ناز مظفر آبادی اور ان کی شاعری

’’دنیا ہے،اس کا طور ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘

محمد شفیع عبداﷲ ناز مظفرآبادی سے میری یاد اﷲ پرانی نہیں۔ان کی شاعری کے تذکرے سنے لیکن پڑھ نہ سکا۔احمد حسین مجاہد کی کتاب کی تقریب پزیرائی میں ناز سے پہلی ملاقات ہوئی۔وہیں ان سے ان کا فون نمبر لیا اور پھر دوسرے دن ان کے گھر پر ملاقات کے لیے گیا۔بہت خلوص سے ملے اور یہ خلوص صرف شاعرانہ نہ تھا کہ شاعروں کے خلوص کے ہم قائل نہیں کہ اس میں ریاکاری زیادہ ہوتی ہے۔وہیں معلوم ہوا کہ ناز جھینگ کے رہنے والے ہیں اور اب عشروں سے مظفرآباد شوکت لائنز میں مقیم ہیں۔کبھی مسلح افواج میں رہے اور وہیں گریجویشن بھی کی۔مسلح افواج کے ادبی رسالے ’ہلال‘ سے وابستہ بھی رہے اور ان کی شاعری ’ہلال‘ میں شایع بھی ہوتی رہی۔ناز ان کے نام کا حصہ ہے جسے انھوں نے تخلص کے طور پر بھی استعمال کیا ہے۔ یہ ملاقات ایک گھنٹہ رہی اور ناز نے اپنے تین شعری مجموعے بھی کمال محبت سے پیش کیے۔وہ ایک عشرے سے سعودی عرب میں مقیم ہیں اور وہاں سے ایک ادبی رسالہ ’شعر وسخن‘ بھی نکالتے ہیں۔

ناز زندگی کی چھ دہائیاں گزار چکے ہیں۔ایک شاعر کو اچھے حال میں دیکھ کر گونہ مسرت بھی ہوئی۔ان کا پہلا شعری مجموعہ ستمبر ۲۰۰۱ء میں منظر عام پر آیا۔میں نے اسی کا مطالعہ پہلے شروع کیا اور اس کے موضوعات کو سامنے رکھ کر ناز کی شاعری پر قلم اٹھایا ہے۔ناز ایک کہنہ مشق شاعر ہیں اور بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ان کا یہ پہلا شعری مجموعہ اپنے اندر زندگی کے تمام رنگ اور رعنائیاں، شعور اور خواب رکھتا ہے۔اس شعری مجموعے کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ناز نے اپنے ہونے کا احساس دلایا ہے اور یہ انسان کے ہونے کا احساس ہے۔انسان شروع سے اپنی تلاش میں سرگرداں ہے۔وہی اس کائنات کی حقیقت ہے اور وہی نامکمل طلسمی داستان۔تاہم وہ اب تک اپنے مقام سے آگاہ نہیں۔مذہب،شاعری،فلسفہ اور سائنس اپنے اپنے انداز میں اس کے سوالوں کے جواب دیتے چلے آئے ہیں تاہم اس کو مطمئن نہیں کرپا رہے۔اس کی روح کو چین میسر نہیں۔اور یہ سچ ہے کہ
کہیں تولا گیا ہوں موتیوں میں
کہیں دوکوڑیوں میں بھی گراں ہوں
کہیں ہوں امن عالم کی ضمانت
کہیں خود اپنے گھر میں بے اماں ہوں

ناز کو اپنے نالوں میں تاثیر کے نہ ہونے کا رونا ہے تو اس عذاب میں روپا کے چاندی ہونے کا غم بھی ہے کہ چاند ان کے گھر کے آنگن میں نہیں اترا۔زندگی نے وہ مایوسیاں دی ہیں کہ اب اجالوں سے ڈر لگتا ہے۔ناز نے پراثر استعاروں اور صنعت تضاد کے استعمال سے ان حالات کی خوب صورت منظر کشی کی ہے جیسے
چاند اترا نہ گھر کے آنگن میں
چاندی اتری کسی کے بالوں میں
اتنے مانوس ہیں اندھیرے سے
ڈرنے لگتے ہیں اب اجالوں سے

ناز کا کہنا ہے کہ شاعری کی جان بہرحال غزل ہے لیکن اس کی جان بھی محبت ہی ہے تاہم وہ شاعری اثر نہیں رکھتی جو صرف محبت کے گرد گھومتی ہے۔محبت کے کئی چہرے او ررنگ ہیں اور ہر رنگ جدا جدا ہے۔انھوں نے بھی محبت کی واردات کو کمال خوبی سے بیان کیا ہے ۔الفاظ سادہ اور پراثر ہیں اور انداز جدا
ہم وہ سادہ ہیں زخم کھا کر بھی
آگئے پھر تمھاری چالوں میں

