سرمایہ داری نظام

اﷲ پاک نے یہ ملک ہمیں لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں کے بعد اپنے خاص فضل سے دیا ہے ہمیں اس کی قدر کرنی چائیے،پاکستان دنیا کے اس خطے میں آباد ہے جس علاقے کے متعلق نبی پاک نے فرمایا تھا کہ مجھے مشرق سے ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں(صحیح بخاری)۔پاکستان کو اس حدیث کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہمیں تو پاکستانی ہونے پر ناز ہونا چائیے کہ یہ وہ سر زمین ہے جو اسلام کا قلعہ ہے اور یہی سے دین اسلام کے قافلوں نے دنیا میں اسلام کے لئے نکلنا ہے، پاکستان آج اسی لئے عالم کفر کے لئے کانٹا بنا ہوا ہے کہ پاکستان کے رہتے ہوئے دنیا سے مسلمانوں کے خاتمے کا خواب کبھی پورا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ کفار کے ان ناپاک عزائم کے درمیان ایک آہنی دیوار پاکستان کے نام کی کھڑی ہے اس لیے دشمن پاکستان طرح طرح کی چالیں چل رہے ہیں سرمایہ داری نظام نے اپنے ارتقائی دور سے ہی عوام کو لوٹنے کے لئے ادارے بنائے ہیں بالعموم مشکل حالات میں ہی مشکل تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اس کا اطلاق معیشت سنوارنے پر بھی ہوتا ہے برطانیہ نے یورپ میں فوجی کاروائیوں کا مالی بوجھ اٹھانے کے لئے 1694میں سنٹرل بینکنگ کا نظام متعارف کرایانپولین سے لڑائیوں کے جنگی اخراجات کے لئے برطانیہ نے جدید انکم ٹیکس متعارف کرایا۔دوسری جنگ عظیم کی کساد بازاری سے معاشی ترقی کے نئے نظام نے جنم لیابریٹن ووڈز کانفرنس کے تحت قرضے دینے کے لئے IFIs جیسے ادارے وجود میں آئے لیکن یہ مالیاتی ادارے جنگ کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے معاشی ترقی پر توجہ دینے کی بجائے گلوبلائز یشن کے لئے سرگرم رہے IFIsکے رول پر مسلسل تنقید رہی ہے مثال کے طور پر ارجنٹائن کے مالی بحران سے پتہ لگتا ہے کہ آئی ایف آئیز نے متوازی عالمی معاشی ترقی کی کوشش کی بجا ئے گلوبلائزیشن کو پروان چڑھایاآئی ایف آئیز کی مہارت اور دور اندیشی ابھی تک لوگوں کی محرومی ،غربت اور مایوسی کو کم کرنے میں کہیں نظر نہیں آتی دنیا کی 8ارب کی آبادی میں دو ارب لوگ مشکل سے یومیہ دو ڈالر پر گزارا کر تے ہیں وجہ یہ بھی ہے کہ ورلڈ بنک نے پاکستان کو اپنی موجودہ صنعتوں کو جن میں شوگر،کیمیکلز،ریفائنریز ،آٹو موٹوز ،فرٹیلائزر اور سٹیل شامل ہیں کو ختم کرنے کا مشورہ دیا ہے کہ یہ بین الاقوامی طور پر غیر متقابل ہیں اور معیشت پر بوجھ ہیں۔عالمی سرمایہ داری نظام نے آ ج دنیا کے غریب اور ترقی پذیر ممالک کو مختلف مالیاتی اداروں کے بندھنوں میں جکڑ رکھا ہے یہ مالیاتی ادارے جنگ عظیم دوم کے خاتمے، جرمنی اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک کی شکست، سوویت یونین کی تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے سرمایہ داری کے متبادل سوشلسٹ نظام کے خطرے کو بھانپتے ہوئے دنیا کو اپنے دائرہ اثر میں رکھنے کے لئے سامراجی ممالک نے بنائے تھے ان اداروں کو عام طور پرآئی ایف آئیز (International Financial Institutions-IFI) کہتے ہیں ان میں اہم ترین جنگ عظیم کے بعد برٹین ووڈز کانفرنس کے نتیجے میں بنائے گئے عالمی بنک،IMFاور GATT(جنرل ایگریمنٹ آن ٹریڈ اینڈ ٹیرف) کے مالیاتی ادارے شامل ہیں ان عالمی اداروں کے علاوہ 60کی دہائی میں علاقائی ترقی کے نام پر مختلف مالیاتی ادارے بنائے گئے جن میں انٹر امریکن ڈیولپمنٹ بنک (IDP) افریقن ڈیولپمنٹ بنک (AFDP)ایشین ڈیولپمنٹ بنک (ADP) وغیرہ شامل ہیں ان آئی ایف آئیز نے امیر ملکوں کو مزید امیر اور غریب ممالک کو مزید غربت کے اندھیروں میں دھکیلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ہر ترقی پذیر ملک لازمی طور پر ان میں سے کسی نہ کسی مالیاتی ادارے کا مقروض ہوتا ہے اور یہ ادارہ سود کی شکل میں اس کے بدن سے دولت کا آخری قطرہ بھی کھینچنے کے چکر میں ہوتا ہے۔