نوجوانوں کو خدارا بچالیں

پچھلے دنوں 4 اور5 فروری کی درمیانی شب نوجوانوں کی ایک تنظیم شباب ملی کے زیر اہتمام لیاقت آباد میں یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے کرکٹ ٹورنامنٹ کرایا گیا جس میں علاقے کی بارہ ٹیموں نے حصہ لیا ہر ٹیم میں بارہ کھلاڑی تھے کچھ نوجوانوں کی ذمہ داری ایمپائر کے فرائض انجام دینا تھا ۔اس طرح ڈیڑھ سو نوجوان اس ٹورنامنٹ میں براہ راست شریک تھے پھر ان کے دوست احباب اور علاقے دیگر نوجوان بزرگ حضرات اس کو دیکھنے کے لیے آئے ہوئے تھے تقریباَ پانچ سو سے زائد افراد نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے لیے پوری رات موجود رہے شباب ملی کراچی کے صدر سیف الدین نے اس کا افتتاح کیا۔ جو ٹیم میچ جیتی ہے اسے بعد میں جماعت اسلامی کی طرف سے ایک تقریب منعقد کر کے انعام اور ایوارڈ دیے جائیں گے ۔
میں بھی وقفے وقفے سے یہ میچ دیکھنے گیا تھا جب میں ان پھول جیسے نوجوانوں کو کھیلتا ہوا دیکھ رہا تھا تو میرا دل یہ سوچ کر لرز رہا تھا ہمارے ملک میں بالعموم شہر کراچی میں بالخصوص نو جوانوں کے ساتھ جو ظلم ہوا ہے اور ہورہا ہے اس کے نتیجے میں اگر یہ مایوس ہو گئے تو ہمارا مستقبل تباہ ہو جائے گا ۔آج دنیا میں جتنے ترقی یافتہ مغربی ممالک ہیں ،ان میں امریکا ہو برطانیہ ہو یا فرانس حتیٰ کے ایشیائی ملک جاپان تک میں ساٹھ سال سے زائد عمر کے لوگوں کی تعداد یا یوں سمجھ لیں کے بوڑھوں کی تعداد نوجوانوں سے زیادہ ہے ان ممالک میں ساٹھ سے ستر فی صد بوڑھے ہیں اس لیے مغربی معاشرہ بوڑھوں کا معاشرہ کہلاتا ہے خاندانی منصوبہ بندی کے نتیجے میں نسل نو کو دنیا میں آنے سے روکنے کا یہ کڑوا پھل سامنے آرہا ہے کہ بوڑھوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے معیاری غذا،صاف ستھرا ماحول اور بہتر قسم کی طبی سہولیات کی وجہ سے اس معاشرے میں بیماری سے مرنے والوں کی تعداد بھی کم ہے ۔پاکستان دنیا ان ممالک میں شامل ہے جس میں نوجوانوں کی تعداد نسبتاَ زیادہ ہے ۔پاکستان میں اب بھی نوجوانوں کی شرح ساٹھ فی صد ہے۔اس طرح ہمارا معاشرہ نوجوانوں کا معاشرہ کہلاتا ہے اگر پچھلے پچیس برسوں میں ہمارے ملک میں نوجوانوں کا استحصال نہ ہوتا تو یہ شرح ستر فیصد تک پہنچ سکتی تھی ۔
ہمارے ملک میں نوجوانوں کی وزارتیں تو بنائی گئیں لیکن نوجوانوں کے مسائل کے حل کے لیے کوئی سنجیدہ منصوبہ بندی نہیں کی گئی ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے انتخابات کے مواقعوں پر نوجوانوں کو ایڈریس تو کیا اور انھیں سہانے خواب دکھائے لیکن جب وہ جماعتیں برسر اقتدار آئیں سوائے اپنے گروہی و جماعتی مفاد کے مطابق کام تو کیا لیکن ملک کے عام نوجوانوں کے لیے کچھ نہیں کیا اور مسئلہ جوں کا توں ویسا ہی موجود رہا ۔کراچی کی صورتحال تو اس سے بھی زیادہ تشویشناک ہے۔

قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے ہجرت کرنے والوں کی ایک بڑی اکثریت نے کراچی کو اپنا مسکن بنایا جو لوگ بھارت سے لٹ پٹ کر اور آگ اور خون کے دریا پار کرکے آئے انھوں نے ایک اہم کام تو یہ کیا کہ بڑے نامساعد حالات میں اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی جس کے نتیجے میں کراچی کے نوجوانوں کی معقول تعداد تمام سرکاری اداروں میں اعلیٰ مناصب پر نظر آنے لگی .کراچی کے لوگوں بلخصوص نوجوانوں کو ایک جھٹکا اس وقت لگا جب1958ملک کا دارالخلافہ کراچی سے منتقل کر کے اسلام آباد لے جایا گیا ۔ظاہر ہے اس سے کراچی کے نوجوانوں کے لیے سرکاری ملازمتوں کاحصول مشکل ہو گیا بلکہ بہت سے ان لوگوں کو جو کسی وجہ سے اسلام آباد نہیں جاسکتے تھے انھیں ملازمتیں چھوڑنا پڑیں ۔لیکن ایوب خان کے دور میں صنعتی ترقی کی رفتار بہت تیز تھی اور کراچی میں صنعتوں کے پھیلاؤ کی وجہ سے پراؤیٹ سیکٹر میں روزگار کے مواقع وسیع ہوتے گئے ۔اس کے ساتھ ساتھ سرکاری دفاتر میں بھی کچھ نہ کچھ کراچی کے نوجوانوں کو حصہ مل جاتا تھا 1970تک صورتحال قدرے بہتر تھی ۔1971میں سقوط مشرقی پاکستان کے بعد 1972میں بقیہ پاکستان جو اس وقت تک مغربی پاکستان تھا بھٹو صاحب کی حکومت آئی تو اس حکومت نے کراچی کے نوجوانوں کا بے دردی سے استحصال کیا ایک منصوبے کے تحت سندھ اسمبلی میں متنازعہ قراداد پاس کرکے زبان کے مسئلے پر سندھی مہاجر فساد کرایا گیا ملک کے بائیں بازو کے عناصر نے اس میں اہم رول ادا کیا اردو کاہے جنازہ جیسی نظمیں لکھی گئیں پی پی پی کے اردو بولنے والے ممبران صوبائی اسمبلی نے صوبے میں سندھی سرکاری زبان کی قرارداد پر اسمبلی میں اپنی پارٹی پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے اس قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا بہرحال لیاقت آباد میں شہید چوک قائم ہوا ۔

سندھی بولنے والوں کی طرف سے وزیر اعظم بھٹو اور اردو بولنے والوں کی طرف سے ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کے درمیان مذاکرات ہوئے ۔ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد تھے بھٹو صاحب علمی اعتبار سے ان کے سامنے بونے تھے لیکن دوسری طرف بھٹو صاحب جو سندھی بولنے والوں کی نمائندگی کررہے تھے ایک ماہر سیاستداں تھے سیاست میں ڈاکٹر صاحب ان کے سامنے بونے تھے ۔لہذا ان مذاکرات میں بھٹو صاحب نے ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کے وفد کو چاروں خانے چت کر دیا اس میں جو باتیں منظور ہوئیں اس نے صوبہ سندھ کو پی پی پی کی سیاست کا مستقل بیس کیمپ بنا دیا دوسری طرف صوبے کے اردو بولنے والوں کامستقبل تاریک ہو گیا ۔ان مذاکرات میں ایک اہم نکتہ یہ طے ہوا کہ چونکہ دیہاتوں میں تعلیم کے مواقع اس طرح کے نہیں ہیں جیسے کے شہروں میں ہوتے ہیں اس لیے صوبہ سندھ میں تعلیمی اداروں میں داخلے اور سرکاری ملازمتوں کے دیہی اور شہری کوٹہ مقرر کر دیا جائے کہ ساٹھ فیصد کوٹہ رورل ایریا یعنی دیہی علاقوں اور چالیس فیصد اربن ایریا یعنی شہری علاقوں کا کوٹہ ہو گا ۔دوسری اہم بات یہ طے ہوئی کہ اگر صوبے کا وزیر اعلیٰ سندھی ہوگا تو گورنر اردو بولنے والا اور اگر وزیراعلیٰ اردو بولنے والا ہوگا تو گورنر سندھی ہو گا ۔اسی طرح بیورو کریسی کے افسران کی تقسیم ہوئی کہ اگر کسی ضلع کا ڈپٹی کمشنر سندھی بولنے والا ہوگا تو وہاں پولیس کا سربراہ اردو بولنے والا ہوگا ،کسی اور ضلع میں یہ ترتیب الٹ بھی ہو سکتی ہے ۔