اور یہ کتنی بڑی سچائی ہے کہ ہم محبوب کے سات خون بھی معاف کر دیتے ہیں۔ایک شخص کے تصور میں زندگی گزار دینا اور اسے مطعون تک نہ ٹھہرانا اس کو عقل کی دنیا کا کردار تو نہیں کہا جاسکتا۔محبوب کی ایک ادا،ایک حرف تسکین،ایک حرف وصال ہم کو ان دیکھے خوابوں میں دھکیل دیتا ہے۔ناز کے ہاں تعلی بھی ہے جب وہ یہ کہتے ہیں کہ’میری غزلوں کے ناز چرچے ہیں‘ اور تشبیہہ کا انداز بھی کلاسیکی ہے جو میر و غالب و داغ کا زمانہ یاد دلائے۔وہ ویسے بھی غالب و داغ سے زیادہ متاثر ہیں۔تاہم ان کی کلاسیکیت میر کے زیادہ قریب ہے جب وہ یہ کہتے ہیں کہ
کس نے رکھا دل کی دھرتی پر قدم
یہ زمیں اب آسماں ہونے کو ہے

محبت کا ایک رنگ یہ بھی ہے کہ جب کسی سے ہو جائے تو اس کی تمام خامیاں خوبیاں لگتی ہیں اور یہ محبت کا متعصبانہ چہرہ ہے۔اور جب کسی سے نفرت ہوجائے تو اس کی ساری خوبیاں خامیاں لگتی ہیں۔ہم پاکستانی اور ہندوستانی اس جذبے کے معاملے میں انتہاؤں پر ہی رہتے ہیں۔یہ بہر حال ایک انسانی کمزوری ہے اور بیمار رویہ ہے تاہم یہ سب دوریوں کی وجہ سے ہی پیدا ہوتا ہے اور اس پر کمال خوبصورتی سے ناز نے قلم اٹھایا ہے جیسے ان کا یہ شعر
تب ہمیں ایک دوسرے کے عیب دکھلائی دیے
جب دلوں کے درمیاں کچھ فاصلہ ہونے لگا

قربتیں نفرتوں کو کم اور دوریاں اس خلیج کو مزید گہرا اور وسیع کرتی ہیں۔انداز بیاں مختلف ہے ورنہ یہ تین اشعار تین صدیوں کے ہیں لیکن روایت ایک ہے۔پہلا شعر میر دوسرا غالب اور تیسرا ناز کا ہے۔تینوں کا پڑھیں اور موازنہ کریں۔
دشمنی ہم سے کی زمانے نے
کہ جفاکار تجھ سا یار کیا
وفا کیسی ،کہاں کا عشق،جب سرپھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو
دوستی میں دشمنی کے ہم کبھی قائل نہ تھے
دوستی تم سے ہوئی تو تجربہ ہونے لگا

اس دنیا میں انسانوں پر انسانوں کی خدائی کے المیے ان گنت شعراء نے لکھے ہیں۔ناز اگر ردیف ’ہے اور میں ہوں‘ والی غزل کے علاوہ کچھ نہ بھی لکھتے تو بھی امر تھے۔انھوں نے ہماری زندگی اور اس میں رنگینیوں کے تمام رنگ اس غزل میں سمو دیے ہیں۔یہ کہ محبت مسلسل رتجگا ہے۔محبوب کا تغافل،کج ادائی اور بے نیازی یہ سب مل کر اس زندگی اور محبت کو رتجگا ہی تو بناتے ہیں۔اس زندگی کا ہر خواب،ہرتمنا،ہر خواہش کچاگھڑا ہی تو ہے اور اس کی سلامتی کی دعا رب سے ہی مانگی جاسکتی ہے کہ وہ اس کو سلامت رکھے کیوں کہ ہماری زندگی کے سارے خوابوں کی سوہنی اس کے ذریعے سے ہی تعبیر کا دریا عبور کرسکتی ہے۔

اس ملک اور اس کے طول و عرض میں جاری دہشت گردی ،ظلم،ناانصافی،میرٹ کی پامالی،ناریوں کے ناآسودہ خواب،جوانوں کی مایوسیاں اور عدم تحفظ ،یہ سب جینے کی سزا ہی تو ہیں۔یہاں دلیل کی زبان کوئی نہیں سنتا۔ظلم کی ریت ہے۔انسانیت سسکتی ہے اور کوئی پرسا دینے والا بھی نہیں۔یہ اس ملک کو سزا ہے کہ اب برین ڈرین ہورہا ہے۔اس مملکت خداداد کا باصلاحیت جوان دیار غیر میں اپنی صلاحیتوں کو چند ریالوں،ڈالروں کے عوض بیچ رہا ہے کہ سکون تو میسر ہے۔اس بدنصیب ملک کی قسمت میں یہی کچھ تو ہے اور اس تمام کا المیہ اس غزل کا حصہ ہے۔تین اشعار نقل کررہا ہوں۔باقی ناز کی کتاب’بہار آنے تک‘ سے آپ خود پڑھ لیں
تشدد ، ظلم ، دہشت ، بربریت
یہ جینے کی سزا ہے اور میں ہوں
وطن سے دور یہ صحرا نوردی
کسی کی بددعا ہے اور میں ہوں
سناؤں نازؔ کیا اپنی کہانی
یہ دور ابتلا ہے اور میں ہوں

