ہوئے یا پھر شہر سے باہر نکل کر دیگر علاقوں کی طرف جائیں تو سمندر میں لگی ہوئی کرینیں نظر آئیں گی۔ یہ مشینیں تیل کی تلاش کا کام کرتی ہیں۔
آذربائیجان میں بھی آمرانہ نظامِ حکومت ہے الہام علیوف ملک کے صدر ہیں اور یہ حکمرانی انہوں نے خاندانی طور پر حاصل کی ہے۔ پرویز مشرف کے انداز پر کروائے گئے ریفرنڈم میں وہ کامیاب ہوئے تھے اور اب نہ جانے وہ کب تک منصبِ صدارت پر متمکن رہیں گے۔ حزبِ اختلاف کے سرکردہ قائدین ملک بدر ہیں اور اگر کوئی واپسی کی کوشش کرے تو ائیر پورٹ سے ہی واپس کر دیا جاتا ہے۔ آمرانہ نظام کی وجہ سے ملک کے اکثر ادارے بد عنوانی کا شکار ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سال 2012 میں یورپ کے تحقیقاتی اداروں نےآزری صدر کو "سال کی سب سے بڑی بد عنوان شخصیت" قرار دیا تھا۔ رشوت خوری کا یہ حال ہے کہ باکو کے انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر امیگریشن حکام پاسپورٹ دیکھ کر تعین کرتے ہیں کہ اس سے کتنے ڈالر مانگے جائیں، آپ کے پاس تمام کوائف و کاغذات درست ہونے کی صورت میں بھی سو دو سو ڈالر یا پھر حسب توفیق پانچ ڈالر دے کر بھی جان چھڑوانا پڑتی ہے۔ اگر آپ کے پاس مغربی پاسپورٹ ہو تو صورتحال اس کے برعکس ہو گی۔ میرے نزدیک اس رشوت کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان و پاکستان کے نوجوان یورپ جانے کے چکر میں آذربائیجان جاتے ہیں پھر وہاں سے یورپ نکلنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ آذری حکام جانتے ہیں کہ یہ لوگ کیوں آرہے ہیں، ان کی اس خواہش اور ویزہ کے حصول میں غلط بیانی ان لوگوں کی کمزوری بن جاتی اور یوں انہیں رشوت دینا لازم ہوتا ہے۔ میرے ساتھ باکو ائیر پورٹ پر جب اس طرح سلوک ہونے لگا تو میں نے اپنا تعارفی کارڈ پیش کیا، اس پر امیگریشن افسر نے خوش اسلوبی سے نہ صرف مہر لگائی بلکہ ادب سے سلام بھی کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ہمارے اپنے معاملے درست ہوں تو ایسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

آذربائیجان اور اس کی ہمسایہ روس سے آزاد ریاستوں میں تقریباً ایک صدی تک اسلام اور اہل اسلام کو مغلوب رکھا گیا ہے، اس کی وجہ وہاں عیسائیوں اور یہودیوں کا تسلط اور مغرب و روس کی طاقت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آزربائیجان کے کسی بھی باشندے کو آپ ملیں تو اس کی وضع و قطع، گفت و شنید سے آپ کو مسلم ہونے کا تاثر نہیں ملے گا۔ لوگوں کی اکثریت آذری زبان کے ساتھ ساتھ روسی اور فارسی زبان بھی سمجھتی ہے۔ یہ ایک شیعہ اکثریتی ملک ہے اور ایران کے ساتھ انتہائی قریبی عوامی تعلقات ہیں۔ آپ کو سنیؔ مسجد چراغ لے کر ڈھونڈنی پڑیں گی۔ میرے وہاں کے مختصر قیام کے دوران ایک جمعہ آیا، جس کے لئیے مسجد کی تلاش میں مارے مارے شہر کے ایک علاقے میں پہنچے تو معلوم ہوا اس مسجد میں دھماکہ ہوا تھا، جس پر حکومت نے مسجد کو تالا لگا دیا تھا۔ بعد ازاں یہ خبر بھی ہوئی کہ یہ ایک منصوبہ تھا کہ اہلِ سنت کی مسجد میں ایسی تخریب کاری کی جائے اور یہ ایک مسجد بھی ہمیشہ کے لئیے بند ہو جائے۔

