تخلیقی صحافت کا فقدان

تاریخ کے اوراق پلٹئے پر واضح طور سے پتہ چلتا ہے کہ قلم نے قوموں کی قسمت بدلنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔۔۔اگر تلوارتخت یا تختے کیلئے بر سرِ پیکار رہی ۔۔۔تو قلم سے بھی تخت اور تختے کی حفاظت کا کام لیا گیا۔۔۔ قلم کی مرہونِ منت دنیا میں کئی انقلاب برپا ہوئے۔۔۔قلم سے بھی جنگیں لڑیں گئیں اور جیتی بھی گئیں۔۔۔قلم نے جہاں معاشرے کو نکہارنے کا کام کیا وہیں بگاڑنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔۔۔آخر اس قلم کہ پیچھے کن لوگوں کا ہاتھ تھا۔۔۔جو گا بگاہے اس کہ استعمال سے دنیا کو منور و تاریک کرتے رہے۔۔۔وہ عظیم لوگ تھے جنہوں نے قلم سے اپنی قوموں کی ذہنی نشونما کی۔۔۔وہ عظمتوں کہ مینار تھے جن کہ قلم سے متحرک الفاظ جنم لیتے تھے اوران کہ قلم سے روشنی پھوٹتی اور رہگزاروں کو راستہ دیکھاتی تھیں اورآسان کرتھیں۔۔۔

آج بھی دنیا میں قلمقاروں کی کثیر تعداد موجود ہے۔۔۔جو ادب کی دیگر اصناف میں طبع آزمائی کر رہے ہیں۔۔۔آج قلمقاروں کی ایک بڑی تعداد صحافت سے منسوب ہے۔۔۔ بہت معذ رت کہ ساتھ صحافیوں کی تو بھر مار ہے۔۔۔پاکستان میں میڈیا کی آزادی کہ طوفیل صحافت کہ شعبے میں انقلاب برپا ہوا۔۔۔آج صحافت ایک صنعت کی سی حیثیت حاصل کرچکی ہے۔۔۔ دنیا جہان کہ تعلیمی ادارے صحافت کی پیشہ ورانہ ڈگری پروگرام کروارہے ہیں۔۔۔صحافی فنی اور تکنیکی صلاحیتوں سے لیس ہو رہے ہیں ۔۔۔دنیا کہ دوسرے ممالک کی طرح پاکستان بھی اس دوڑ میں شامل ہے۔۔۔انگنت نیوز چینلز ، اخبارات اور رسائل اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔۔۔اب صحافت ایک پیشہ بن چکا ہے۔۔۔کسی حد تک صحافت شعبہ جاتی ہوچکی ہے۔۔۔ جیسے کاروباری صحافت، شو بزنس کی صحافت ، کھیلوں پر صحافت، ادبی صحافت وغیرہ وغیرہ ۔۔۔

آج صحافت سے وابستہ لوگ اپنی زندگیا ں داؤ پر لگا کر خبریں نکال رہے ہیں اور سچ اور جھوٹ میں فرق واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔کتنے ہی صحافی اپنی انمول زندگیاں ایک سچی خبر کہ حصول اورخبر دینے کہ پاداش میں گنوا چکے ہیں۔۔۔لیکن ایک جنگی سپاہی کی طرح بر سرِ پیکار ہیں۔۔۔سچ کا علم بلند کئے ہوئے اپنے اپنے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔۔۔یہ وہ لوگ ہیں جو ملک کہ داخلی محاظوں پر ملک و قوم کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔۔۔قلم کو اپنا اسلحہ بنائے ہوئے دشمن کہ سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ڈٹے ہوئے ہیں۔۔۔

آج دنیالکھنے والوں کو بڑے بڑے ایوارڈز سے نواز رہی ہے۔۔۔لیکن کیا واقعی یہ لکھاری ان ایوارڈز کہ مستحق ہیں۔۔۔کیا ان کی وجہ سے دو ملکوں یا دوصوبوں یا دو شہروں یا دو گرہوں یا دو پڑوسیوں کہ درمیان صلح ہو سکی ۔۔۔کیا معاشرے میں ادب و ادبی محبت اپنی جگہ بنا سکی۔۔۔ایسا بہت کم کم نظر آتا ہے۔۔۔شائد تخلیقی صحافت یا ادب کا فقدان پیدا ہوا جا رہا ہے۔۔۔کہیں صحافت تجارت تو نہیں بنتی جارہی۔۔۔کہیں صحافت مافیا کی جگہ تو نہیں لے رہی۔۔۔آج ساری دنیا کہ پاس صرف ایک ہی موضوع ہے ۔۔۔وہ ہے دہشت گردی۔۔۔ساری صحافت ساری دنیا انہیں افراد اور اسی موضوع پر طبع آزمائی کرتی نظر آتی ہے۔۔۔دنیا جہاں کی افواج دنیا میں امن کہ لئے سر گرداں ہیں۔۔۔مگر جب افواج بندوق اور گولہ بارود سے امن لانے نکلتی ہیں تو خون بہایا جاتا ہے۔۔۔لاشیں گرائی جاتی ہیں۔۔۔معذور افراد کی تعداد بڑھتی ہے۔۔۔امن تو ہوجاتا ہے۔۔۔مگر بہت بھیانک اور خوف ناک نا جانے آنے والی کتنی نسلیں اس خوف سے چھٹکاراحاصل نہیں پاتیں۔۔۔ناگاساکی و ہیروشیما ہمارے سامنے عملی مثال ہے۔۔۔

بندوق و بارود کہ برعکس یہی کام اگر قلم سے کیا جائے تو نہ ہی خون بہایا جاتا ہے ۔۔۔نہ ہی لاشیں گرتی ہیں۔۔۔بلکہ امن و سلامتی محبت کہ ساتھ پھیلتی ہے۔۔۔حکومت وقت کو چاہئے کہ معاشرے میں موجود جہاں دیدہ لوگوں کو آگے لائیں۔۔۔ان کو یہ کام سونپے کہ ملک میں خوشحالی اور ترقی کیسے لائی جائے۔۔۔یہ باتیں قدرت سے محبت کرنے والے ۔۔۔قدرت کی تخلیقات پر نظر رکھنے والے لوگ ہی بتا سکتے ہیں۔۔۔کسی بھی موضوع پر راگ الاپنا کوئی تخلیق نہیں۔۔۔معاشرے کوقلبی اطمینان و سکون چاہئے۔۔۔حکومت اگر مخلص ہوجائے تو کوئی کام مشکل نہیں ۔۔۔مشکل سے مشکل صورتحال سے آسانی سے نمٹا جا سکتا ہے ۔۔۔معاشرے میں تبدیلی لانے کیلئے قلمقاروں کو اپنا کردار بہت احسن اور فعل طریقے سے نبھانا ہوگا۔۔۔معاشرے میں تبدیلی تب ہی آئے گی۔۔۔
 
Sh. Khalid Zahid
About the Author: Sh. Khalid Zahid Read More Articles by Sh. Khalid Zahid: 526 Articles with 405008 views Take good care of others who live near you specially... View More