اس دورابتلا میں ناز بھی روزگار اور امن کی تلاش میں دیار غیر جا پہنچے اور یہ کسی کی بددعا نہیں،حالات کا نوحہ ہے۔ناز نے روایتی تلمیحات کا استعمال بھی کیا ہے اور جدید کا بھی۔ان کے ہاں کلاسیکی شعراء کی طرح اگر محبت مستقل آزارہے تو پیہم جدوجہد بھی ہے۔دارورسن کی بات انھوں نے بھی کی ہے۔تاہم ان کی غزل میں علامتی رنگ تلاش کرنے مشکل نہیں۔اس شعر کی ساری علامات سیاسی ہیں اور ان کو موجودہ سیاسی منظرنامے کے تناظر میں دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے۔
ہوا کی زد پہ ہیں ہم خشک پتے باغبانو
ہماری جستجو بیکار ہے یہ سوچ لینا

یہ دنیا مصر کا بازار ہے یا نہیں ہمارا ملک ضرور ہے جہاں یوسف بکتے ہیں اور بک رہے ہیں۔ہم نے اس ملک کو ایک انسانی منڈی ہی تو بنایا ہے۔تاہم یہاں یوسف چپ چاپ نہیں بک رہے بلکہ اس سماج کو ایک کوڑھ میں بھی مبتلا کرکے بک رہے ہیں اور جانے یہ متعدی بیماری کس کس کو لگے گی۔
یہاں چپ چاپ بک جاتے ہیں یوسف ؑ جیسے کتنے
یہ دنیا مصر کا بازار ہے یہ سوچ لینا

ناز کے ہاں وصل محبوب حسیاتی ہے۔محبوب کو محسوس کرنے کے علاوہ سوچا بھی جاسکتا ہے۔داغ کی طرح ان کا انداز تغزل صحت مند اور پروقار ہے۔وہ غالب ؔ کی طرح پابوسی کے قائل تو نہیں تاہم محبوب کو خدا سے مانگتے ضرور نظر آتے ہیں تاہم جانے کیوں وہ اپنی دعاؤں میں اثر محسوس نہیں کرتے۔ وہ اپنی غزلوں میں حمدیہ اشعار کے تجربات ضرور کرتے نظر آتے ہیں
دعا کا حشر جو ہونا ہے ہوگا
خدا سے بات کرنی تھی سو کر لی

اسی طرح ردیف ’تھا‘ کا ایک شعر ’اس نے تو خیر حد سے بڑھ کر دیا ہمیشہ‘ حمدیہ شعر ہے۔اس غزل کا مطلع ۸ اکتوبر ۲۰۰۵ء کے ہائلہ زلزلے کی یاد تازہ کرگیا۔
دریا کے اس طرف جو اجڑا ہوا نگر تھا
اے ہمصفیر اس میں اپنا بھی ایک گھر تھا

اسی طرح ردیف’آئے‘ کے پہلے تین اشعار حمدیہ ہیں اور حمد کا یہ انداز بہت منفرد بھی ہے۔اسی طرح اسی غزل کا چوتھا شعر علامتی انداز کا بھی ہے۔یاد،پھول،گلشن،چمن،بہار کو ہمارے ملک کے مخصوص سیاسی پس منظر میں دیکھا اور پرکھا جا سکتا ہے۔وہ جنھوں نے اپنے شب وروز اس مادر وطن کے نام کردیے۔ان کی صرف یادیں ہی تو رہ جاتی ہیں۔یہ شعر ہمارے ملک کے سیاسی، سماجی، عسکری، معاشی،معاشرتی،علمی،ادبی،تحقیقی اور نفسیاتی تاریخ کو فلش بیک کی صورت سامنے لاتا ہے۔ایک ایک واقعہ ہمارے دماغ پر نقش کرتااور دل کو چھلنی کرتا گزرتا چلا جاتا ہے۔
دلائے گا ہماری یاد اک اک پھول چمن کا
نہ جانے ہم کہاں ہونگے چمن میں جب بہار آئے

اس کو امید کا استعارہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ ناز کے ہاں امید کے ساتھ ناامیدی بھی ساتھ ساتھ چلتی ہے کہ زندگی امید اور ناامیدی کے درمیان ہی تو ہے۔
ہر شاخ اشکبار ہے ہر برگ خوں میں تر
یہ کیسے گل کھلے ہیں یہ کیسی بہار ہے

نازؔ نے غزل میں طویل بحر کا بھی خوب استعمال کیا ہے جیسے ’کریں‘۔’ہوگئی‘۔’رہے‘ اور ’تھا‘ کی ردیف کی غزل۔ان غزلوں میں کہیں کہیں انھوں نے ہندی الفاظ کو بھی خوبی سے برتا ہے۔واعظ اور ناصح کی علامات روایتی ہیں تاہم انداز منفرد اور خوب ہے جیسے یہ شعر
غم ملے ، دکھ ملے ، رنج و صدمے ملے ، خیر ملنے کی جو چیز تھی مل چکی
بس کرو اتنی دولت سنبھلتی نہیں ، اب عنایات کی انتہا ہو گئی

