تعلیم اور سلیقہ مندی

کسی باوقار اور پُر کشش شخصیت کو دیکھ کر کوئی بھی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ تعلیم یافتہ ہے یا نہیں،اسی طرح کسی بے تکے اور غیر نفاست پسند انسان کو دیکھ کر بھی کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ تعلیم یافتہ نہیں ہے۔ سلیقہ مندی کا تعلق تعلیم سے ہرگز نہیں۔ لیکن اس میں بھی کوئی دورائے نہیں کہ تعلیم انسان کے وقار اور اخلاق میں نمایاں تبدیلی لانے بہترین ذریعہ ہے۔لیکن کچھ حضرات جو اعلیٰ تعلیم یافتہ توہوتے ہیں لیکن اُن کا طرز زندگی انکے تعلیم یافتہ ہونے کی نفی کرتا ہے۔لباس ،بیان اور چال اگر ان تینوں میں توازن برقرار ہو تو آپ ایک سلیقہ مند شخص کہلانے کے لائق ہیں ۔ چند ضعیف شخصیات کو جن کی تعلیم توعصری اعتبار سے بالکل ہی کم ہونے کے باوجودان کے چہرے پر جو رعب ہوتاہے وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص کے چہرے پربھی نظر نہیں آتا،اور یہ رعب صرف دکھاوے کا نہیں بلکہ اصل ہوتا ہے جو خاص طور پر ان کی بیویوں اور گھر کے سبھی افراد پر حاوی ہوتا ہے،حضرت کا گھر میں داخل ہونااور عورتوں کا خاموش ہوجانااور فوراً اپنا دوپٹّہ صحیح کرنا،بچّوں کا شرارت بند کرکے پڑھائی شروع کردینا،بہوؤں کا سامنے نہ آنا،فوراً پانی پیش کرنا،آواز نکلتے ہی فوراً عمل کرنا۔۔۔۔وغیرہ بہت سی باتیں ان شخصیات کی ایسی ہیں جس سے ہر کوئی مرعوب ہوئے بنا نہیں رہ سکتا اور یہی چاہے کہ کاش میرا گھر بھی ایسا ہوجائے۔کیا یہ ممکن ہے؟؟؟؟یہ تو ہمارے آباء واجداد کی سلیقہ مندی تھی،ہمارا معاشرہ آج کس رخ پر ہے ہم بخوبی جانتے ہیں۔آج کے اس دور میں ہمارے گھروں کے حالات کچھ ایسی تصویر پیش کرتے ہیں کہ حضرت گھر میں داخل ہوئے تودیکھا ٹی وی شروع ہے،گھر کی ساری عورتیں ساس سمیت ٹی وی پر پروگرام دیکھنے میں مصروف،بچّوں کی شرارت جوں کی توں،حضرت نے جیسے ہی بچّوں کو ڈانٹا اُدھر سے بیوی نے طعنہ کسا’’ آگئے،اچّھا سکون سے کھیل رہے تھے بچّے۔‘‘ اس عمر میں کیا ضرورت پڑی ہے ڈانٹ ڈپٹ کی؟ کیوں اپنا بلڈ پریشر بڑھا رہے ہیں؟ہمیں سکون سے رہنے دو۔ایسے میں اگر حضرت کو پانی پینے کی حاجت محسوس ہوجائے تو ہو سکتا ہے یہ بھی سننے کو مل جائے کہ اﷲ نے ہاتھ دئے ہیں نا۔۔۔۔۔ایسا نہیں ہے کہ آج کے دور میں ویسا رعب ودبدبہ دیکھنے کو نہ ملے بلکہ کئی ایسے خاندان آج بھی اپنی پرانی روایتوں کو بخوبی سنبھالے ہوئے ہیں۔یہ اور بات ہیکہ روایتیں بدلتے دیر نہیں لگتی۔اسکی بہت ساری وجوہات ہیں جس میں سب سے اہم ہے’’اﷲ سے دوری‘‘۔بندہ اﷲ سے جتنا قریب ہوگا اس کا رعب اتنا زیادہ ہوگا۔اور جتنا اﷲ سے دور ہوگا اس کی وقعت اتنی دنیا میں کم ہوجائیگی۔اور ایک وجہ اخلاقی اقدار کی نا مناسب تعلیم بھی سب سے اہم ہے۔اسکولوں میں تو اخلاقی قدروں پر سرکار بہت زیادہ زور دے رہی ہے،لیکن خود سرکار ہی ایسے ایسے طریقے اسکولوں میں نافذ کررہی ہے جس سے اساتذہ خود بخود اخلاقی قدروں کی تعلیم دینے سے قاصر ہوجائیں یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔لیکن آج بھی سماج میں ایسے اساتذہ موجود ہیں جو اخلاقی قدروں کو تعلیم کی بنیاد مان کر درس وتدریس کا عمل انجام دے رہے ہیں،قابل تحسین اور مبارکباد ہیں ایسے افراد جو سماج میں اپنے اسلاف کی تاریخ کو باقی رکھنے کے خواہش مند ہیں۔

گذشتہ دو دہائی سے اساتذہ کی عزت بھی داؤں پر لگ چکی ہے۔پہلے اساتذہ کو سڑک پر دیکھتے ہی اُن کے طالب علم چاہے وہ خود زیادہ عمر کو پہنچ چکے ہوں اپنا راستہ تبدیل کر لیا کرتے تھے یا پھر نظر جھکاکرادب سے سلام کرکے کنارے سے نکل جاتے تھے۔دل میں انکی جو عزت طالب علمی کے زمانے میں تھی وہی عزت آج تک قائم ہے۔اور ایک اب کا زمانہ ہے۔استاد سنیما ہال کے باہر کھڑے ہوں تو شاگرد پوچھتا ہے،’’سر،آپ نے بالکنی کا ٹکٹ لیا ہے یا سرکل کا؟۔‘‘ اس بات کو دیکھ کر چند دانشور کہتے ہیں،’’کیا ہوگا اس دیش کا؟۔‘‘
Ansari Nafees
About the Author: Ansari Nafees Read More Articles by Ansari Nafees: 27 Articles with 22238 views اردو کا ایک ادنیٰ خادم.. View More