پراٹھا : ایک تجربہ

اب نیند تو مجھے آ نہیں رہی تھی، سو کمرے سے باہر نکل آیا. یقین مانیں اس وقت اگر مجھے معلوم ہوتا کہ مستقبل قریب میں کیا ہونیوالا ہے، تو میں واپس پلٹ کر کھیس میں گھس جاتا. لیکن یہ پتہ کیسے چلتا. میں تو چل دیا. بھوک اتنی خاص تو نہیں تھی مگر عجیب سا خیال آیا. دیگچی میں مثر کی دال تھی جس کے ساتھ دیسی گھی کے پراٹھے بڑے لزیز لگتے ہیں، کیوں نہ پراٹھہ بنانے کی کوشش کی جاۓ. یہ خیال تو یوں آیا جیسے کسی ماسٹر شیف کے ذہن میں کوئی نئی ریسیپی آئی ہو. اس پاگل پن کا آغاز کرنے سے پہلے میری شکل شاید ایسی ہی بنی ہوئی تھی جیسی عنقریب پراٹھے کی بننے والی تھی.

گوندھا ہوا آٹا تلاش کیا، سوکھا آٹا نکالا اور بونگیاں مارنا شروع کر دیں. پہلے تو روٹی بیلتے بیلتے چپک ہی گئی. اب اسے آزاد کرنے کی جدوجہد شروع کر دی، مگر روٹی نے سطح کو بڑی گرم جوشی سے چوم رکھا تھا کہ آخر کو روٹی کا دھڑ الگ ہوگیا مگر ہونٹ چپکے رہ گۓ.

بعد میں سوکھے آٹے کا استعمال یاد آیا تو یہ مسئلہ حل ہوگیا. اب میں نے اندھا دھند بیلنا شروع کر دیا اور آخر گول بنا ہی لیا. مگر ایک چھوٹا سا سوراخ ہو گیا. حالانکہ قابل برداشت تھا مگر میں نے برداشت نہ کیا. اب میں نے عجیب حرکت کی: یہ کہ گوندھے ہوۓ آٹے کا چھوٹا سا ٹکڑا لیا اور اسے اس سوراخ میں پر کر دیا. بعد میں بیل کر برابر کرنے لگا تو وہی حصہ بیلن کے ساتھ چپک گیا...

بس اب کیا بتاؤں! پراٹھے کی تصویر ہی فریم سے نکل آئی.

اب دوبارہ پیڑا بنایا، سوکھا آٹا لگایا اور بیلن سے گول کر دیا. البتہ اب بھی دوچار سوراخ بن گۓ تھے مگر اب تو برداشت کر لیے. آج تو مان گیا کہ انسان غلطیوں سے سیکھتا ہے.

میں نے پراٹھے کا پتلا توے پر پھینک دیا تاکہ روح پھونکی جا سکے. اس کام میں بڑی دیر لگی اور آخر کو ایک بڑی عجیب سی مخلوق توے پر نظر آئ. مگر بہترین پراٹھا بنا. ٹھہریں! یہ الفاظ تو میں نے خود کی تسلی کے لئے کہے تھے. اگر کوئی اور دیکھ لیتا تو یہی کہتا کہ یہ کیا بلا پڑی ہے توے پر....!

اب دستر خوان تو سج گیا... لیکن اب کھانا کھانا کس طرح ہے، اس کا طریکہ بھی خود ایجاد کرنا پڑا، پلاسٹک کا پراٹھا جو خود ایجاد کیا تھا.

اب تھوڑا بہت کھا تو لیا. اگر کوئ دوسرا ایسا پراٹھا بنا کر پیش کرتا تو میں تو اس کو.......پتا نہیں کیا کر دیتا. اب انسان خود کو ڈانٹتا تھوڑی ہے.

بہرحال بڑی مشکل سے چند نوالے لگا کر جان چھڑائ . آخر کیے دھرے پر مٹی بھی تو ڈالنی تھی. جب ہمت جواب دے گئ تو سوچا اپنے وفادار ڈوگیوں کو کیوں نہ کھلا دیا جاۓ. وہ بونگا سا کتا جو صابن دانی سے نیچے گرنے والا ضعیف صابن بھی کھا جاتا تھا.. اس نے بھی پراٹھے کو منہ نہ لگایا.
ڈوگی تو وفادار ہوتے ہیں، میرے واسطے نخرے سے کھا ہی گیا.

میری جان تو چھٹ گئی بھئی!

لیکن کچن میں اب بھی آثار پاۓ جاتے تھے. کچن کا ایسا حال تھا جیسے وہاں آٹے سے جنگ لڑی گئی ہو. اب جلدی سے صفائی کا انتظام کرنا تھا، تاکہ سوال جواب نہ کرنے پڑ جائیں.

فارغ ہونے کے بعد مجھے دودھ دہی کی لسی پینے کو بڑا دل کر رہا تھا، دہی نہیں تھا. اسلئے دکان پر سے خریدنے کا ارادہ کیا. بعد میں میں خود سے مخاطب ہو کر کہا: لسی بنانی تو آتی نہیں، پہلے والے کرتوتوں سے عبرت حاصل کر! لحاظہ میں نے گریز کیا، اب لسی بناتے بناتے بھی کوئی نئی بلا نہ بن جاۓ...!

اس واقعے سے یہ احساس ہوا کہ گھر میں جو روٹی یا پراٹھے بنا کرتے ہیں، ان میں کتنی محنت لگتی ہوگی. اسے بھی ایک فن یا کاریگری سمجھا جانا چاہئے مگر مرد حضرات اکثر اس پر غور نہیں کرتے اور معمولی سا کام سمجھتے ہیں. مگر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مرد اور خواتین کی ذمہ داریاں دونوں کے لۓ یکسر کٹھن ہوتی ہیں، مرد بے شک ایک دن ضرور تجربہ کر کے دیکھیں. اب شاید ایک بار جھاڑو پونچھا بھی آزما لینا چاہئے۔
M. Irfan
About the Author: M. Irfan Read More Articles by M. Irfan: 17 Articles with 25672 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.