اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

اپنے وطن عزیز پاکستان میں تعلیمی اداروں کی بات کریں تو گلی گلی نگر نگر اسکول ہی اسکول نظر آ تے ہیں مجھے اسکول سے کوئی شکوہ نہیں ہے شکایت ہے تو کاروباری اسکولوں ہے جب سے قانون کا قتل ہوا وہ دن آج کا دن پاکستان کا مستقبل تباہ ہوتا جا رہا ہے کوئی پرسان حال نہیں اس دیس کا دنیا کے عوض ہم نے اپنے مستقبل کے معماروں پر تعلیم کے دروازے بند کر دئیے ہیں-

جس نے کبھی اسکول کا دروازہ نہیں کھولا آج اس کے ایک سے زائد اسکولوں کے درجنوں کیمپ ہیں ایسے لوگوں کا مقصد اسکول بنا کر دولت کمانا اور سچ کہوں سچ لکھوں تو عورت کے عزت سے کھیلنا ہوتا ہے۔

صبح ہوتے ہی ایک ہی علاقے کے بچیں درجنوں قسم کے یونیفارم میں اسکول جاتے نظر آتے ہیں ہونا تو چاہئیے تھا ایک علاقہ میں ایک اسکول ہوتا حکومتی سطح پر اسکی مکمل نگرانی ہوتی اساتذہ کو ٹائم کا پابند بنایا جاتا پرائمری کے لئے ایم اے گریجویٹ اساتذہ کا انتخاب ہوتا اسکول فیس کا نظام کنٹرول کیا جاتا امیر غریب کے اس تفریق کو ختم کیا جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر ان کرپٹ اور دولت کے پجاریوں کے سامنے اصلاح تعلیم کی باتیں کرنا بھینس کے آگے بین بجانا

نظام تعلیم میں اگر اسکول پر نظر کریں تو علاقے کے حساب سے فیس کا تقرر ہوتا ہے تین سو سے لیکر تیس ہزار تک فیس یہ سب کیوں ہوتا ہے کیوں ٰٰیہ ملک اس دلدل میں دھنستا جا رہا ہے سرکاری اسکول تباہ ہوچکے ہیں ٨ بجے حاضری کا وقت ہے اساتذہ ٩ بجے کے بعد تشریف لاتے ہیں تو طلباء کا کوئی پتا نہیں ہوتا اکثر سرکاری اسکولوں میں آوارہ کتے گھومتے ہیں تو بیشتر کی عمارتیں نشائیوں کے مسکن ایسے بھی اسکول ہیں جو کئی کئ دنوں تک کھلتے نہیں غیر حاضر استاد کی درخواست بنا اسک کے اطلاع کے لکھا یوا پرنسپل کے سامنے موجود ہوتا ہے جب صورت یہ ہوتی ہے تو انجام ہمارے سامنے ہیں-

پرائیویٹ اسکولوں میں جہاں فیس غریب کے دست رست سے باہر تو وہیں پر اکثر خواتین اساتذہ جو محض میٹرک پاس اور وہ بھی اسکول کی مہربانی سے اور انتظامیہ کیوں ایسے اساتذہ کا تقرر کرتی ہے ایک تو یہ تنخواہ بہت کم لیتے ہیں پندرہ سو روپے ماہانہ ارے کیا پڑھائیں گے ایسے لوگ کیا بنے گا پھر ھمارے مستقبل کا-

اساتذہ اور طلباء دونوں کا کھلے عام کلاس کے دوران موبائل اور اب سمارٹ فون سے انٹرنیٹ کا استعمال اول تو ہر دو پر پابند ہوں کہ موبائل لانا اسکول میں جرم ایک فون ہو اسکول کا ضروری بات کے اسی کا استعمال کیا جائے جب استاد اور طالب علم ایک دوسرے کا فون نمبر لیں اور میسج پر بات چیت کریں تو پھر لازم ہے کہ کلاس میں گپ شپ کا میلہ لگ جائے اور عزت احترام کا جنازہ نکل جائے قوم کا پیسہ تباہ بچے کا مستقبل تاریک ہو-

