تلخ خبر !

ایک تحقیق کے نتیجے میں ایک دلچسپ تجزیہ سامنے آیا کہ قارئین شاید اچھی خبروں کے عادی نہیں رہے ۔یہ تلخ تجربہ ہے ۔دی سٹی رپورٹر نامی خبروں کی ایک ویب سائٹ نے فیصلہ کیا کہ ایک دن کیلئے صرف اچھی ہی خبریں شائع کریں گے تاہم ایسا کرنے سے یہ ویب سائٹ دوتہائی قارئین سے ہاتھ دھو بیٹھی ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ہم بھی کسی اچھی خبر کے بجائے تلخ خبروں کو پڑھنے کے عادی ہوچکے ہیں ، منفی معلومات کے گورکھ جال میں پھنسے ہونے کی وجہ سے قارئین کی اکثریت تلخ خبروں سے اچھی خبر دریافت کرنے کی کوشش میں کوشاں رہتی ہے۔آپ اگر اس کا ذاتی تجربہ کرنا چائیں توکسی بھی نیوز ہاکر اسٹال پر صبح سویرے مختلف افراد کو دیکھیں گے وہ ایسے اخبارات کی خریداری میں دل چسپی رکھتے ہیں جس میں مختلف حادثات میں ہلاک ہونے والوں کی تصاویر ہوں ، کسی گینگ وار کی لڑائی کی خبر ہیڈ نیوز ہو یا پھر ملک میں کسی بھی ہولناک واقعے کی نیوز کو ہیڈ لائن بنایا گیا ہو اور ایسے اخبارات ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوجاتے ہیں۔پشاور سانحے جیسے لاتعداد سانحات میں آپ تجزیہ کریں کہ تلخ واقعات کے تمام تجزیوں میں بیک گراؤنڈ میں ماتمی میوزک چل رہا ہوتا ہے جو سامعین و ناظرین کے دل و دماغ پر اثر پذیر ہوتا ہے اور جہاں واقعات کی شدت ہوتی ہے وہاں اس طرز عمل سے انسانی جذبات مغلوب ہو کر آنسوؤں کی شکل بہہ نکلتے ہیں۔بڑی مشہور مثال ہے کہ" اگر کسی کتے نے انسان کو کاٹ لیا تو یہ خبر نہیں بنتی بلکہ اگر کسی انسان نے کتے کو کاٹ لیا ہے تو یہ خبر بنتی ہے۔" ایک ویب سائٹ کی نائب مدیر وکٹوریہ نیکرز سودا نے فیس بک پر لکھا "ہم نے خبروں میں مثبت پہلو ڈھونڈنے کی کوشش کی اور میرے خیال میں ہم اس میں کامیاب بھی رہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ کسی کو اچھی خبروں کی ضرورت نہیں ، یہ ایک مسئلہ ہیـ"۔تھر کے واقعے کی مثال دیکھ لیں کہ حکومت کی توجہ اس علاقے پر نہیں تھی لیکن میڈیا نے تلخ رپورٹنگ کی تو ہر سیاسی جماعت کے مذمتی بیانات شروع ہوگئے ، امدای کیمپ لگنا شروع ہوگئے ۔روزانہ رپورٹ آنے لگی کہ آج اتنے بچے ہلاک ہوگئے۔حکومت کبھی کیا وضاحت دے تو کبھی بوکھلائٹ میں کیا بیان دے ۔ تلخ خبر سے خبر بنتی چلی گئی اور پھر اسی طرح آئی ڈی پیز کے مسائل اہم خبر نہیں بن رہی لیکن جب آئی ڈی پیز نے امدادی سامان میں تاخیرپر احتجاج شروع کیا اور کچھ آئی ڈی پیز زخمی و ہلاک ہوئے تو تلخ خبر توکہ کا مرکز بنی کہ یہ حکومت کی نااہلی ہے ، صوبائی کہنے لگی کہ وفاقی حکومت کی نااہلی ہے۔روزانہ ٹریفک حادثے ہوتے رہتے ہیں ۔ بین الاصوبائی شاہراؤں کی حالت زار کسی سے چھپی نہیں ، لیکن جب کوئی ہولناک حادثہ پیش آجاتا ہے تو وہی گھسٹے پٹے بیانات کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اس کے بعد پھر خاموشی۔