کیا نواز شریف نے جنگ جیت لی

ہمارے محلے میں ایک صاحب جو اس وقت ستر سال سے زائد کے ہیں ان کے 14بیٹے اور ایک بیٹی ہیں الحمداﷲ اس وقت 13بیٹے اور ایک بیٹی حیات ہیں جو تقریباَسب شادی شدہ ہیں ان کی اہلیہ ہر ماہ یا دو ماہ بعد کسی نہ کسی بہو کو لے کر اسپتال جاتی تھیں تو ایک دفعہ ہسپتال والوں نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ اماں تم تو اسپتال کے سامنے ایک کیمپ لگالو ہر دفعہ تمھیں آنا پڑتا ہے ۔ہوا یہ کہ ان کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا اوربڑے میاں اکیلے رہ گئے پرانے زمانے کے لوگ تھے جوائنٹ فیملی سسٹم تھا بڑے بزرگ ہونے کی حیثیت سے ان کا گھر میں رعب بھی تھا بچے بھی سب ادب و احترام کرتے تھے پہلے کے زمانے کے والد تو اپنے شادی شدہ بیٹوں کی بھی پٹائی کر دیا کرتے تھے اور سعادتمند بیٹے سر جھکا کر مار کھا لیا کرتے تھے ۔بہر حال عمر اور غصے کی زیادتی کی وجہ سے وہ گھر میں بات بات پر بہوؤں اور بیٹوں پر غصے کا اظہار کرتے رہتے تھے اور سب لوگ پریشان رہتے تھے بالآخر گھر تمام بیٹوں اور بہووں نے ایک میٹنگ کی کہ اس مسئلہ کا کیا حل نکالا جائے متفقہ فیصلہ یہ ہوا کہ ابا جی کی شادی کرادی جائے چنانچہ 72برس کے لڑکے کے لیے لڑکی ڈھونڈی گئی پھر ایک بیوہ خاتون سے ان کی شادی کر دی گئی اب ان کے گھر میں سکون ہو گیا ،اب یہ سکون اﷲ جانے مستقل ہے یا عارضی۔اور عارضی بھی اس طرح کے جیسے عمران خان کی شادی کے بعد ملک کی داخلی صورتحال میں فی الوقت ایک سکون سا نظر آتا ہے ۔

یہ تو ایک بڑے میاں کا معاملہ ہے اپنے بچپن سے ایک بات سنتے چلے آرہے ہیں پہلے زمانے میں جو لڑکے نافرمان یا آؤٹ آف کنٹرول ہو جاتے تھے ان کے والدین اور خاندان کے بزرگ مل کر یہ فیصلہ کرتے تھے اس نا ہنجار کی شادی کردی جائے چاہے بیٹوں کی ترتیب میں اس کا شادی کا نمبر ہو یا نہ ہو یہ سوچ کر اس کی شادی کردی جاتی تھی کہ کالے سر والی آئے گی تو اس کو ٹھیک کر دے گی پہلے زمانے شاید لڑکیاں بھی ایسی مل جاتی تھیں جو اس ٹاسک کو ایک چیلنج سمجھ کر قبول کرتی تھیں اور جو بگڑے ہو نوجوان اپنے ماں باپ کے قابو میں نہیں آ پاتے تھے انھیں ان کی بیویاں سدھار دیتی تھیں ،بلکہ جب بڑے بوڑھے اس طرح کی کوئی بات کرتے تھے تو اکثر مثالیں بھی دیا کرتے تھے ،کہ فلاں کے بیٹے کے ساتھ ایسا معاملہ ہوا تھا دیکھو اب کیسا سدھر گیا میرے خیال میں ہر خاندان میں ایسی کچھ مثالیں ضرور ہوں گی ۔

سانحہ پشاور نے ملک کی اندرونی سیاست کا رخ پلٹ کر رکھ دیا ۔دہشت گردی کے خلاف تمام سیاستداں ایک صفحے پر آگئے ،وزیر اعظم کی طرف سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت جمع تھی ،اس اجلاس میں متفقہ طور سے کچھ اہم فیصلے کیے گئے ۔پاکستان تحریک انصاف جو کئی مہینوں سے 2013کے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف مہم چلا رہی تھی اور اس حوالے دھرنوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری تھا ۔۔اس دوران عمران خان کے موقف کی حمایت اور مخالفت میں اخبارات میں مضامین اور تجزیے بھی شائع ہوتے رہے لیکن عمران خان مستقل مزاجی سے اپنے دھرنوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے ۔

