قیادت کی ذمہ داریاں

 آج مسلمان پرمسلط پریشانیاں اپنے عروج پر ہیں ۔ہم ان پریشانیوں کاحل دنیا کی مختلف اور متعدددرسگاہوں میں تلاش کررہے ہیں۔کبھی ہمیں سیاسی اقتدار میں علاج نظر آتاہے کبھی تجارت میں اور اکثر لوگوں کا خیال ہے علم حاصل کرووہی ساری مشکلات اور پریشانیوں سے نجات دلائے گا۔اگرچہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قوم مسلم میں ایسے بہت سے اہل علم ،دانشور لوگ موجود ہیں جوخود اس پریشانی کا ایک حصہ ہیں ۔میری رائے یہ ہے کہ محض علم مسلمانوں کوزبوں حالی کی ذلت سے نہیں نکال سکتا ۔پوری دنیا اس بات کا اعتراف کرتی ہے اور تاریخ بھی اس بات کی شاہد ہے کہ اسلام امن وسلامتی کا مذہب ہے۔جس کاا عتراف دیگر مذاہب کے غیرمسلم علماء اور دانشوروں نے بھی کیاہے ۔نجانے کیوں اہل اسلام نے دہشت گردوں کو اپنی صفوں میں شامل کرلیا؟کسی بھی قوم کے نظریات ،تہذیت تمدن اور معاشرت کی ترقی یا زوال کی ذمہ داری ہمیشہ قیادت کے سرہواکرتی ہے۔قیادت مخلص،اہل اور ایماندار ہوتوقومیں کبھی زوال پزیر نہیں ہوتیں جبکہ نااہل ،کرپٹ اور جاہل قیادت کے ہوتے کوئی قوم چاہے کتنی ہی ہنرمند اور محنتی ہوترقی نہیں کرسکتی۔جب تک مسلمان قیادت سچے اور سُچے قائدین کے ہاتھ رہی تب تک اسلام امن و سلامتی،اخوت و مساوات اور عدل وانصاف کا پیغام بن کر دنیا کے کونے کونے میں انسانیت کے اُصول متعارف کرواتا انسانی فلاح کا اہتمام کرتا رہا ۔سوال یہ ہے کہ آج مسلمان کو دنیا میں دہشتگرد کے طور پر جانا جاتا ہے تواس بدحالی کی ذمہ داری کس کے سر ہے؟میدان سیاست کے شیرہوں،تیربردارشکاری ہوں،کھلاڑی ہوں یا مذہبی قائدین ہوں سب کے سب اسلام کے ٹھیکدار ہیں ۔پاکستان کا آئین بھی قرآن وسنت کے تابے ہے اور سود کھانے والے سرمایہ دار حکمران فتویے بھی جاری کرتے ہیں ۔ٹریفک سگنل توڑنے والوں پر گناہ کبیرہ کافتویٰ جاری ہوجاتا ہے جبکہ سود کوکبھی سروس چارجز اور کبھی شراکت داری کا نام دے حلال کیے جاتے ہیں۔بڑے بڑے ٹیڈوں والے مولویوں کی موجودگی میں اسمبلی میں شرع سود میں اضافے یا کمی پر بحث کی جاتی پر مجال ہے جواسلام کے نام پرووٹ لے کر ممبر اسمبلی بننے والے سود کے خلاف ایک لفظ بھی بولیں ۔عمران خان کی شادی پر تو ٹوٹل میڈیا مداری بن جاتا ہے جبکہ بڑے بڑے مذہبی اسکالر زکبھی پردہ سکرین پرسود کے خلاف بات نہیں کرتے ۔دنیابھر کی قیادت کرنے والی اقوام متحدہ کو وجود میں آئے کئی دہائیاں بیت چکی ہیں لیکن آج تک مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہے۔24اکتوبر 1945ء کو اقوام متحدہ کا باقاعدہ قیام وجود میں آیا۔بین الاقوامی تنظیم کے ابتدائی ارکان 150تھے جن کی تعداد وقت کے ساتھ بڑھتی رہی۔اقوام متحدہ کے چارٹر کے بنیادی اُصول و مقاصدیہ تھے(1)بنی نوع انسان کی آئندہ نسلوں کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچانا(2)قوموں کے باہمی تنازعات کے حل کیلئے بین الاقوامی سطح پر موثر قانون سازی کرنا تاکہ امن کولاحق خطرات اور جارحیت کو روکا جا سکے(3)انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے عالمی سطح پر بلاامتیاز رنگ و نسل مثبت اقدامات کرنا(4)انسانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا (5)ایک دوسرے کی آزادی اور خود مختاری کا احترام کرتے ہوئے قوموں کے درمیان دوستی کو فروغ دینا اور ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی سے روکنا۔