دشمن کی نئی چال

دشمن کبھی بھی اپنے حریف کی فلاح وبہبود کے بارے میں نہیں سوچ سکتا دشمن اپنی دشمنی سے باز نہیں آتا اگر کوئی اپنے دشمن کو دوست سمجھنا شروع کر دے تو اس سے بڑا احمق کوئی نہیں ہوتا کیونکہ دشمن اپنی دشمنی کا رنگ دکھانے سے باز نہیں آتا لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ پاکستانی حکمران ہر دور میں اپنے ازلی دشمن کے بارے میں دوست کا نظریہ رکھے ہوئے ہیں اس سے بھاری سودی قرضے بھی لئے جاتے ہیں جس کے بوجھ تلے قوم دب گئی ہے ہر موڑ پر اس نے پاکستان سے دوستی کے روپ میں دشمنی کی ،پاکستان کی ترقی اسے ہر گز پسند نہیں ہے وہ ہمیں مسائل کی دھل دھل میں پھنسا دیکھنا چاہتا ہے اس لئے تو ہمارے لئے نت نئے مسائل پیدا کرکے ہمیں do more کا آڈر دے دیتا ہے ہمارے حکمران جی حضور کے سوا کچھ نہیں کہتے ،پاکستان کے اچھے سے اچھے کام پر وہ راضی نہیں ،اس دشمن پاکستان کو دنیا امریکہ کے نام سے جانتی ہے اس کی منافقانہ پالیسیاں ہماری ملکی سلامتی ،وقار کے لئے خطرہ بن چکی ہیں ماضی کے تلخ حقائق میں جائے بغیر اگر حالیہ امریکی صدر اوباماکے دورہ ٔبھارت کی بات کی جائے تو اس کی دشمنی صاف ظاہر ہوجاتی ہے کہ اپنے پیٹی بھائی بھارت کو ایشین ٹائیگر بنانے کے لئے امریکہ بہادر بھارت پر کیا کیانوازشیں کر رہا ہے؟ اس کی جھلک حالیہ دورہ بھارت سے محسوس کی جا سکتی ہے بھارت جو پاکستان کی سلامتی کے لئے ایک خطرہ ہے امریکہ اس کی سپورٹ کرکے پاکستا ن کی ترقی کی راہیں مسدود کرنا چاہتا ہے بھارت کو ایسے حالات میں سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بنانے کی حمایت،واشنگٹن کااس کے ساتھ ایٹمی توانائی پر معاہدہ ،اور جوہری مواد کی نگرانی سے دستبرداری ،ڈرون کی مشترکہ تیاری سمیت دفاع پر معاہدہ خطے میں طاقت کے عدم توازن کو قائم کرنے سازش نہیں تو اور کیا ہے؟ ساری دنیا جانتی ہے کہ بھارت پاکستان کے اندر مسلح گروہوں کو استعمال کرکے عسکری کاروائیاں کروا رہا ہے جس سے ملک میں دہشت گردی کی شدید ترین لہریں پیدا ہوئیں ہیں ملک کو اس کے باعث ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے حکومت پاکستان نے اس کا نوٹس بھی لیا ہے مگرصدائے بصحرا کے سوا کچھ زیادہ کارگرثابت نہیں ہوئی۔ ان حالات واقعات میں امریکہ کا بھارت کو ایٹمی،سیاسی سپورٹ کرنے کا کیا مقصد ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ امریکہ انڈیا کے ذریعے پاکستان کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے اسی لئے تو یہ بھارت کا رعب پاکستان پر ڈال کر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے طاقت کے نشے میں چور بھارت پاکستان میں اپنی کاروئیاں جاری رکھے تاکہ پاکستان میں بد امنی پیدا ہو اس کو جواز بنا کر پاکستان کو ناکام ریاست قرار دیا جائے اور اس کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کیا جا سکے (میرا ایمان ہے کہ ایسا برا دن کبھی نہیں آئے گا کیونکہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اس ملک پر اﷲ تعالیٰ کاخاص کرم ہے )لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے کس حد تک اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے؟ مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اور بھارت کے اس ایٹمی معاہدے کے بعد پاکستان کو ضرور تشویش ہونی چاہیے کیونکہ بھارت اب مکمل طور پر مقامی ذخائر کو اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کی طرف موڑ سکتا ہے اور ہتھیارسازی کی رفتار کو بڑھا سکتا ہے ،یعنی سرحدوں کی دوسری جانب ممکنہ طور پر ایٹمی ہتھیار وں میں اضافہ ہو سکتا ہے جو خطے میں مزیدبھارتی بدمعاشی کا باعث بن سکتا ہے اس عدم توازن کی فضا کا خاتمہ اول ین فرائض میں سے ہے پاکستان کی طرف سے اگر تاخیر ہوگئی تو معاملہ مزید سنگین ہو جائے گا ،کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ حالیہ امریکہ کا بھارت سے ایٹمی معاہدہ بھارت کو بدمعاشی کا لائسنس دینے کے مترادف ہے اس سے امریکہ کا اصل چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے ۔پاکستانی حکمرانوں کو اب بھی اپنا قبلہ درست کرلینا چاہیے ۔اس معاہدے کے بعد یقینا پاکستان کو بھی الگ نئی سوچ کو اپناناہوگا پاکستان کے حکمران کس پالیسی پر عمل پیرا ہیں صرف اخبارات میں بیان دینے ،زبانی کلامی احتجاج سے مسلہ حل ہو جائے گا ہر گز نہیں بلکہ اس کے لئے قومی سطح پردا خلہ وخارجہ پالیسی کو تبدیل کرنا ہوگا امریکہ کی منافقانہ پالیسیوں کو مدنظر رکھ کر آگئے بڑھنا ہوگا ہم بحیثیت قوم ابھی تک اپنے اصل دشمن کا تعین ہی نہیں کر سکے کتنے افسوس کی بات ہے کہ امریکہ جیسا پاکستان دشمن ملک ہمارے حکمرانوں کا بہترین دوست اور مضبوط ترین اتحادی ہے جس نے ہر دور میں ہماری ملکی سلامتی کے ساتھ کھیلنے سے دریغ تک نہیں کیا وہ اپنے جنگی معاملات اور جرائم ہمارے کھاتے میں ڈالنا چاہتا ہے جس میں کافی حد تک وہ کامیاب ہو گیا ہے، اگر امریکہ ہمارا مخلص دوست ہوتا تومسلۂ کشمیرقیام پاکستان کے فوری بعد ہی حل ہو چکا ہوتا، دو جنگوں میں ہمارا مخالف نہ ہوتا،ڈرون حملوں سے پاکستان کی سلامتی کا جنازہ نہ نکالتا، عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کا الزام اس پر نہ لگتا۔ہمارے ارباب اقتدار نے غور کرنے کے باوجود سبق حاصل نہیں کیا کہ بھارت کی کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف امریکہ یا اقوام متحدہ نے کوئی اقدام نہیں کئے جبکہ کشمیریوں کی جان ومال کی حفاظت کرنے والے کشمیری حریت پسندوں کی جدجہد کو روکنے پر بھارت جب امریکہ کے سامنے واویلا کرتا ہے تو اس پر امریکہ بہادر فوری حرکت میں آجاتا ہے مولانا مسعود اظہر،مولانا فضل الرحمان خلیل،حافظ سعیدعالمی دہشت گرد قرار دے کرلشکر طیبہ، جیش محمد ،جماعتہ الدعوۃ پر فوری پابندی لگا دیتا ہے اس کے برعکس جمہوری اصولوں کی روشنی میں کشمیریوں کی رائے کے مطابق مسلہ کشمیر حل کروانے میں مجرمانہ خاموشی اختیار کر لیتا ہے آخر کیوں؟ الحاصل امریکہ کی دوغلی چال خطے کی امن وسلامتی کے لئے شدید خطرے کی گھنٹی بن گئی ہے جس کا مقصد پاکستان کو زچ کرنا ہے حالیہ امریکی صدر کا دورہ بھارت اسی چال کا حصہ ہے قومی سطح پرپاکستان کو اپنی پالیسیوں پراز سر نو غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 244230 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.