بالخصوص کراچی میں مخصوص طبقات مخصوص اخبارات اس لئے خریدتے ہیں کیونکہ ان اخبارات میں ان کے مخالف کی تلخ خبریں شائع ہوتی ہیں۔ ان کی ٹیبل اسٹوریوں کی بنا پر ایک مخصوص ماینڈ سیٹ بننا شروع ہوجاتا ہے اور اس اخبار کی ہر خبر کو سچ سمجھ کر دوسرے طبقے کے خلاف من و عن آرا ء تخلیق کرلی جاتی ہے۔تلخ خبروں کے تجربے میں اگر ہم دیکھیں تو قارئین ، سامعین یا ناظرین وہ دیکھنا چاہتے ہیں جس میں کوئی ’مصالحہ‘ ہو۔ لیاری میں اگر کوئی اچھا کام ہورہا ہوگا تو وہ کوئی نہیں جاننا چاہیے گا لیکن سب یہ ضرور جاننا چاہیں گے کہ عزیر بلوچ کی گرفتاری کے بعد اب کیا ہوگا ؟۔قومی ایکشن پلان میں اچھی خبر ملی کہ تمام جماعتیں یکجا ہوئیں ہیں لیکن ابھی خبر کی سیاہی خشک بھی نہیں ہونے پائی تھی کہ لمبی لمبی پریس کانفرنسیں ، بیانات ، ریلیاں ، جلوس ہونا شروع ہوگئے کہ ہم تو فلاں عمل کے مخالف تھے ، تلخ گھونٹ یا زہر پی کر مان رہے ہیں۔اچھی خبر کے انتظار میں عمران خان دھرنوں کی سیاست سے واپس ہوئے نہیں تھے کہ خبر تلاش کی جانے لگی کہ حکومت سے مذاکرات ناکام ہوگئے تو پھر کیا ہوگا ؟۔ پھر تلخ نواہی کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا کہ وزیر اعظم کو دوبارہ تمام سیاسی جماعتوں کی اے پی سی بلانی پڑی کہ ہم دہشت گردی کے خلاف یکسو ہونے جا رہے ہیں ۔ نئی آئینی ترمیم کے ذریعے اچھی خبر عوام میں جگہ نہیں بنا سکی کہ آخر 35سالہ جنگ کا فیصلہ دو سال میں خصوصی عدالتوں کے قیام سے ہوجائے گا ؟۔کراچی میں دوسال سے آپریشن جاری ہے ۔ پہلے یہ اچھی خبر تھی پھر تلخ خبر بن گئی کہ اس آپریشن کو مخصوص حلقوں کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔کسی جماعت کا اتحاد اچھی خبر تھی لیکن مخالفت تلخ خبر بن جاتی ہے کہ اﷲ خیر کرے اب کیا ہوگا ؟۔پٹرولیم میں مسلسل کمی اچھی خبر رہی ، لیکن عوام تک اس کا ریلیف نہیں پہنچنا ایک تلخ خبر بن گئی کہ ہماری بسیں تو سی این جی پر چل رہی ہیں ، ایل پی جی کی نرخ آسمانوں کو چھو رہے ہیں ، مہینے میں ایک بار پٹرول کی قیمت بڑھ جانے پر آٹے ،گھی ، گوشت اور سبزی فروٹ کی قیمتیں آسمان پر پہنچا دیں جاتی ہیں کہ ٹرانسپوٹرز نے کرائیے بڑھا دئیے کیونکہ ڈیزل مہنگا ہوگیا ہے لیکن ، تلخ خبر یہ ہے کہ مسلسل پٹرول ، ڈیزل کی کمی کے باوجود صورتحال جوں کہ توں ہے ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا کہ عوام کو اشیا ء خورد نوش کی قیمتوں میں کمی کا ریلیف کیوں نہیں مل رہا۔افغان مہاجرین کی دوسری نسل سے تیسری نسل پاکستان میں پروان چڑھ رہی ہے ، لیکن ان کی واپسی کی اچھی خبر نہیں مل رہی کہ جب نیٹو کا پرچم سرنگوں ہوگیا امریکہ واپس ہورہا ہے تو تلخ خبر آئی کہ امریکہ ایک سال اور رہے گا اور افغان مہاجرین پاکستان میں رہیں گے ۔دراصل ہم اچھی خبروں کے عادی نہیں رہے ، ہمارے کالم ، ہماری شاعری ، ہمارے رشتے سب تلخ ہوتے جار ہے ہیں کیونکہ ہم اچھی خبروں کے عادی نہیں رہے۔