آج اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی تعداد 192کے قریب ہے۔دنیا کے200کے قریب امیر اور طاقتور ممالک مل کر آدھی صدی سے زیادہ وقت گزر جانے کے باوجود دنیا میں امن قائم کرسکے اور نہ ہی انسانیت کی فلاح و بہبود میں پیش رفت ہوسکی۔آج پوری دنیا دہشتگردی اور بدامنی کی لپیٹ میں ہے ۔ہر کوئی قیام امن کی کوششوں میں مصروف ہے۔زمین سے فضا اور فضا سے پانی کی گہرایؤں تک دہشتگردی کے خلاف جنگ جاری ہے ۔ایک دوسرے کو دہشتگردی کا ذمہ دار قرار دے کر ہر کوئی اپنے آپ کو درست ثابت کرنے کی کوشش میں ہے لیکن کبھی کسی نے ا صل فارمولے پر عمل کی کوشش نہیں کی ۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلم ممالک بُری طرح دہشتگری کی لپیٹ میں ہیں ۔آسان اور ضروری اقدامات نہیں اُٹھا رہے ۔پوری دنیا دہشتگردی کے خلاف ہے پھر بھی دہشتگردوں کی کمر توڑنے کا دعویٰ کرنے والا امریکی محکمہ خارجہ اس بات کا اعتراف کررہاہے کہ دہشتگرد پہلے سے زیادہ منظم ہوچکے ہیں ۔امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں ماضی کے اس دعوے کی تردید کردی گئی ہے کہ دہشتگردی کے خلاف دیگر القائدہ رہنماؤں کے ساتھ اُسامہ بن لادن کی موت کے بعد القائدہ کی کمر ٹوٹ گئی ہے ۔اُسامہ بن لادن کی موت کے بعد بڑی کامیابی کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اب دہشتگردی کو جڑسے اکھاڑنے میں دیر نہیں لگے گی ۔امریکی محکمہ خارجہ کی حالیہ رپورٹ میں میں کہا گیا ہے کہ دنیا اب بھی دہشتگردی کی لپیٹ میں ہے ۔رپورٹ کے مطابق القائدہ اب نئی حکمت عملی کے تحت کام کررہی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان اور عراق میں القائدہ نے چھوٹے چھوٹے خودمختار گروپ تشکیل دے دیئے ہیں،جو پہلے سے زیادہ متحرک اور سنگین نوعیت کی دہشتگردی کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ان گروپوں نے پشاور، چمن،افریقہ، صومالیہ شام اورعراق میں حالیہ دنوں میں موثر کارروائیاں بھی کی ہیں۔ہمیشہ کی طرح تازہ رپورٹ میں بھی فرقہ واریت کو موضوع بناکر مسلم ممالک کودہشتگرد ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔رپورٹ میں عراق،یمن اور پاکستان کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مسلم دنیا کے دو اہم ترین فرقوں کے درمیان گشیدگی نے القائدہ کو تقویت بخشی ہے ۔القائدہ ہو داعش یا پھر کوئی اورجب تک مسلمان اﷲ تعالیٰ کے خلاف ہونے والی جنگ سے باہر نہیں نکلتے امن قائم نہیں ہوسکتا ۔چاہے جنگ کرو یا مذاکرات۔جہاں جہاں سودی نظام چلے کا بدمنی نہیں جائے گی ۔مثال کے طور پر کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھاآج دہشتگردی ،بھتہ خوری بدمنی سمیت قتل و غارت گری کے نرخے میں بُری طرح پھنس چکا ہے ۔کبھی کسی نے سوچا کہ انتظامیہ کی بھر پور کوششوں کے باوجود کراچی کا امن کیوں بحال نہیں ہوا؟جب تک کراچی کے تمام مالیاتی ادارے سودی نظام کے تحت چل رہے ہیں تب تک کراچی کا امن بحال نہیں ہوسکتا۔قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’اے ایمان والوں اﷲ سے ڈرو،اور چھوڑ دو جو کچھ سود میں سے باقی رہ گیا اگر تم مومن ہو،پھر اگر نہیں چھوڑتے تو تیار ہوجاؤلڑنے کیلئے اﷲ اور اُس کے رسولﷺسے(سورۃ البقرہ )‘‘سود کو اسلام میں حرام قراردیا گیا ہے ۔