جب یہ سانحہ ہوا تو ان دنوں میں تحریک انصاف کا ایک بڑا جلسہ ہونے والا تھا جو عمران خان نے ملتوی کردیا اور پھر نواز شریف کی طرف سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں شریک بھی ہوئے ۔اس کے بعد انھوں نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا ۔مسلم لیگ ن نے بھی خیر سگالی کا مظاہرہ کیا اور دونوں طرف سے سیاسی کشیدگی جو اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی اس میں کچھ کمی ہوتی ہوئی محسوس ہوئی ،دونوں طرف سے مفاہمانہ اور مصالحانہ بیانات کا تبادلہ ہوا ۔قوم کو یہ تاثر ملنے لگا کہ اب مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے اور حکومت پی ٹی آئی کے جیوڈیشنل کمیشن والے مطالبے کو مان لے گی ۔اور نون لیگ کی طرف سے بھی کچھ ایسا ہی تاثر دیا گیا چونکہ ان دنوں میں اکیسویں ترمیم بھی ایوان سے منظور کروانی تھی اس لیے ن لیگ بڑے نرم، شائستہ اور دھیمے لہجے میں عمران خان کی پارٹی کو ایڈریس کررہی تھی ۔اسحاق ڈار سمیت ن لیگ کے کئی رہنما قوم کو یہ بتارہے تھے کہ ہمارا معاہدہ ہو جائے گا ۔جب پارلیمنٹ سے مجوزہ ترمیم منظور ہو گئی اور ن لیگ کا بلڈ پریشر کچھ نارمل ہوا تو پھر بیانات کے رنگ بدلنے لگے اب کچھ کچھ اختلافی موڈ والے بیانات آنا شروع ہوا اور ایسا محسوس ہوا کہ جیو ڈیشنل کمیشن کے سلسلے میں ن لیگ کی نیت بدل رہی ہے ۔

سانحہ پشاور کے بعد نواز شریف صاحب جس قسم کے دباؤ میں آئے تھے وہ آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا اور اب شاید وزیر اعظم صاحب یہ سمجھ رہے ہیں کہ انھوں نے اسٹبلشمنٹ کی تمام باتیں مان کر اپنے آپ کو محفوظ اور شاید کسی حد تک مضبوط بنالیا ہے اس لے اب اگر عمران خان کے جیوڈیشنل کمیشن کے مطالبے کو نہ مانا جائے تو ہماری حکومت پر یا ہماری صحت پر کیا اثر پڑے گا۔اس لیے کہ ان کے ساتھ وہ قوت ہے جو اگر کسی کیساتھ ہو جائے تو کوئی اس کا بال بیکاا نہیں کرسکتا ،ہمیں افسوس کے ساتھ لکھنا پڑرہا ہے کہ نواز شریف صاحب جس چیز کو اپنی مضبوطی سمجھ رہے ہیں وہی ان کی سب سے بڑی کمزوری ثابت ہو سکتی ہے اور وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ انھوں نے سیاست کے میدان میں عمران کو شکست دے دی ہے تو یہ شاید ان کی بھول ہے ۔اس لیے کہ ملک میں سیاسی عمل رک جائے اور ایوان اقتدار پر متمکن لوگ اسٹبلشمنٹ کو کنٹرول میں رکھنے کے بجائے خود اس کے کنٹرول میں آجائیں اور پھر وہ اندر اندر خوش بھی ہوتے رہیں اس وقت اقتدار پر اثر انداز ہونے والی اندرونی اور بیرونی قوتیں ان کی حمایت میں ہیں اور انھیں طویل عرصے تک کوئی ہلا نہیں سکتا تو ان کی یہ خوشی عارضی بھی ثابت ہو سکتی ہے ۔ایک نکتہ یہ بھی ہمارے حکمرانوں کے ذہن میں ہے شادی کے بعد تو نوجوانوں کی قوت عمل سست پڑجاتی ہے تو باسٹھ سال کی عمر میں شادی کرنے کے بعد شاید اب پہلے جیسی کڑک نہ ہو ۔جب کے عمران خان یہ بیان دے چکے ہیں کہ اگر ان کا جیوڈیشنل کمیشن کا مطالبہ نہیں مانا گیا تو وہ پورا ملک بند کر دیں گے ۔

عمران خان جب تک دھرنوں کا ملک میں راگ الاپ رہے تھے تو اس کی موافقت اور مخالفت میں ٹاک شوز تجزیے اور تبصرے چل رہے تھے اور پوری دنیا کو ایک یہ تاثر جا رہا تھا کے پاکستان میں سیاسی عمل جاری و ساری ہے اور اگر اس سیاسی عمل کے نتیجے میں کوئی ایسا مرحلہ آجاتا کہ جیوڈیشنل کمیشن کے اس فیصلے کی روشنی میں کہ2013کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی اور ملک میں دوبارہ انتخاب ہونے چاہیے اس لیے وزیراعظم کو استعفا دے دینا چاہیے ۔اس صورت میں دیانتدارانہ انتخاب میں ن لیگ کے پہلے سے زیادہ تعداد اور قوت کے ساتھ کامیابی مل سکتی تھی ۔نواز شریف کے استعفے کے بعد ان کے لیے ملک میں ہمدردی کی لہر دوڑجاتی جو ان کی کامیابی کا سبب بن سکتی تھی ۔یہ بات واضح رہنا چاہیے کہ کہ اگر نواز شریف صاحب سیاسی عمل کے بعد اقتدار چھوڑیں گے تو دوبارہ ان کے جیتنے کے امکانات روشن ہیں اور اگر کسی اور طریقے سے انھیں اقتدار سے بے دخل کیا گیا تو پھر انھیں ایک طویل عرصے تک اقتدار حاصل کرنے کے لیے اﷲ میاں سے زندگی کی دعا مانگنا پڑے گی ۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 41 Articles with 37578 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.