فرانسیسی اخبار ’ ہیبڈ و‘ کے مکروہ عزائم اور مغرب کو اسلام فوبیہ

فرانسیسی ہفت روزہ (چارلی )اخبار ’ہیبڈو ‘گستاخانہ خاکے شائع کر کے مسلمانوں کے جذبات کو ایک بار پھر مجروح۔ اس مکروہ اخبار نے یہ مکروہ حرکت پہلی بار نہیں کی یہ اس قسم کی بیہودہ حرکت پہلے بھی کرتا رہا ہے۔ لیکن اسلام دشمنوں کو یہ نہیں معلوم کہ نبی ﷺ کے چاہنے والے اپنی جان دینے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے نبیﷺ سے اپنے ماں باپ سے بھی بڑھ کر محبت اور عقیدت ہے۔ ان کی شان میں ہیبڈو کے خاکہ نویس نے جو گستاخانے خاکے بنائے اور اخبار نے انہیں شائع کیا ، اس کے بعد اس اخبار اور اس کے مدیر کا جو انجام ہونا تھا وہی ہوا۔مسلمانوں کے دشمنوں نے شدت پسندی کی تو ان کے خلاف بھی شدت پسند ی کا راستہ اختیار کیا گیا۔ کسی فرانسیسی، جرمن، امریکی، آسٹریلین، یہودی، عیسائی، ہندو، سکھ کے لیے یہ بات عام سی ہوسکتی ہے لیکن کسی بھی مسلمان کے لیے ہر گز ہرگز یہ عام نہیں وہ کسی صورت یہ برداشت کر ہی نہیں سکتا جو حرکت ہیبڈو اخبار نے کی۔ مسلمان اپنی جان تو دے سکتا ہے لیکن اپنے نبیﷺ کی شان میں گستاخی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتا۔ یہ بات ہر غیر مسلم اچھی طرح جانتا ہے۔ لیکن چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے والی مثال ہے ۔ ان گستاخانہ خاکوں سے ہیبڈو کا مدیر کیا حاصل کرنا چاہتا تھا؟ اخبار کی سرکلیشن میں اضافہ؟ نہیں یہ مقصد نہیں تھا بلکہ مسلمانوں کی دل آزاری کرنا ، ان کے جذبات کو مجروح کرنا انہیں ٹھیس پہنچانا ہی تھا۔ بد بختوں کا تکبر اور غرور کہہ رہا ہے کہ دیکھو مسلمانوں ہم ایسا بھی کرسکتے ہیں۔ لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ یہ انتہائی گری ہوئی، نیچ، گھنوانی اورگھٹیا حرکت تھی۔ مسلما ن خواہ دنیا کے کسی بھی کونے میں بستا ہو، کوئی سی بھی زبان بولتا ہو،کالا ہو یا گورا، مشرقی ہو یا مغربی، شمالی ہو جنوبی، امریکی ہو یا افریقی، ایشیائی ہو یا یورپی اپنے نبیﷺ کے نام پر اپنا تن من دھن قربان کرنے میں دیر نہیں لگائے گا۔

فرانسیی اخبار ہیبڈو کے بعد جرمن اخبار ’ہیمبر گرمارگن پوسٹ‘ نے شاغلے ہیبڈو پر حملے کے بعد فرانسیسی اخبار کی جانب سے شائع کردہ تین گستاخانہ خاکو ں کو اپنی ہید لائن میں دوبارہ شائع کیا۔ جس کے نتیجے میں اخبار کے دفتر واقع ہیمبرک میں گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے اخبار کے دفتر پر حملہ کر کے اسے جلانے کی کوشش کی ۔ حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔اخبار کے دفتر کی کھڑکی سے پتھراو ¿ کیا اور اس کے بعد آتش گیر مواد پھینکا۔ آتش گیر مواد سے عمارت کی نچلی منزلوں میں دو کمروں کو آگ لگنے سے کچھ ریکارڈ جل گیا۔ جرمن وزیر انصاف نے اسلام مخالف ریلی کو منسوخ کرنے کی اپیل کی ۔جرمنی کے بعد جاپان میں بھی یہی کچھ کیا گیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مغرب نے یہ فیصلہ کر لیا ہے وہ مسلمونوں کی دل آزاری
کرتے رہیں گے۔ لیکن ابھی کچھ ایسے مغربی بھی ہیں جو اس قسم کی حرکت کو اچھا نہیں سمجھتے۔ان کے نذدیک کسی کی دل آزاری اچھا فعل نہیں۔