ہمارے اس ملک میں جانے بہاروں کو کس کی نظر لگ گئی کہ آتی ہی نہیں اور خزاں ہے کہ ڈیرے ڈالے بیٹھی ہے کہ جاتی ہی نہیں۔کوئی سال ایسا نہیں گزرتا جو اندوہ غم کی بھاری پوٹلی ہمارے دوش پر لاد کر نہ گزرے۔ناز کا یہ شعر بھی علامتی انداز کا ہے اور اسے اس بدنصیب ملک کے حالات کو پس منظر میں رکھ کر پرکھا جاسکتا ہے

سنتے ہیں فصل گل بھی آنے کو ہے چمن میں
جز صبر فائدہ کیا صیاد ہے کمینہ

اب یہ صیاد ہمارے حکمرانوں سے لے کر بین الاقوامی دہشت گرد امریکہ تک سب ہوسکتے ہیں۔پوری دنیا میں شرافت، امن ،اخوت،انسانیت اور احترام آدمیت کے افلاطونی نعرے نازؔ نے بھی لکھے ہیں اور یہ اچھا بھی ہے کہ خواب ہی دیکھ لیے جائیں تب ہی ان کی تعبیر کے لیے تگ و دو کی جاسکتی ہے۔خوابوں پر پابندی تو نہیں ہے نا
الٰہی ہر بشر دنیا میں باکردار ہوجائے
شرافت آج کے انسان کا معیار ہوجائے

غزل کا شاعر محبت کے تذکروں کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا تاہم نازؔ نے میرے ساتھ گفتگو میں اس امر کا اظہار کیا کہ شاعری میں کچھ شاعر محبت کے کینوس کو محدود کر رہے ہیں۔یہ جذبہ تو صرف ارضی نہیں فلکی بھی ہے اسے صرف ارضی بناکر جسم کے ساتھ نتھی کردیا گیا ہے۔ورنہ تمام خواب، آدرش، ناآسودہ اور آسودہ تمنائیں اس کے اندر سمٹ جاتی ہیں۔کائنات کی سب سے بڑی سچائی محبت ہے اور اس کے بغیر یہ دنیا بے آب وگیاہ ہے۔دنیا کی ساری رنگینیاں اس ایک لفظ میں سمٹ آتی ہیں لیکن اس کے عکس جدا جدا ہیں
تو ہی انصاف سے کہہ دے یہاں اس کے سوا کیا ہے
محبت سے اگر خالی ترا سنسار ہوجائے
مریض محبت شفا پا چکا
طبیبوں کو اب تو ہٹا دیجیے
محبت ہی ہے درددل کی دعا
یہ نسخہ کبھی آزما لیجیے
مجھے آپ چاہیں ضروری نہیں
کسی سے مگر دل لگا لیجیے

یہ آخری بات شاید ہم کو گوارانہیں۔ناز کی غزلوں کے اکثر اشعار حمدیہ بھی ہیں اور شاید ناز کو بھی اس کا احساس نہ ہو کہ ان کے شعری مجموعوں سے حمدیہ شاعری کا ایک اور مجموعہ جنم لے سکتا ہے
ہمیں نہیں ہے عطا کی حاجت
ہے صرف تیری رضا کی حاجت
مزا تو جب ہے کہ تیرے در پر
نہ ہو گدا کو صدا کی حاجت

نازؔ کی غزل اپنے دور کے مسائل اور عذابوں سے بھی مملو ہے۔ایک اچھے شاعر کی پہچان ہی یہی ہے کہ وہ اپنے سماج کے مسائل اور اپنے ارد گرد کے حالات سے بھی باخبر ہو اور اس کی شاعری میں ان کے باقاعدہ تذکرے ہوں۔اسی غزل کے آخری شعر میں آج کے مسلمان معاشرے کے ایک بڑے مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے جو بے پردگی کا ہے اور ہمارا سارا سماج اندھا دھند اس کی پیروی کا شکار ہے
یہ کیا ہوا دختران دیں کو
نہیں ہے ان کو ردا کی حاجت

اس طرح بے بسی،بے کسی ،بے چارگی کا اظہار بھی موجود ہے۔ہم اس بھری دنیا میں کمزور ہیں۔مظلوم کی کوئی نہیں سنتا۔دنیا حق اور سچ کا ساتھ نہیں دیتی۔کسی برتر خدا کا صرف تصور باقی رہ چکا ہے ورنہ انسان تو خود خدا بن چکا ہے۔یہاں ظالم کی حمایت کو تو ہاتھ اٹھتے ہیں مظلوم کی حمایت کو نہیں۔
یہاں کون سنتا ہے ہم بے کسوں کی
یہاں پر تو بندے خدا ہوگئے ہیں