اس عجیب منطق کے مطابق پاکستان کی اہم ترین صنعت یعنی ٹیکسٹائل بھی بین الاقوامی طور پر غیر متقابل ہے کیونکہ اس کو برآمدات کے لئے سبسڈی حاصل ہے جس میں روپے کی قدر میں کمی،ریسرچ اور ڈیولپمنٹ کے لئے امداد اور ڈیوٹی ڈرا بیکس وغیرہ شامل ہیں مندرجہ بالا صنعتوں کو بند کردیا جائے تو سرمایہ کاری ہوگی اور نہ پیداوار اور برآمدات میں اضافہ روزگار کے مواقع نا پید ہوں گے،غربت کم نہیں ہوگی،بین الاقوامی بنک جس کا مقصدغربت کو ختم نہیں تو کم کرنا ضرور ہے۔پاکستان کے لئے یہ منطق قابل فہم ہے اور نہ قابل ذکرعالمی مالیاتی فنڈ (IMF)بھی ڈیویلیوشن اور کم سے کم ٹیرف کے حق میں ہے اس سے افراط زر اور سود کی شرح میں اضافہ ہوا ہے نوے کی دہائی میں ایک عبوری پاکستانی حکومت جو آئی ایف آئیز کے زیر اثر تھی نے مقامی صنعت کو 45فی صد تحفظ دیاہوا تھا 2001میں اسے کم کرکے 35فی صد کردیا گیا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے تحت یہ مزید کم ہو کر 15فیصدہوگیادرحقیقت دنیا میں صنعت نے کہیں بھی مناسب تحفظ کے بغیر ترقی نہیں کی ترقی یافتہ ممالک میں تحفظ کا یہ سلسلہ نہ صرف اب بھی ہر صورت جاری ہے بلکہ چند ترقی پذیر ممالک کو آئی ایف آئیز کے احکامات نہ ماننے کے باوجوداس صف میں شامل کردیا گیا۔اس زمرے میں انڈیا اور ملائیشیا پیش پیش ہیں۔امریکہ کے شہر سیاٹل کے اجلاس کے موقع پر جب ہزاروں لوگوں نے اس کی پالیسیوں کے خلاف ہنگامے کئے تو اس کے بعدWTOنے دوحہ (قطر) اور دیگر دور دراز مقامات کو اپنے جلسے منعقد کرنے کے لئے منتخب کیا تاکہ آزادانہ تجارت کے خلاف مظاہروں سے بچ سکیں لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ آزادانہ تجارت ہے کیا اور ہے کہاں؟امریکہ میں ،یورپ میں ،بھارت میں یا کہیں اور ؟اگر واقعی آزادانہ تجارت کہیں ہوتی تو پھر یورپی یونین یا ایسی علاقائی مارکیٹس کا وجود نہ ہوتا’’درحقیقت یہ وقت اگر قومیت کا نہیں توعلاقائیت اور علاقائی تحفظ کا ضرور ہے‘‘ اپنے قومی مفاد کے لئے امریکہ اور ایسے دیگر ممالک نے پاکستانی برآمدات پر محصولات میں کمی کرنے کی اجازت نہیں دی درحقیقت آئی ایف آئیزتمام کمزور معیشتوں کے لئے ایک ہی نسخہ تجویز کرتے ہیں جب کہ اس سے کسی کو بھی فائدہ نہیں ہوتا حتیٰ کہ جارج شلز ،ولیم سائن،اور والٹن ریسٹن جیسے ماہرین نے بھی ترقی یافتہ ممالک سے آئی ایم ایف کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہےWTOپر الزام یہ بھی ہے کہ یہ ادارہ دنیا کے امیر ترین اشخاص اور کارپو ریشنز کی نمائندگی کرتا ہے جو دنیا کی آبادی کا صرف 0.01 فیصد ہے یہ تقریباً ایک ہزار بڑی کارپوریشنیں ہیں جن کی پیداوار دنیا کی پیداوار کا 80 فی صد ہے90کی دہائی میں دنیا کے امیر ترین ممالک کی پیداوار میں 70فی صد سے 85فیصد تک اضافہ جب کہ 20ترقی پذیر ممالک میں دو فیصد کمی دیکھی گئیIFIs کی پالیسیوں کا جھکاؤترقی یافتہ ممالک کے حق میں رہااور اس سے مقامی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوئی۔