فرانسیسی صدر کا یہ بیان حقیقت پسنددانہ ہے کہ مذہبی جنونیت سے خود مسلمان سب سے زیادہ متا ثر ہیں۔فرانسیسی صدر نے چالی ہیبڈو کی اس بیہودہ حرکت کی حمایت نہیں کی اور اس عمل کو مذہبی آزادی کے منافی قرار دیا۔کیتھولک عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس نے پیرس کے جریدے میں گستاخانہ خاکے کی اشاعت کی شدید مذمت کی ۔ ان کا کہنا تھا کہ’ اظہار رائے کی آزادی کی بھی ایک حد ہوتی ہے ۔ اس کی آڑ میں کسی بھی مذہب کی توہین نہیں کی جاسکتی۔نازیبا زبان استعمال کرنے والوں کو جوابی گھونسے کے لیے تیار رہنا چاہئے‘۔اس کے برعکس امریکہ برطانیہ آسٹریلیاکو دنیا کے ڈیر ھ ارب مسلمانوں کے جذبات کی کوئی پروا نہیں وہ توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کو ’اظہار رائے کی آزادی قرار دے رہے ہیں ان کی یہ بھی منطق ہے کہ کسی کو بھی اس آزادی کو دبانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے فرانسیسی اخبار چارلی ہیبڈو پر حملے میں ۷۱ افراد مارے گئے ۔ مغرب کے متعصبوں اور مسلمانوں کے مخالف ممالک جن کی تعدادکسی نے چالیس بتائی ، کسی نے ۵۲ اور کسی نے ۴۴بیان کی اخبار پر حملے کو انتہا پسندی قرار دیتے ہوئے اظہار یکجہتی کے لیے ان ملکوں کے سربراہوں نے پیرس میں ریلی نکالی اور ہاتھ میں ہاتھ ڈالکر مسلم امہ کو یہ پیغام دیا کہ گستاخانہ خاکے اتنی بڑی بات نہیں کہ اس کی سزا اس قدر بڑی دی جائے ۔ اس ریلی میں ترک وزیر اعظم اور بعض اسلامی ملکوں کے سربراہ بھی شامل تھے۔مغرب کی جانب سے ہیبڈو کی حمایت میں اظہار یکجہتی دراصل اسلام سے خوف اور اسلام فوبیہ ہے انہیں یہ ڈر اور خوف ہے کہ کہیں دنیا کے مسلمان یک جا نہ ہوجائیں ، اگر ان میں اتحاد اور اتفاق قائم ہوگیا تو وہ مغرب کے لیے مشکلات پیدا کردے گا۔ انہیں یہ معلوم ہے کہ دنیا کے مسلمان تمام امور پر الگ الگ ہو سکتے ہیں ، ان کی سوچ میں اختلاف ہوسکتا ہے،بعض معاملات میں وہ دست و گریباں بھی ہوسکتے ہیں لیکن ناموس رسالت ﷺ کی جب بات آتی ہے تو کسی مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق کا درس دینے کی ضرورت نہیں ہو تی وہ نہ صرف ایک ہیں بلکہ اپنے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دینے کا مکمل عزم رکھتے
ہیں۔

مغرب کی جانب سے اظہار یکجہتی ریلی کے لیے ا تنا کہنا ہی کافی ہے کہ یہ اظہار یکجہتی ریلی نہیں بلکہ یہ اسلام سے اظہار نفرت ریلی تھی۔۷۱ افراد کی موت پر مغرب کا واویلا سمجھ سے باہرہے۔مغرب نے اس بات سے اپنی آنکھیں بند کرلی کہ ہیبڈو اخبار نے دنیا بھر کے مسلمانوں کی دل آزاری کی ، انہیں تکلیف پہنچائی اس کے بر خلاف مسلمانوں کی دل آزاری کرنے والوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا اظہار کرنا کھلا مزاق اور حقیقت کے بر خلاف اقدام کو فروغ دینا ہے۔ حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اظہار یکجہتی میں شامل مغربی ممالک کے سربراہان کو ہیبڈو کے مدیران سے اظہار یکجہتی کے لیے اپنے ملک سے فرانس کھینچ لا یا انہیں عراق اور افغانستان میں شہید ہونے والے مسلمانوں پر اظہار افسوس کرنا بھی مناسب نہ لگا، فرانس میں الجرائر باشندوں کا قتل یاد نہ رہا، غزہ میں ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کردینا بھول گئے، مینمار میں روہنگیا مسلمانوں کی شہادت اور مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر بھارتی مظالم مغرب کو نظر نہیں آتے۔ مغرب کی آنکھو ں پر مسلمان دشمنی اور تعصب کی عینک لگی ہوئی ہے۔ انہیں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم نظر نہیں آتے ، انہیں مسلمانوں کی دل آزاری نظر نہیں آتی۔ در حقیقت یہ اسلام فوبیہ ہی تو ہے جس کا مغرب شکار ہے۔فرانس میں مغربی ممالک کے سربراہان کو ہیبڈو پر حملہ کرکے گستاخانہ خاکے بنانے اور شائع کرنے والوں سے اظہا ر یکجہتی کرنے میں دیر نہیں لگائی ، مغربی میڈیا نے اس اظہار یکجہتی کو خوب خوب بڑھا چڑھا کربیان اور نشر بھی کیا لیکن مغربی میڈیا کو دنیا کے بے شمار ممالک کے کروڑوں عوام جنہوں نے گستاخانہ خاکوں کے خلاف آواز بلند کی اور ہیبڈو کی گھنوانی حرکت پر اظہار مذمت کیا نظر نہیں آیا۔ مسلمانوں کے دشمن مل کر اظہار یکجہتی کریں تو وہ مغربی میڈیا کے نزدیک واہ واہ ہے۔ مغرب کا یہ دوہرا کرادار مسلمانوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے۔

حالات کا تقاضہ ہے کہ اقوام متحدہ تمام اقوام اور مذاہب کے چیدہ چیدہ نمائندوں کو ایک میز پر بٹھا کر انہیں شدت پسندی، مذہبی منافرت، ایک دوسرے کے مذہب اور عقیدے کے خلاف شدت پسندی کو روکنے کے لیے عالمی قوانین تشکیل دیئے جائیں ۔ جن کی رو سے کسی بھی مذہب اور مذہب کے پیشواو ¿ں پیغمبروں اور انبیائے کرام کی کسی بھی طرح اہانت کو قابل جرم قرار دیا جائے۔ یہ قوانین دنیا کے تمام اقوام اور ممالک کے لوگوں پر بلا تفریق لاگو ہوں جو کوئی انفرادی طور پر ، اجتماعی طور پر یا کسی بھی طریقے سے ان کی خلاف ورزی کرے اس کا سختی کے ساتھ مواخذہ کیا جائے۔ اس ملک کو جس کا وہ شہری ہو مجبور کیا جائے کہ وہ اسے اس عالمی قانون میں دی گئی سزا پر عمل در آمد کو یقینی بنائے۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 850 Articles with 1260593 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More