دارالعلوم دیوبند

ویسے تو دینی مدارس وجامعات کا جال دنیا کے چپے چپے پر بچھ چکا ہے، دنیا کے ہر شہر میں اگر نہیں تو کم سے کم ہر ملک میں کوئی نہ کوئی دینی مدرسہ، معہد،مکتب، مرکز، جامعہ ضرور موجود ہے، لیکن اس حوالے سے جو کرم واحسان اﷲ رب العزت نے برصغیر پاک وہند پر فرمایا ہے، اس کی نظیر دنیا میں ملنا محال نہیں تو دشوار ضرور ہے اور پھر برصغیر کے حوالے سے پاکستان۔ الحمدﷲ۔ ہند پر بھی بازی لے گیا ہے۔

ظاہری وباطنی لحاظ سے برصغیرپاک وہند کی تہذیب وثقافت کے علمبرداران مدارس نے اندرونی وبیرونی، حکومتی اور غیر حکومتی سازشوں سے دوچار ہو کر مادی ومعنوی نیز مالی وسیاسی مشکلات ومسائل کا بارہا سامنا بھی کیا ،مگر ان کی ترقی، پھیلاؤ، اثرونفوذ،عالم گیریت،تسلسل اور استقامت میں کوئی فرق نہیں آیا، چناں چہ آج اس موضوع کو…… تاریخ، دستور، نظام تعلیم، کار نامے اور نتائج جیسے ابواب وفصول میں مبوّب ومفصّل بیان کرنے کے لیے دفتر کے دفتر چاہئیں، جس کا احاطہ کرنا ہر کس وناکس کا کام بھی نہیں اور یہاں اس کا مقام بھی نہیں ہے۔

پاکستاں کے تمام دینی ادارے بالخصوص دیوبندی مدارس ،فکری اور مسلکی حوالے سے دارالعلوم دیوبند سے منسلک ہیں ،نظامِ ادارت ،نظامِ تعلیم،نصابِ تعلیم، اورامتحانات و بعض دیگر شعبوں میں اسی سے مشابہ اور مماثل ہیں،چوں کہ،آج کل مختلف انداز کے بیانیوں میں ان مدارس اور ان کی علمی تاریخ پر بحثیں ہو رہی ہیں،اس لیے یہاں دارالعلوم دیوبند کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے۔

’’دارالعلوم کی بنیاد 15 محرم1273ھ/1867ء کو دیوبند کی ایک قدیم مسجد چھتّاوالی میں مشہور عالم دین مولانا محمد قاسم نانوتوی (1248ھ /1832ء ……1297ھ/1880ء )نے چند اہل فضل وتقویٰ بزرگوں کے تعاون اور مشورے سے رکھی تھی۔ جن میں مولانا فضل الرحمن عثمانی ( علامہ شبیر احمد عثمانی کے والد) مولانا ذوالفقار علی دیوبندی (والدِ شیخ الہند) اور حاجی عابد حسین کے نام قابل ذکر ہیں ۔ اس درس گاہ کے پہلے مہتمم حاجی محمد احمد،پہلے مدرس ملا محمود دیوبندی، پہلے طالب علم مولانا محمود حسن، پہلے صدر المدرسین مولانا محمد یعقوب نانوتوی اور پہلے سرپرست مولانا محمد قاسم نانوتوی مقرر ہوئے۔ بعد میں دارالعلوم کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد مولانا احمد علی محدث سہارنپوری نے 1293ھ/1876ء میں رکھا ،بنیادی طور پریہ درس گاہ درجہ ذیل مقاصد کے پیش نظر قائم کی گئی تھی۔۱- آزادی ضمیر اور اعلائے کلمۃ الحق۔ ۲-مسلمانوں کو ایک جمہوری عوامی تنظیم میں پرونے کی جدوجہد کرنا۔۳- حضرت شاہ ولی اﷲ دھلویؒ کے مسلک کی حفاظت واشاعت۔ ۴- مسلم معاشرے سے خود غرضی اور استبداد کا خاتمہ۔ ۵- علوم دینی کا احیاء، علوم عقلیہ کی صحیح ترتیب’ دین میں مہارت کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم کے تقاضے پورے کرنے والے علماء تیار کرنا۔