حق و باطل کی کشمکش اور اس کشمکش میں حق کی پہچان نازؔ کی شاعری کا امتیازی وصف ہے۔وہ اپنے ہونے کا شعور رکھتے ہیں اور اس پیغام کا بھی جو محمدؐ عربی لے کر آئے۔انھیں یہ ادراک بھی ہے کہ سچائی زندہ رہے گی کیوں کہ وہ قرآن کی صورت میں ہے اور اس کی حفاظت کا ذمہ خود اﷲ نے لیا ہے۔اور یہ سب اکیسویں صدی کے شاعر کے لیے متاع حیات بھی ہے
ابھی سے کیوں ڈریں اہل صداقت اہل باطل سے
ابھی سچائی زندہ ہے ابھی قرآن باقی ہے

مسلم دنیا بشمول پاکستان اور ہماری اس ریاست کے قیادت کے بحران کا شکار ہے یہاں کوئی ادارہ مضبوط نہیں اور نہ ہی اداروں کو مضبوط ہونے دیا جاتا ہے۔اسی لیے ہم اب یا تو اکابرپرست ہیں یا ہیروپرست۔جن کو کاروبار کرنا چاہیے وہ قوم کی قیادت کررہے ہیں اور جن کو قیادت کرنی چاہیے وہ ملازم پیشہ ہونے پر مجبور ہیں۔ہم خاندان، برادری،علاقے،قوم اور مسلک میں تبدیل ہوچکے ہیں۔اپنے اپنے سانچوں میں کسے ہوئے ہیں اور اپنے ہی مسلک یا گروہ کی بات سنتے اور مانتے ہیں۔سچائی کا معیار یہ ہے کہ میرے مسلک کے فرد نے کہی ہے یا میرے گروہ یا میری برادری کے سربراہ نے۔ہم اتنے تقسیم ہوچکے ہیں کہ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ بناؤ کی ابتدا کہاں سے کی جائے۔کوئی بھی اینٹ تو اپنی جگہ نہیں اور اختیار ہمارے پاس نہیں۔شاعر تو ویسے بھی سماج کا حساس فرد ہوتا ہے وہ یہ کہنے کا حق رکھتا ہے کہ
منزلوں پہ کیا پہنچیں قافلے وفاؤں کے
میر کاررواں سارے چور ہیں لٹیرے ہیں

اس میں شک نہیں کہ ناز سمندروں کے پار جابسے لیکن چنار دیس سے ان کا عشق برابر جاری ہے۔ویسے چنار میں یہ خوبی بھی ہے کہ وہ سلگتا ہے اور سلگاتا ہے۔بلکہ دھکتا ہے اور دھکاتا ہے۔ان کی شاعری میں مظلوم کشمیریوں اور کشمیر کے تذکرے ملتے ہیں اور انھوں نے غم جاناں کو فیض احمد فیض کی طرح لیلائے وطن کے ساتھ مدغم کردیا ہے۔انھیں اس بات کا شعور ہے کہ کشمیری کبھی ذی وقار تھے اور اب بے توقیر ہیں کیونکہ تقسیم ہیں۔چناروں میں آگ لگانے والے بھی اپنے ہیں اور جلنے والے بھی
اپنا تھا اک دیار ابھی کل کی بات ہے
جلتے نہ تھے چنار ابھی کل کی بات ہے
جنت نشاں تھا خطہ وہ روئے زمیں پر
پھولوں پہ تھا نکھار ابھی کل کی بات ہے

ناز کے ہاں وصل کے لمحات حسرت موہانی اور داغ دہلوی کی طرح انتہاؤں کی خبریں دیتے ہیں۔ویسے بھی مرد کوہستانی ہر جذبے کی انتہا چاہتا ہے۔ان کا یہ انداز خوب ہے کہ
شب وصل شرما کے وہ یہ کہہ رہے ہیں
ذرا آج شمعیں بجھا کر تو دیکھو

دوسرا مصرع ذومعنی ہے اور اس کی تشریح کی ضرورت بھی نہیں صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ناز کی بعض غزلوں میں مایوسیوں کے استعارے زیادہ ہیں اور اسی لیے خزاؤں کے تذکرے زیادہ ملتے ہیں۔ہجر کا بیان ہے تو قفس بھی درمیاں ہے۔عدو ہے تو گماں زیادہ ہیں۔بہاروں کی دعا ہے تو دور خزاں کے عطا ہونے کی قبولیت بھی۔آتش کا یہ رنگ اور ناز کا یہ رنگ ایک سے ہیں۔یہ دو اشعار موازنے کے لیے کافی ہیں،پہلا آتش اور دوسرا ناز کا ہے۔
نہ پوچھ عالم برگشتہ طالعی آتش
برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے
بہاروں کی دعا مانگی تھی ہم نے
عطا دور خزاں ہونے لگا ہے