میٹرک پاس استاد ہو اور پہلی کلاس میں آکسفورڈ کی انگلش کی کتاب تو کیا پڑھنا کیا پڑھانا۔ سونے پر سھاگہ ٹیوشن سینٹرز جو استاد اسکول میں اردو پرھاتا ہے اسی نے گھر میں سینٹر بنایا ہوتا ہے ارے بھائی آپ اسکول میں کیاکرتے ہیں جو بچہ اضافی فیس دے کر آپ کے پاس آپ کے گھر آکر بھی وہی مضمون پڑھتا ہے-

سچ یہ کہ سب کاروبار ہے پڑھائی تو اب دفن کر چکے ھم اور ھمارے حکمران مل کر جی ہاں جرم میں ھم اپنے حکمرانوں کے ساتھ برابر کے شریک ہیں خدا کے دربار میں سب جواب دینا ھوگا صرف حکمران کی غلطی نہیں کبھی بھی کسی وزیر نے کسی کو مجبور نہیں کیا اسکول بنا کے کرپشن کرنے پر یہ سب ھم اپنے ساتھ خود کرتے چلے جارہے ہیں-

حکومت کی ناکردنیاں تو باہر از بیاں ہیں انتظامی معاملات صفر ہیں آج اگر حکمران نوٹس لیں اور قانون کے دائرے میں کام کریں پاکستان دیکھ لے گا چور کیسے باز آتا ہے اپنے دھندے سے دنیا کے ٹاپ یونیورسٹیز میں پاکستان کی کوئی بھی یونیورسٹی شامل نہیں افسوس صد افسوس-

مدارس پر بےبنیاد الزامات تو لگادئیے جاتے ہیں ان پاکیزہ مقامات پر کیچڑ تو اچھالا جاتا ہے مدارس کو حکومتی تحویل میں لینے کی باتیں تو کی جاتی ہیں مگر گلی گلی میں اسکول بنا کر دولت کے پجاریوں کو کیوں نہیں پوچھا جاتا ؟

کیا کارنامہ یے سرکاری اسکول کالج اور ہونیورسٹیز کا ؟ کیا وپی حال کرنا چاہتے ھو مدارس کا جو اپنے ادروں کا کر چکے ھو؟

جانتے ھو تم کالجز میں اسٹوڈنٹ کے پاس بیگ میں کیا ہوتا ہے؟ جانتے ہو پارٹی اور اسلحہ کے ذور پر لیکچرار کو ہراساں کیا جاتا ہے؟ جانتے ہو تمہارے اس مخلوط نظام کی وجہ سے اسکول کلاس سے عشق کی ابتداء ہوتی ہے؟ اسی وجہ سے اساتذہ اور اسٹوڈنٹ ایک دوسرے کو بری نظر سے دیکھتے ہیں؟

اسی وجہ سے لاکھوں بچیں بچیاں تعلیم سے دور ہیں انہی میں ھزاروں وہ بھی ہیں جو اس ملک کو کل کا روشن پاکستان بنا سکتے ہیں اس تاریکی سے وطن عزیز کو نکال سکتے ہیں بس تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے

مدارس کو اپنا کام کرنے دیں ان کی مدد نہیں کرتے تو خدا کے لئیے الزامات بھی مت لگائیں کیا جانتے ہیں آپ مدارس کے در و دیوار میں پڑھنے والے اسکول کالجز کے امتحانات میں اس دھاندلی کے باوجود بھی ایک نہیں تین کےتین پوزیشن لی جاتے ہیں اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جسکو یقین نہیں وہ ٢٠٠٩ ٢٠١٠ انٹر کراچی بورڈ کے نتائج دیکھ لیں -

اپنے پیر مت کاٹیں اب بھی وقت ہے ھوش کے ناخن لیں ھر استاد اپنی ذمہ داری سمجھ کے ایک طالب علم کو انسان بنا دیں آج نہیں کل تو روشن ہوگا پاکستان-
M.ABID Ahsani
About the Author: M.ABID Ahsani Read More Articles by M.ABID Ahsani: 16 Articles with 14668 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.