روسی اور مغربی کلچر کے مظہر اس ملک میں عملاً اسلام دور دور تک نطر نہیں آتا۔ شہر کے فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے یا زیرِ زمین میٹرو ٹرین کے سٹیشنز پر جاتے ہوئے آپ کو جگہ جگہ شراب کے ٹھیلے نظر آئیں گے، یہاں شرب پانی کے بھاؤ بکتی ہے اور سرِ بازار کھلے آسمان تلے رقص و سرود کا انتظام ہوتا ہے۔ فٹ پاتھ کے ساتھ ساتھ واقع شراب خانوں میں نوجوان لڑکیوں کا ناچنا ایک مکمل انڈسڑی ہے ۔ باکو کے ساحلی علاقوں میں حیا کے چیتھڑے اڑتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں ۔ یہ مناظر دیکھ کر مجھے بنکاک، تائیوان، کوالالمپور ، ہانگ کانگ ، نیدر لینڈ اور یورپ کے حرام کاری کے بازار کم نظر آنے لگے۔ کچھ ایسے پاکستانی بھی نطر آئے جو ماؤں اور بہنوں کا زیور بیچ کر تو کوئی زمین کے ٹکڑے اور مال مویشی بیچ کر وہاں اس لئیے بھیجے گئے تھے کہ رزقِ حلال کما کر لائیں گے مگر انہیں بھی وہاں کی حسیناؤں کی زلفوں کا اسیر دیکھا، کچھ تو ایسے تھے جو دن بھر کی کمائی شام کو ان بدن فروشوں پر نچھاور کر دیتے۔ نوجوان لڑکیاں اور لڑکے کسی بھی مغربی ملک سے کہیں زیادہ مادر پدر آزاد اور بے راہ روی کا شکار نظر آئے۔ میری بے چین روح مجھے اس ملک کا مذہبی جائزہ لینے کے لئیے کہہ رہی تھی، مساجد کا جائزہ لیا تو یہاں کی مساجد کو اسلامی تعلیمات سے عاری پایا، مرد و زن کا اختلاط، ادب و احترام نام کا نہیں اور نمازی بھی چیدہ چیدہ۔ باکو شہر میں ایک قبرستان دیکھنے کا اتفاق ہوا، ہر قبر پر کتبہ کے ساتھ ساتھ قدِ آدم کے برابر مدفون کی تصویر بھی ماربل میں منقش تھی۔ مرنے والی خوبرو جوان لڑکیوں کی تصاویر نسبتاً زیادہ اہتمام کے ساتھ ان کی قبور پر دیکھنے کو ملیں۔ قبور پر تصاویر کا یہ رواج انہوں نے روسیوں سے پایا تھا۔ اس قبرستان سے صرف چند میٹر کے فاصلے پر ایک کسینو، ڈسکو اور شراب خانہ بھی واقع تھے۔

داڑھی خوف کی علامت ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے پڑوس میں مقیم ایک ادھیڑ عمر خاتون نے میری داڑھی سے خوفزدہ ہر کر میرے میزبان کو متنبؔہ بھی کیا۔ میٹرو میں سفر کرتے ہوئے یا بازار میں گھومتے ہوئے سورج اتنی توجہ نہیں پاتا جتنی نظریں آپ کی داڑھی پر جاتی ہیں۔ داڑھی کی شرح میرے مطابق پانچ سو میں ایک ہو گی۔ خواتین دکانیں چلاتی اور کاروبار کرتی ہیں۔ کھانا پینا اور طرزِ زندگی سو فیصد روسیوں والا ہے۔ باکو ائیر پورٹ دارالحکومت میں واقع ہے مگر اس سے پاکستان کا ڈیرہ غازیخان ائیر پورٹ اچھا ہے۔ یہاں بنیادی سہولتیں بدحالی کا شکار ہیں۔ بین الاقوامی ائیر لائنز کم ہی جاتی ہیں۔ ترک ائیر لائن، ازبک ائیر لائن، امارات ائیر لائین اور آزربائیجان کی قومی ائیر لائن (جو کہ پرانے جہازوں کی وجہ سے بدنام ہے) کی فلائیٹس دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ روسی ائیر لائن "ایرو فلوٹ" بھی چلتی ہے۔ زیادہ تر تجارت استنبول، روس، ایران اور چین کے علاقہ "ارمچی" سے ہوتی ہے۔

حال ہی میں کچھ عرب تجار اور معمار اداروں نے وہاں کاروبار شروع کیا ہے جس سے امید کی جا سکتی ہے کہ رئیل سٹیٹ اور تعمیراتی صنعت پھلے گی۔ بوسنیا کی کچھ کمپنیوں نے آذر بائیجان کی سرکاری عمارات اور اداروں کی تعمیر کے ٹھیکے لئیے ہیں۔ ملک میں روزگار، صنعتی کارخانوں کا فقدان ہے ، خصوصاً غیر ملکیوں کے لئیے ملازمتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ شہر میں زیرِ زمین ریل کا نظام پہلے سے موجود ہے اور اسے مزید وسعت دی جا رہی ہے۔ آذری کرنسی کا نام "منات" ہے جو تقریباً ایک سو اٹھائیس روپے کے برابر ہے یعنی یہ ڈالر سے بھی زیادہ مستحکم ہے۔

مزید مضامین اور روحانی و اصلاحی مواد کے لئیے ہمارا پیج لائک کیجئیے۔
www.facebook.com/IHR.Official
 
Iftikhar Ul Hassan Rizvi
About the Author: Iftikhar Ul Hassan Rizvi Read More Articles by Iftikhar Ul Hassan Rizvi: 62 Articles with 236283 views Writer and Spiritual Guide Iftikhar Ul Hassan Rizvi (افتخار الحسن الرضوی), He is an entrepreneurship consultant and Teacher by profession. Shaykh Ift.. View More