غالب کی طرح ناز کے ہاں بھی زندگی کے لیے کچھ سبق ملتے ہیں۔اونچی اڑان کی بات کی ہے تو حق گوئی اور بے باکی کا درس بھی دیا ہے۔سکون کے لیے خاموشی کی شرط لگائی ہے۔بدگمانی سے دور رہنے پرزور دیا ہے تو محبتوں کو جواں رکھنے کا عزم بھی دھرایا ہے۔تاہم ’ہے اور ہم ہیں دوستو‘ کی ردیف والی گیت نما غزل کا انداز منفرد لگا اگرچہ ’اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں ددستو‘ کی یاد بھی تازہ کرگیا
اب حق کی بات بھی کوئی سنتا نہیں یہاں
اشک رواں پہ زور ہے اور ہم ہیں دوستو
آب رواں پہ ناؤ ہے ، جس سمت لے چلے
دنیا ہے،اس کا طور ہے اور ہم ہیں دوستو

تاہم ’کی حد تک‘ والی ردیف کی غزل میں ’ویرانگی‘،’حیرانگی‘اجنبی الفاظ لگے کہ اردو میں ویرانی اور حیرانی مستعمل ہیں۔اسی طرح
تمام عمر جو احباب گل کھلاتے رہے
لحد پہ گل نہ چڑھاتے تو اور کیا کرتے

میں دوسرا مصرع کھٹکتا ہے۔پھول چڑھانا محاورہ ہے گل چڑھانا نہیں۔اس دور کا ایک بڑا عذاب یہ ہے کہ ہم کوئی بھی بات سیدھی اور سچی نہیں کہتے۔توصیف اور بے جا توصیف ہماری فطرت ثانیہ بن چکی ہے۔یہ عذات مولوی سے سیاست دان،ملازم سے افسر،تاجر سے صنعت کار تک سب کو لاحق ہے اور اسے ناز نے کمال مہارت اور خوبصورتی سے بیان کیا ہے
امیر شہر جب مجلس میں آیا
تو فوراً شیخ نے تقریر بدلی

شاعر کو صرف بحر وقافیہ اور وزن کے سانچوں میں کسنے کے ناز خلاف ہیں۔علم عروض کا علم آنا چاہیے لیکن عروضی میں نے کم ہی اچھے شاعر دیکھے۔فکر الگ چیز ہے اور فن الگ۔جوش کے پاس فن تھا لیکن فکر نہیں ،اقبال کے پاس فکر اور فن دونوں تھے اگرچہ ایک کمزور تھا لیکن فکر نے توازن بگڑنے نہیں دیا۔اس کا ناز ادراک رکھتے ہیں جیسے
بحر میں ہے غزل عروضی کی
شاعری سے ہے شاعری خالی

کلاسیکی انداز اور روایت سے جڑی ناز کی ایک اور غزل کی بات کروں گا جو علامہ اقبال کی فکر کی یاد تازہ کرگئی۔وہ ردیف ’بہت ہیں‘ کی ہے۔اس کے سات اشعار ہیں اور سب کے سب کلاسیکی روایت کے۔چھٹا شعر حمدیہ ہے اور ساتواں شعر ایک اور بہت بڑی حقیقت کو سامنے لاتا ہے۔ہم جس وطن میں رہتے ہیں اور جس نے ہم کو پہچان عطاکی ہے اور اس کی آزاد فضاؤں میں ہم سانس لیتے ہیں لیکن عجیب بات ہے کہ ذرا سی تکلیف پر ہم اپنے ہی وطن کو کوستے ہیں۔یہ عجیب محبت ہے جو خون دینے والوں کی تو ہو نہیں سکتی البتہ دودھ پینے والے مجنوؤں کی ضرور ہے۔تاہم ناز کو اپنی کم مائیگی کا احساس ہے اور یہی کسی اچھے شاعر کی معیاری شاعری اور فکر کو سامنے لاتا ہے۔
عطا کر مسلماں کو عزت کی دولت
تری رحمتوں کے خزانے بہت ہیں
وطن کے لیے ناز کچھ کر نہ پائے
زباں پر وطن کے ترانے بہت ہیں

وطن سے محبت کے گیت مختلف شعراء نے اپنے اپنے انداز میں گائے ہیں اور کچھ ہم کو نوک زباں بھی ہیں۔کچھ درد میں ڈوبے ہیں تو کچھ فکر کو مہمیز دیتے ہیں۔تاہم کچھ ہی اشعار ملتے ہیں جو عمل پر اکساتے ہیں۔ناز کا یہ آخری شعر بھی فکر کو مہمیز دیتا اور عمل پر اکساتا ہے۔جنھوں نے خون دل دے کر یہ چمن حاصل کیا ان سے ہی اس کی قدر وقیمت کا پوچھنا چاہیے ورنہ ان کو کیا معلوم جو سونے کا چمچ منہ میں لے کر آئے اور بغیر کسی درد کے اس ملک میں عیش وعشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔اور ذرا پیٹ میں مروڑکیا پڑا کہ ملک اور دھرتی سے شکایتیں شروع۔تاہم جو خون جگر دے کر چمن کو سینچتا ہے وہ چمن میں کانٹوں کے وجود کو برداشت نہیں کرسکتا
یہ چمن خوں سے ہم نے سینچا ہے
نازؔ کانٹے نہ اس میں بونے دے

