زندگی میں اعتدال اپنائیے

 تہوار کسی بھی ملک کے اور وہاں بسنے والے لوگوں کے لئے اہم ہوتے ہیں ۔وہ اُن کا بے چینی اور شدّت سے انتظار کرتے ہیں اور اُن کے آنے پر بھر پور خوشی اور بے حد اہتمام بھی کرتے ہیں ۔مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے تہوار بھی ہمارے لئے خاص اہمیت کے حامل ہیں جیسے عیدوں کی ہی مثال لے لیجئے، ہر چہرہ خوشی سے جگمگا رہا ہوتا ہے ،خوشیاں رنگ اور مسکُراہٹیں ہر سُو بکھری ہوئی ہوتی ہیں ، لیکن ہم چند اُن خاص دِنوں کو بھی اُسی ذوق و شوق سے مناتے ہیں جن کا ہمارے مذہب سے دور دور تک کا واسطہ نہیں ،جیسے سالگرہ، مدرز ،فادرز ڈے اور سب سے بڑھ کر ویلنٹائن ڈے جس کی فروری آ تے ہی دھوم مچنا شروع ہو جاتی ہے ۔

ایک عام خیال یہ ہے جو کہ درست بھی ہے کہ یہ دِن منانا اور اسلام میں اس کی قطعاگُنجائش نہیں ہے بلکہ اکثر موقع پر بڑے بوڑھے بچوں کی اس حوالے سے سرزنش بھی کرتے نظر آتے ہیں بات تو واقعی درست ہے یہ ایک طویل بحث ہے کہ ان تہواروں کو کیوں منایا جائے؟؟ نوجوان بچے بچیاں اِن کو اپنے لئے ضروری اور بزرگ اِن کو وقت کا ضیاع گردانتے ہیں ،مگر اس بحث سے قطع نظر میرا نظریہ تھوڑا مختلف ہے ، میں ان تہواروں کو بڑی شدو مد کے ساتھ منانے کی قائل نہیں لیکن اگر اس بات کا مثبت پہلو دیکھا جائے تو شاید کوئی حرج بھی نہیں ،آج کل معلومات کے ذرائع اتنے ہیں ، اور اِن تمام دِنوں کے آنے پرٹی ۔وی اور اخبارات میں اتنے گُن گائے جاتے ہیں کہ بچوں کو اِن سے دور رکھنا اور سمجھانا کبھی کبھی خاصا دشوار ہو جاتا ہے ، یہ حقیقت ہے کہ نوجوانوں کو جس بات سے روکا جائے وہ اُس کو کرنے کی ضد ٹھان لیتے ہیں اور وہ اپنے والدین کو دقیانوسی سمجھنے لگتے ہیں ، کیوں نہ ہم اپنے بچوں کو اِن تمام دنوں کو ذرا مختلف انداز سے منانا سکھائیں ؟

مثلاً مدرز ،فادرز ڈے کو ہی لیجیئے حالانکہ ماں باپ کی محبت کے لئے ایک دن مخصوص نہیں ہو نا چاہیئے تاہم اگر اُن کو اُس دن خاص طور پر یاد کیا جائے تو کیا بُرا ہے؟ قطع نظر اس کے کہ دن کون سا ہے؟ چلئیے اپنے بچوں کے پیار پر خوش ہو جائیے اُن کوبتائیے کہ اِس دن خصوصی طور پر اپنے ماں باپ کو ایک قرآن پڑھ کر بخش دیں ، جو کہ اُن کے لئے پھول ،کیک سے زیادہ محبت کا اظہار ہے ۔

اکثر لوگ اپنے بچوں کو کہتے ہیں کہ سالگرہ اس لئے مت مناؤ کہ زندگی کا ایک سال کم ہو گیا ہے ، تو جناب ایک سال گُزرنے پر ہی کیوں رونا؟؟؟ روز کیوں نہ رونا کہ زندگی کا ایک دن کم ہو گیا ؟اس دن شور شرابا ، ہلاً گُلاً اور کیک کاٹنے کے بجائے اِن ہی کے ہاتھوں کسی غریب ادارے یا مدرسے میں پیسے، کھانا یا استعمال کا راشن بجھوا دیجیئے ،یا کسی غریب کو دو وقت کا کھانا کھلا دیجیئے ۔

ویلنٹائن ڈے جی ہاں! اس عفریت نے تو تمام نوجوانوں کو اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے ، اپنے بچوں کو اس بات کا احساس دلانا ، کہ جس محبت کے وہ ڈنکے بجاتے ہیں اُس کی ہمارے مذہب اور معاشرے میں قطعی اجازت نہیں ، محبت ہم اپنے والدین، بہن بھائیوں دوستوں او ر اساتذہ سے بھی تو کرتے ہیں کیا یہ لوگ ہمارے ویلنٹائن نہیں ہو سکتے؟ اگر اس دن کو منانے کو اس قدر شوق ہی ہے تو اپنے ان پیاروں کو تحائف دیجیئے ان سے محبت کا اظہار کیجیئے۔

حالانکہ یہ سارے کام عام دنوں میں بھی کئے جاسکتے ہیں تاہم کُچھ اچھے کام ان ایام کے لئے بھی مخصوص کر لئے جائیں تو نہ صرف بچے خوش ہوجائیں بلکہ ایک مثبت کام بھی سر انجام ہو جائے۔ ہر چیز کے دو رُخ ہوتے ہیں یہ ہمارے اوپر ہے کہ ہم کون سا رُخ دیکھتے ہیں اور کس کا انتخاب کرتے ہیں ؟ اپنی سوچ مثبت رکھئیے اور یہ ہی سوچ بچوں میں منتقل کیجیئے،اپنی زندگی میں اعتدال رکھئیے اور اس کی نصیحت اپنے بچوں کو کیجیئے نہ کسی چیزکی خواہش میں اتنے آگے بڑھ جائیں کہ واپسی کا راستہ مشکل ہو جائے اور اپنی روایات پسِ پُشت ڈل جائیں نہ ہی اتنے دقیانوسی کہ آپ کے بچے آپ سے بات کہتے ہوئے بھی کترائیں اس طرح شاید پھر دونوں نسلوں کو ایک دوسرے سے کوئی شکایت نہ ہو۔
Rubina Ahsan
About the Author: Rubina Ahsan Read More Articles by Rubina Ahsan: 18 Articles with 24154 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.