کوٹا سسٹم نے سندھ کے شہری علاقوں کے نوجوانوں کو مایوسیوں کی دلدل میں دھکیل دیا ۔حالانکہ پورے پاکستان میں دیہاتوں کی صورتحال ایک جیسی ہے کچھ انیس بیس کا فرق ہوسکتا ہے لیکن کوٹہ سسٹم صرف صوبہ سندھ میں نافذکیا گیا اگر یہ انصاف پر مبنی طریقہ کار تھا تو بقیہ تینوں صوبوں پر بھی اس کا اطلاق ہونا چاہیے تھا ۔بھٹو صاحب نے ایسا کیوں کیا وہ جانتے تھے کہ 1970کے انتخابات میں پی پی پی کو کراچی سے صرف دو نشستیں یعنی پندرہ فیصد نمائندگی ملی ہے جب کے تمام سیٹیں دینی جماعتوں کو ملی ہیں اور شہر کا پڑھا لکھا طبقہ ان جماعتوں کے ساتھ وابستہ ہے اگر یہی صورتحال رہی تو مستقبل میں صوبہ سندھ کی بیوروکریسی میں شہری لوگوں کی اکثریت ہو گی جوآگے چل کر پی پی پی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں ۔اس لیے پہلے ایک منصوبے کے تحت لسانی فسادات کروائے گئے اور پھر اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے مذاکرات کا جال بچھایا گیا ۔اس معاہدے کے بعد اس زمانے میں نوجوان روزگار کے حصول کے لیے روز اخبار میں ملازمتوں کے اشتہار پڑھتے تھے تو ہر اشتہار کے نیچے یہ لکھا ہوتا تھا کہ کراچی حیدرآباد اور سکھر کے نوجوان درخواستیں نہ دیں اس لیے یہ چالیس اور ساٹھ کا کوٹا تو صوبے کی ملازمتوں کے لیے تھا وفاقی اداروں میں کراچی کا کوٹہ اور بھی کم تھا جو صرف چار فی صد تھا ۔اس کے نتیجے میں کراچی کا ذہین نوجوان طبقہ شدید قسم کی فرسٹریشن کا شکار ہوا دور کیوں جائیں خود میرے ایک جاننے والے ساتھی کی مثال سامنے موجود ہے کہ دو مرتبہ اسٹیٹ بینک اور ایک بار پی آئی اے میں تحریری امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے باوجود محض کوتا سسٹم کی وجہ سے وہ ناکام ہو گیا ۔اس زمانے میرا دل اس صورتحال جتنا تڑپتا تھا اس کا اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کے ساتھ اس قسم کی نا انصافیاں ہو رہی تھیں ۔میں یہی سوچتا تھا کہ آج کے نوجوانوں کی یہ احساس محرومی مستقبل میں کیا رنگ لائے گی۔

کراچی کے نوجوانوں کو پہلا جھٹکا 1958میں دارالخلافے کی تبدیلی سے لگا جس کے اثرات ویسے تو 1970تک رہے لیکن اس دوران ملک کی صنعتی ترقی نے کسی حد تک اس محرومی کا ازالہ کیا پھر دوسرا زبردست جھٹکا 1972میں اس وقت لگا جب بھٹو صاحب نے کوٹا سسٹم فافذکیا جس کے اثرات اتنے ہمہ گیر اور خطرنا ک ہوئے کہ اس نے اس شہر کو خاک اور خون میں نہلا دیا ۔پھر 1986میں اس شہر کے نوجوانوں تیسرا بڑا جھٹکا لگا،وہ جھٹکا کیا تھا اس کی تفصیل پھر کبھی سہی ۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 60 Articles with 39670 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.