احترام انسان و احترام آدمیت کے غزل میں قصے علامہ اقبال سے بہتر کوئی شاعر نہیں لکھ پایا تاہم کچھ شعراء نے یہ کوشش ضرور کی ہے۔قرآن کے مطابق اﷲ نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا اور مسجود ملائک قرار دیا۔تاہم جس انسان کو ملائکہ نے سجدہ کیا آج وہ بدترین حالت میں ہے۔اس میں انسانیت نام کو نہیں۔اپنے جیسے انسانوں کو غلام بنانا اور تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزرنا اس کی سرشت بن چکا۔اس انسان نے اس دنیا کو جہنم بنا دیا ہے۔ناز نے یہ بات غالب اور اقبال کی طرح کمال مہارت اور خوبصورتی سے اس شعر میں کہہ دی ہے
کل تھا مسجود آج فاسد ہوں
ابتدا کیا تھی انتہا کیا ہے

نازؔ سہل کو مشکل اور مشکل کو سہل بنا کر پیش کرنے کے فن میں طاق ہیں۔انھوں نے واردات قلب کو ایسے چابک انداز سے پیش کیا ہے کہ قاری انگشت بہ دنداں رہ جاتا ہے ۔ تکرار لفظی سے موسیقیت پیدا کرنا بھی جانتے ہیں اور استعارات کے استعمال کو کلاسیکی شعراء کی طرح استعمال کرتے ہیں جیسے یہ شعر
چاند سا جب کہا تو کہنے لگے
چاند کہیے ،یہ چاند سا کیا ہے

ہماری روایتی شاعری میں عشق ایک کار لاحاصل ہے۔محبوب کا حصول ممکن نہیں ہاں آہیں بھری جا سکتی ہیں۔وصال ممکن نہیں۔ہجر ہے اور اس بے وفا کا شعر ۔اس کے باوجود حضرت عاشق محبوب سے عشق کیے جا رہے ہیں۔نازؔ کے ہاں ایسا نہیں۔وہ عشق کے قائل ہیں لیکن اس عشق کے نہیں جس میں صرف ناکامیاں ہیں،نامرادیاں ہیں اور بدنامیاں ہیں
کیا ضروری ہے کہ انسان عشق میں
عمر بھر ناکامیوں سے کام لے

ناز ؔ نے اپنی غزلوں میں اس کرب کو بھی بیان کیا ہے جو ایک خانماں برباد پردیس کاٹنے والے کو دیار غیر میں برداشت کرنے پڑتے ہیں۔اپنی مٹی سے دور ،اپنوں سے دور۔کچھ سراب،کچھ خواب اور کچھ ڈالر و ریال و پاؤنڈ۔زندگی ہے کہ ایسے ہی گزری جاتی ہے۔کہیں خواہش اور خواب پورے کرتے کرتے کیس روپا ہوجاتے ہیں اور کہیں ناریاں دہلیز پر بیٹھی بوڑھی ہوجاتی ہیں۔یہ زندگی کی سچائیاں ہیں اور ان سے صرف نظر ممکن نہیں۔اس ملک کے بہترین دماغ ان ہی سرابوں کے لیے تو اس ملک کو چھوڑ کر ایسے گئے کہ پھر نہ پلٹے
عمر پردیس میں کٹی اپنی
خواہشوں کا سراب لے ڈوبا

ہر شاعر کو اپنے ہونے کا بھرپور احساس ہوتا ہے اور اس کا اظہار وہ اپنی شاعری میں کرتا بھی ہے اور ہم اسے بعض اوقات شاعرانہ تعلی بھی کہہ دیتے ہیں۔یہی کلاسیکی انداز نازؔ کے ہاں بھی ملتا ہے۔وہ بھی اپنے کلام کو اور اپنے اسلوب کو اس قابل سمجھتے ہیں کہ جس کی پیروی زمانے کو کرنی چاہیے۔جیسے یہ شعر
کرے گا اک جہاں تقلید اس کی
دیا ہے جو نیا اسلوب ہم نے

ناز ؔ اس امت کے مسائل سے بھی غافل نہیں جس کے جسم کا وہ ایک لازمی جزو ہیں۔ان کے نزدیک ہمارے مسائل کی وجہ دین سے دوری ہے۔تاہم یہ ایک یک رخی سوچ ہے۔ہمارے ہاں تو ہر ایک خود کو سب سے بڑا عاشق رسولؐ اور دوسرے فرقے کو گستاخ اور گردن زدنی گردانتا ہے۔ ہم محبتوں کے کتنے بڑے دعوے کرتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں۔حقیقت میں ہمارے ہاں بغاوت بہت ہے۔ہر قانون، ہر اصول، ہر آئین اور ہر روایت ہمارے ہاں توڑنی عین اسلام ہے۔ہر ایک کا اپنا اسلام ہے اور دوسرے کو تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ہر کوئی حق مانگ رہا ہے اور فرض کوئی بھی ادا کرنے کو تیار نہیں۔کیسے بدلے گی اس بدنصیب ملک کی تقدیر۔یہاں اسلام کے لیے گردنیں ماری جا رہی ہیں اور اپنے مسلمانوں کی ماری جاتی ہیں۔ہر ایک کے پاس اپنی فیکٹری کے تیار کردہ فتوے ہیں۔
آج پھر مشکلوں میں ہے امت
دین سے اجتناب لے ڈوبا