یہ خیال کہ سود سے مال میں اضافہ ہوگا یہ بھی ایک خام خیالی ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ سود کو مٹاتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے ۔سود سے بظاہر تومال میں اضافہ ہوتا ہے لیکن درحقیقت یہ اضافہ دنیا وآخرت کا بہت بڑاخسارہ ہے ۔دنیا میں خسارے کا مطلب یہ ہے کہ سود کی کمائی انسان کے ایسے کاموں میں لگ جاتی ہے جن میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا ایسے امراض اور ناجائز مقدمات نیز مختلف قسم کی جوحادثاتی صورتیں ہیں۔ان میں وہ سودی روپیہ لگ جاتا ہے اور بندے کو مختلف الجھنوں میں پھنسا دیتا ہے۔اورآخرت کا خسارہ یہ ہے کہ سود کا لین دین کرنے والوں کے اعمال مثلا نماز ،روزہ،حج۔عمرہ اور زکواۃ وصدقات سب ضائع ہوجائیں گے۔ سودکا گناہ اتنا ہے کہ سرکاردوعالم علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو ماں کے ساتھ زنا کرنے سے بھی بدتر فعل قرار دیا ہے اس میں سود لینے والے کوہی تخصیص نہیں بلکہ سود لینے والا،سودی معاملہ کی کتاب کرنے والااور اس معاملہ کا گواہ بننے والاسب برابرہیں نیزان سب پر سرکار دوعالم ؐنے لعنت فرمائی ہے جیسا کہ صحیح حدیث ہے کہ ’’رسول اﷲﷺنے لعنت فرمائی سود کھانے والے اور سوددینے والے اورسودی معاملہ کو لکھنے والے اور اس کے گواہ بننے والوں پراور فرمایا سب برابر ہیں (صیحح مسلم)‘‘لہٰذا تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ خود بھی اس لعنت سے بچیں اور دوسروں کو بھی بچانے کی کوشش کریں ۔پاکستان کے حکمرا ن قوم کے نام پر سود پر قرضہ لے کرپوری قوم کوسودی نظام کی دلدل میں دھکیل چکے ہیں ۔اگر اب بھی حکومت نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو انجام دنیا و آخرت میں تباہی و بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا۔بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ ہوعدلیہ یا فوج کے خلاف کسی قسم کی سازش ہو تو پوری قوم احتجاج کرنے لگ جاتی ہے لیکن افسوس کے ہمارے حکمران ہمیں اﷲ تعالیٰ اور رسول اﷲ ﷺ کے خلاف جنگ میں بطور سپاہی استعمال کررہے ہیں اور ہم خاموشی سے اﷲ تعالیٰ اور رسول اﷲ ﷺ کے خلاف جنگ کا حصہ بنے ہوئے ہیں ۔قارئین محترم راقم اس سے قبل بھی سود ی نظام سے ہونے والے بہت سے نقصانات پر بات کرچکاہے لیکن قیام امن کا جو فامولا سید عرفان احمد شاہ صاحب نے ایک جملے میں بتا دیا اس سے انکار میرے تو کیا کسی کے بھی بس کی بات نہیں ۔،خاص طور پر کراچی میں قیام امن کے حوالے شاہ صاحب نے بتا یا کہ سودی نظام کے خاتمے کے ساتھ ساتھ حکومت سندھ اور اہل کراچی سمندر کو صاف ستھرا رکھیں تو بہت جلد امن قائم ہوجائے گا کیونکہ سمندر صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کے حکم سے تھمے ہوئے ہیں ۔قیام امن کا فامولا بہت سیدھا اور آسان ہے ۔اﷲ تعالیٰ اور رسول اﷲﷺ کے خلاف جنگ سے توبہ کرو اور دیکھو امن کتنی جلدی قائم ہوتا ہے۔۔اگر حکومت قیام امن کیلئے مخلص ہے تو پھر فوری طور پر مالیاتی ادارں سے سودی نظام ختم کرکے قرآن و سنت کا نظام رائج کیا جائے جس میں فلاح ہے جبکہ سود دنیا و آخرت کے خسارے کے سوا کچھ نہیں۔
Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 508098 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.