بریٹن ووڈ سسٹم جدید معیشت کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے بلکہ اس کی خامیاں پوری طرح عیاں ہیں یہ نظام محض کھوکھلا دعویٰ ہے دنیا کی تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشتوں نے اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا ہے ترقی یافتہ ممالک میں پائی جانے والی بے چینی کی وجہ سے 2003میں کین کم میں ہونے والا اجلاس ناکام ہو گیا انڈیا اور برازیل نے غیر مناسب شرائط ماننے سے انکار کیا پھر بھی ان کو گفت و شنید میں شامل کیا گیا مالی بحران کے بعد ایک نئے بریٹن ووڈ سسٹم کے بلند بانگ دعووں سے نظام کو کوئی فائدہ نہیں ہواریگولیٹرز کی صف میں اب ابھرتی ہوئی معیشتیں شامل ہو رہی ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیسے قوانین بنائے جاتے ہیں گو کہ امیر ترین ممالک پر مشتمل G7 کی جگہ G20نے لے لی ہے جس میں ابھرتی ہوئی مارکیٹس شامل ہیں مگر ابھی اس کی کوئی پہچان نہیں بنی واشنگٹن میں نومبر 2008 کے G20کے اجلاس میں گلوبل گورننس پر تیز و تند بحث ہوئی مگر G20پر اعتماد اسی وقت فوراًختم ہوگیا جب اس نے تحفظ کا ساتھ نہ دینے کا اپنا وعدہ 36گھنٹے میں توڑ دیا مزید یہ کہ دوحہ کے اجلاس کو مکمل کرنے کا ایک اور وعدہ بھی پورا نہ ہوسکا۔پس ظاہر ہے کہ سیاسی مسائل کو ٹیکنوکریسی طریقے سے حل نہیں کیا جا سکتا محض کسی رد و بدل یا ابھرتی ہوئی معیشتوں کو شامل کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا جب تک امیر ممالک صحیح فیصلے کرنے کے لئے تیار نہ ہوں کسی بحران نے کہیں بھی نئے ورلڈ آرڈر کو جنم نہیں دیاتو پھر نیا ورلڈ آرڈر کہا ں سے آئے گایہ لمحہ فکر نہیں تو کیا ہے ترقی پذیر ممالک اور با لخصوص پاکستان کو بیرونی دباؤ کی بجائے اپنے قومی مفاد میں پالیسی تشکیل دینا ہوگی اس وقت کے عالمی بنک کے صدر مسٹر وولفنسن بھی اسی نظریے کے حامی ہیں۔ اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ’’لوگوں کی مایوسی ،محرومی اور نا امیدی کو دیکھتے ہوئے ہمیں مقامی شراکت اور مقامی ملکیت کی ضرورت پر ہی زور دینا چاہئے وہ دن گئے جب ترقی کے منصوبے واشنگٹن یا کسی اور مغربی دارالحکومت یا کہیں اور بند دروازوں کے پیچھے بنائے جاتے تھے‘‘۔پس باہمی ترقی کے لئے شراکت کی ضرورت ہے گلوبلائزیشن پر گلوبلائزیشن کے ذریعے عمل کیا جائے یعنی اس میں مقامی شراکت اہم جزو ہو ،یہی عالمی مفاد میں ہوگا۔پاکستان اﷲ کی طرف سے ہم پر ایک نعمت ہے، ہمیں اﷲ کی اس نعمت کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہوئے اس کی قدر کرنی چائیے، اس کی تعمیر و ترقی میں اپنی استطاعت کے مطابق حصہ ڈالنا چائیے،پاکستان رہے گا تو ہمارا وجود محفوظ ہوگا،ہمارا کام پاکستان کا نام روشن کرنا ہونا چائیے ناکہ اس کے نام کو دنیا بھر میں بدنام کرنا جیسا کہ آج کل کے صحافی حضرات اور حکومتی اہلکار اپنے ذاتی مفاد کو خاطر میں لاتے ہوئے پاکستان کا منفی چہرہ دنیا کے آگے رکھ رہے ہیں ،ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟کیا اﷲ نے پاکستان کو ایسی لئے بنایا ہے کہ یہاں موجود لوگ ایک دوسرے سے لڑ لڑ کر مر جائیں ؟ہرگز نہیں پاکستان پر اﷲنے اپنی رحمت کا سایہ کیا ہوا ہے ،اور انشائﷲ ا یہ رہتی دنیا تک کے لئے دنیا کے نقشے پر موجود ہے بس ضرورت اس امر کی ہے کہ موقع کی نذاکت کو سمجھتے ہوئے ہمیں مل کر اس ملک کی تعمیر کرنی ہے تاکہ اس ملک کو دنیا کا عظیم ترین ملک بنایا جا سکے۔
Sajjad Ali Shakir
About the Author: Sajjad Ali Shakir Read More Articles by Sajjad Ali Shakir: 132 Articles with 130537 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.