اردو زبان میں مقامی زبانوں کے الفاظ کا استعمال بھی ناز کے ہاں ملتا ہے اور اس کی ضرورت بھی ہے۔اگر انگریزی کے الفاظ کا ٹانکا لگایا جاسکتا ہے تو پہاڑی، ہندکو، کشمیری، گوجری، پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتو، شینا،بلوچی اور براہوی کیوں نہیں۔ناز نے پہاڑی زبان کو دو الفاظ کو اپنی ایک غزل میں استعمال کیا ہے اور خوب کیا ہے۔’چھپڑ (تالاب)،’بلتا‘(جلتا)۔
کسی کا نازؔ جلتا ہے چھپڑ کے پانی سے
تعجب ہے ہمارا تیل سے بلتا نہیں سائیں

شاعری کا مقصد حق بات کی تلقین اور تشہیر بھی ہے۔میں شاعری کو صرف حظ اٹھانے والی شے نہیں سمجھتا۔اس نے دنیا کے معاشروں کو تبدیل کرنے میں اہم خدمات انجام دی ہیں اور ہم بھی اس سے یہی کام لے سکتے ہیں۔یہ صرف مشاعروں کی زبان نہیں اور شاعری صرف اس لیے بنی بھی نہیں۔واہ واہ، مکرر،ارشاد،اجی پھر پڑھیے کا دور اب نہیں رہا۔اب شاعری میں سماج کے تمام مسائل اور شاعر کو ان کا ادراک ہونا ضروری ہے۔اور اس منصب کو ادا کرنے کا ناز اس بنیاد پر دعوٰی کرسکتے ہیں کہ ان کی شاعری قصیدوں سے خالی ہے۔
خون دل میں ڈبو کے لفظوں کو
شاعری ہم نے باوضو کی ہے
ظلم کو پھیلنے سے روکا ہے
بات ظالم کے روبرو کی ہے

ناز کے ہاں اگر گزرے وقتوں کی کہانیاں ہیں تو بارش کے رکنے کی دعائیں بھی ہیں اور صرف اس لیے ہیں کہ وہ غریب کے گھروں کو گرتا اور بہتا نہیں دیکھ سکتے۔شاید وہ اس لیے بھی حساس ہیں کہ ان کا بچپن اور لڑکپن ان مسائل کا سامنا کرتے گزرا ہے۔ان کے ہاں جوانی کے تذکرے اونچے سروں میں ہیں تو بڑھاپا بھی دستک دے جاتا ہے۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ زندگی کی ساری بہاریں اندر کے موسم کے طفیل ہیں۔بڑھاپا ان تمام بہاروں کو خزاں زدہ کردیتا ہے اور ایسی ہی کسک نازؔ کے ہاں بھی موجود ہے جیسے یہ اشعار
چمن آباد تھے ، گل شادماں تھے
یہ تب کی بات ہے جب ہم جواں تھے
دعا بارش کی کیسے مانگتے ہم
کہ بستی میں تو سب کچے مکاں تھے
اداسی،رنج وغم ،دردومصیبت
ہمارے نازؔ کیا کیا مہرباں تھے

نازؔ کی شاعری کے موضوعات پر طویل بات کی جا سکتی ہے۔تاہم اختتام بھی ان کی وطن سے محبت پر ہی کروں گا ۔نازؔ اس بات کا شعور رکھنے ہیں اور چشم بینابھی کہ اس ملک کو لوٹنے والے ہاتھ کس کے ہیں اور کون انگاروں پر چل رہا ہے۔کون اس ملک کی خدمت کررہا ہے اور کون اس کی جڑوں میں تیزاب انڈیل رہا ہے۔نازؔ کا شمار ان شعراء میں نہیں ہوتا جو اپنے ملک سے شاکی رہتے ہیں تاہم وہ اپنی قیادت سے ضرور شاکی ہیں اور ہونا بھی چاہیے۔لیکن یہ قیادت کا مسئلہ بھی تو ہمارا پیدا کردہ ہے۔ہم ہی ایسے قائد منتخب کرتے ہیں اور پھر روتے ہیں۔ساری امت مسلمہ اس عذاب کا شکار ہے۔اس مسئلے کا کیا حل ہو،شاعر کو اس پر بھی غور کرنا چاہیے کیونکہ قومیں شعراء کے دلوں میں جنم لیتی ہیں۔
کس نے لوٹے ہیں بہاروں کے مزے
گلستاں کس نے سنوارا، دیکھیے
چار تنکے فقط نشیمن کے
سازشیں دیکھیے زمانے کی

abdul karim
About the Author: abdul karim Read More Articles by abdul karim: 34 Articles with 51483 views i am a man of some rules and regulations.i like maturity in the behavious of persons and in nations.i do not believe in strictness of thoughts but i b.. View More