سندھ میں کوئلے کا خزانہ دریافت ہوا اچھی خبر تھی لیکن تلخ بنا دی گئی کہ سیاست کینذر ہوگئی ، بلوچستان میں قدرت نے سونے ، چاندی کے ذخائر دئیے اچھی خبر تھی لیکن تلخ خبر یہ بنی کہ حکومت فائدہ نہیں اٹھا پا رہی ۔ ایٹم بم بنانا اچھی خبر بنی لیکن ایٹمی بجلی گھر کی تنصیب پر اسٹے لے لیا ، عدلیہ نے اجازت دے دی اچھی خبر بنی لیکن ایٹمی طاقت بجلی کی نعمت سے کب تک محروم رہے گا یہ تلخ فیصلے ابھی تک سیاست کی بھینٹ ہیں۔ کالا باغ ڈیم بنے گا تو ایسا ہو جائے گا ویسا ہوجائے گا ، لیکن تلخ خبر رہی کہ تین صوبے راضی نہیں۔اچھی خبر کی تلاش میں کہاں جائیں کس سے اچھی خبر ملے ۔تعلیم سب کی ضرورت ہے لیکن سیاست کی نذر ہو جاتی ہے تو جو کام حکومت کا کرنے کا ہوتا ہے وہ ایک بلڈر کرتا ہے کہ دو یونیورسٹی وہ بنائے گا ۔ گورنر سندھ نے تین یونی ورسٹی بنانیکی اجازت دیدی ایک نواب شاہ ، ایک حیدرآباد اور ایک کراچی میں ۔ لیکن تلخ خبر یہ ہے کہ بنیادی تعلیم کے ابتدائی اسکول کہاں ہیں جہاں بچے تعلیم حاصل کرکے یونیورسٹیوں میں جا سکیں ۔ پرائمری اسکولوں کو اپنی زمینوں پر بنا کر جاگیر دار اور وڈیرے اپنے اوطاق بنا لیتے ہیں ، ٹیچرز سیاسی بنیادوں پر بھرتی کرکے الیکشن چوری کرلیتے ہیں لیکن اس پر کسی کی توجہ نہیں کہ پہلے ابتدائی تعلیم کا اہتمام تو کریں ۔ جب پس ماندہ علاقوں میں سرکاری اسکول ہی نہیں ہونگے تو بچے مدارس میں ہی جائیں گے جہاں مفت تعلیم ملتی ہے لیکن تلخ خبر یہ بن جاتی ہے کہ مدارس پر شکوک کرکے قومی دھارے میں لانے کی بات کی جاتی ہے تو ایک مولانا نے بڑا اچھا سوال کیا کہ یہ مدارس کو قومی دھارے میں لانے سے کیا مراد ہے ؟۔مدارس کے خلاف اگر کوئی بین الاقوامی ایجنڈا ہے تو اس تلخ حقیقت کو اچھی خبر کیوں نہیں بناتے کہ ہر علاقے میں ابتدائی تعلیم کے ادارے کھولے جائیں گے ۔ پرائمری سرکاری اسکولوں کی حالت زار سے کیا کوئی واقف نہیں ہے ۔ دوہرے طرز تعلیم سے کوئی واقف نہیں ہے یہ سب تلخ سچائیاں ہیں لیکن ایسے دور کرکے اچھی خبر کون دیگا۔تلخ خبریں ہم پر حاوی ہوچکی ہیں ہم اس تلخی کے زہر کو پیتے جا رہیہیں اور اپنی آنے والی نسل میں یہ زہر منتقل کرتے جا رہے ہیں ، ہم خوبصورت عمارتوں کے ماڈل تو بنا لیتے ہیں لیکن اس کی بنیادیں نہیں رکھتے ، ہم پالیساں بنا لیتے ہیں لیکن اس پر عمل در آمد نہیں کرتے ۔ہم سیاسی وابستگیوں پر بڑھ چڑھ کر جان نچاور کرتے ہیں لیکن ملکی مفاد پر یکجا نہیں ہوتے بلکہ ان کے تحفظات کو دور کرنے کیلئے اداروں کو بھی تلخ گھونٹ پینے پڑتے ہیں۔ تلخ معاشرے کی تلخ عوام اگر خوشی کے کوئی پل تلاش کرنا چاہتے ہیں تو رائیں مسدود کردی جاتی ہیں ۔ہم اچھی خبر سننا چاہتے ہیں لیکن عادت نہیں رہی ۔یہ عادت جب ختم ہوگی جب ہم تلخ خبر تلاش نہ کریں ۔تلخی ختم کرنے کے لئے شیرینی کی ضرورت ہے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 652920 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.