درس گاہ کی مالی ضروریات کے سلسلے میں مولانا نانوتوی نے آٹھ اصول (اصول ہشتگانہ) مقرر کیے تھے،جن کا مقصد یہ تھا کہ حکومت ِوقت اور امراء و اغنیاء کے تسلط سے درسگاہ آزاد رہے۔ دارالعلوم دیوبند کے نظم ونسق کے لیے ایک مجلس شوریٰ ہے ۔ ایک مجلس انتظامیہ ہے۔ ایک مہتمم (رئیس الجامعہ) ہے،اب کچھ سالوں سے نائب مہتمم کا منصب بھی شوری ٰ نے منظور کیا ہے۔ شیخ الحدیث یا صدر المدرسین کا منصب ممتازاہل علم وتقوی کو ملتا ہے۔ یہاں علمِ صرف ونحو،لغت و ادب ، علم المعانی، منطق، فلسفہ، فقہ، اصول فقہ، حدیث، تفسیر، علم الفرائض، علم العقائد، علم الکلام ، علم الطب، علم المناظرہ، علم ہیئت اور علم قراء ت وتجوید کے علاوہ جدیدعربی، اردو ، انگریزی زبان وادب اور ریاضی کی تعلیم بھی دی جاتی ہے، مبادیات کے بعد درس ِ نظامی کاآٹھ سالہ نصاب ہے۔ اس درسگاہ میں دورۂ حدیث کی بڑی شان وشوکت ہے، جس میں دور دراز کے طالب درجات کی تکمیل کے بعد شریک ہوتے ہیں ۔ تیرہویں صدی ہجری/ انیسویں صدی عیسوی کے دوران دہلی، لکھنؤ اور خیرآباد میں تین مختلف النوع دینی ادارے موجود تھے۔ دہلی کے ادارے تفسیر اور حدیث کی تعلیم پر زور دیتے تھے، لکھنؤ فقہ پر اور خیرآباد علم الکلام اور فلسفے کے لیے مخصوص تھا۔ دیوبند ان تینوں کے امتزاج کی نمائندگی کر رہا ہے۔ دیوبند میں بلاد اسلامیہ کے مختلف ملکوں وحصوں سے طلبہ آتے رہتے ہیں ۔ درس گاہِ حدیث میں پندرہ سو طلبہ کے قیام کا بندوبست ہے۔ دارالعلوم کی عمارت تین مساجد کئی دارالاقاموں، ایک کتب خانے اور حدیث ، تفسیر اور فقہ وغیرہ کے متعدد درسی کمروں پر مشتمل ہے۔ دیوبند کے کتب خانے کا شمار ہندوستان میں مخطوطات کے بڑے بڑے کتب خانوں میں ہوتا ہے۔ اس میں ستر ہزار کتابیں موجود ہیں۔دیوبند کے اس سلسلۃ الذہب سے قیادت و سیاست،صحافت،خطابت،تصنیف وتالیف،درس وتدریس،تصوف وسلوک،دعوت وتبلیغ،اہتمام وانتظام اور جہاد وقتال کے لاتعدادعباقرہ پیدا ہوئے۔

مولانا محمد قاسم نانوتوی تین واسطوں سے حضرت شاہ ولی اﷲ دھلویؒ کے شاگرد تھے ،دیوبندوالے فقہی مذاہب میں سے امام ابوحنیفہؒ کے مقلد ہیں۔ قرآن وسنت پر سختی سے عمل پیرا ہونے کے علاوہ ان کا تصوف سے بھی گہرا تعلق ہے۔ اکثر علمائے دیوبند روحانی مسلک کے لحاظ سے حاجی امداد اﷲ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہیں، جو نقشبندی ، چشتی ، قادری اور سہروردی چاروں سلسلوں سے منسلک تھے۔ عقائد وعلم الکلام میں امام ابوالحسن اشعریؒ کے مقلد ہیں۔ رسول اﷲ ﷺ کی محبت وعظمت پر ایمان رکھتے ہیں ۔ کثرت ِدرود کو عین ثواب سمجھتے ہیں۔ دین میں غلو اور انتہا پسندی کے بجائے وہ اعتدال کے قائل اور اہل قبلہ وعامۃ المسلمین کی تکفیر سے اجتناب واحتیاط لازم سمجھتے ہیں۔

دیوبندی علمائے کرام نے تحریک آزادی میں نمایاں حصہ لیا،آزادی ہند کے لیے 1857کی جنگ میں قیادت مولانا قاسم نانوتوی کے پاس تھی، ریشمی رومال کی تحریک شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی نے منظم کی تھی۔ تحریک خلافت میں بھی دیوبندیوں نے بڑا حصہ لیا۔ تحریک پاکستان کی جدوجہد میں دیوبندی دو حصوں میں منقسم تھے ،ایک حصے نے آزادی متحدہ ہندوستان کے لیے جدوجہد کی اور دوسرے حصے نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مولاناا شرف علی تھانوی، علامہ شبیراحمد عثمانی ،مولانا ظفراحمد عثمانی ،مولانامفتی اعظمِ پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی اور ان حضرات سے نظریاتی منسلک خان عبد الغفار خان وغیرہ نے مسلم لیگ کے موقف کی حمایت کی۔ قیام پاکستان کے بعد دیوبندی علما کا علمی وروحانی مرکز بھارت میں رہ گیا اس لیے پاکستان کے مختلف مقامات پر علمی مراکز قائم کیے گئے۔ جامعہ اشرفیہ لاہور، جامعہ مدنیہ لاہور، مدرسہ عربیہ خیر المدارس ملتان،جامعہ قاسم العلوم ملتان، دارالعلوم ٹنڈو الہ یار ، مدرسہ مظہر العلوم کھڈہ کراچی، دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک پشاور، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی، دارالعلوم کراچی، جامعہ فاروقیہ کراچی ،جامعہ مطلع العلوم کویٹہ وغیرہ جیسی مشہور درس گاہیں دیوبندی مکتب فکر کی علمی یادگاروں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ’’اسلامی انسائیکلو پیڈیاباختصار واضافات‘‘ ۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 812006 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More