ابتدا کی انتہا سے ملاقات

ایک حدیث کے مطابق دنیا میں جتنے قتل ہوں گے اس کے عذاب کا ایک حصہ قابیل کو جائے گا کہ اس نے دنیا میں پہلا قتل کیا تھا اس لیے جو جس برائی کی ابتدا کرے گا وہ برائی جب تک دنیا میں اپنے اثرات دکھائے گی اس وقت تک عذاب کا ایک حصہ اس آغاز کرنے والے کو بھی ملے گا ۔

نئی دہلی میں اوبامہ اور نریندر موری کی جو ملاقات ہوئی ہے وہ در اصل ابتدا کی ایک انتہا سے ملاقات ہے ۔یہ ملاقات ویسے تو دو ملکوں کے رہنماؤں کی ہے لیکن اصلاَیہ دہشت گردی کی ابتدا کرنے والے ایک ملک کے سربراہ کی دہشت گردی کی انتہا کرنے والے دوسرے ملک کے سربراہ سے ملاقات ہے ۔ بیسویں صدی کے اوائل میں ہیروشیما اور ناگا ساکی میں آن واحد میں لاکھوں انسانوں کو زندہ بھوننے والے آج امن و امان کے چیمپین بن کر پوری دنیا کو انسداد دہشت گردی اور امن وامان کا سبق پڑھا رہے ہیں دوسری طرف قیام پاکستان سے اب تک ہندو مسلم فسادات میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کرنے والے اور کشمیر میں لاکھوں بے قصور شہریوں کو قتل کرنے ہزاروں خواتین کی بے حرمتی کرنے والے دہشت گردی کی انتہا تک جانے والے ملک بھارت کے سربراہ ہیں جو بڑے دھڑلے سے مشترکہ بیان جاری کررہے ہیں بھارت اور امریکا دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جدو جہد پر یقین رکھتے ہیں ۔ یہ وہی نریندر موری ہیں جن پر مسلمانوں کا قتل عام کروانے کے سلسلے میں امریکا نے ان کی اپنے ملک میں داخلے پر پابندی لگائی ہوئی تھی ،یعنی نریندر موری کی دہشت گردی کو خود امریکا نے تسلیم کیا ہوا تھا ،لیکن اب جب بین الاقوامی سیاسی حالات تبدیل ہوئے تو جو لوگ کل تک امریکا کے لیے ناخوب تھے وہی اب خوب ہو گئے ۔

امریکا دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کی ابتدا ہی سنگین قسم کی دہشت گردی سے ہوئی،اٹھارویں اور انیسویں صدی کے دوران اس خطے کے اصلی باشندوں یعنی ریڈ انڈین پر مظالم کے جو پہاڑ توڑے گئے اور انھیں جس طرح گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا اور انھیں ان کے اپنے ملک سے نکال دیا گیا اور پھر امریکا( ملک) کی بنیاد رکھی گئی اس کی کوئی اور مثال دنیا میں نہیں ہے ۔اب جس ملک کی بنیاد ہی دہشت گردی پر ہو اس کے انگ انگ میں دہشت گردی بھری ہوئی ہو تو اس سے دنیا کو خیر کی توقع نہیں رکھنا چاہیے ۔امریکی دہشت گردی کی فہرست بہت لمبی ہے ،عراق پر ایٹمی آلات رکھنے کا جھوٹا الزام لگاکر اس پر عالمی پابندیاں لگوائیں جس کے نتیجے میں دس لاکھ عراقی بچے دودھ نہ ملنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے ،ویت نام کی جنگ میں لاکھوں ویت نامیوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا ،اور پھر تازہ واقعہ افغانستان کا ہے ،تیرہ سالہ جنگ میں لاکھوں افغانیوں کا خون امریکا کے دامن کو آج بھی لال کیے ہوئے ہے ان تمام روح فرسا سانحات کو دہشتگردی کے علاوہ اور کیا نام دیا جاسکتا ہے ۔

پچھلے چار چھ ماہ سے بھارت خود جس طرح سرحدوں پر دہشت گردی کررہا ہے اور اب تک سیکڑوں پاکستانی سویلین اور فوجیوں کو شہید کرچکا ہے وہ امریکا سمیت مغربی دنیا کو نظر نہیں آتا۔بھارت کی اس کارروائی کو ایک مثال کے ذریعے سے سمجھا جا سکتا ہے ۔ہمارے شہر کراچی میں ایم کیو ایم کی تشکیل سے پہلے ہر محلے میں کچھ بدمعاش اور بد قماش قسم کے لوگ رہتے تھے جن سے محلے والے عموماَ پریشان رہتے تھے ۔اور ہر آدمی ان سے اپنی عزت بچا کر رکھنے کی کوشش کرتا تھا ۔ایم کیو ایم کے قیام کے جہاں اور فوائد ہوئے ہیں وہاں ایک سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ یہ محلے کی چھوٹی بڑی بدمعاشیاں اور بدمعاش دونوں ختم ہو گئے ،بہر حال ذکر ہو رہا تھا ان بدمعاشوں کے رویے کا کہ جب ان کے برابر کا کوئی فرد ان سے ٹکرا جاتا تو یہ اس سے مصالحت کر لیتے ،اور اپنے سے کمزور لوگوں کو پولیس اور عدالت کے چکر میں پھنسانے کے لیے یہ خود ان سے لڑائی جھگڑا کر کے اپنے ہتھیار سے اپنے ہی آپ کو زخمی کر کے تھانے پہنچ جاتے اور اس مظلوم شخص کے خلاف مقدمہ درج کرادیتے ۔اب وہ بے چارہ ہر جگہ اپنی صفائیاں پیش کرتا پھررہا ہوتا یہی حال امریکا کا ہے اس کی کئی مثالیں موجود ہیں بھارت کا معاملہ بھی کچھ اس ہی طرح کا ہے پہلے خود سرحدوں کی خلاف ورزی کرتا ہے پھر جب اسے منہ توڑ جواب دیا جاتا ہے تو پوری دنیا میں شور مچاتا ہے بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے بڑے واضح ثبوت موجود ہیں ،سانحہ پشاور کے ڈانڈے بھی کچھ کچھ بھارت سے ہی جا کر ملتے ہیں ۔

سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کو پیر کے اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ آرمی چیف نے اپنے دورہ امریکا کے دوران امریکا کو بھارتی مداخلت کے ثبوت پیش کردیے تھے اور اس حوالے سے امریکا نے کچھ یقین دہانیاں بھی کروائی تھیں ۔لیکن آج بھارتی یوم جمہوریہ کی تقریب میں اوبامہ نے نریندر مور کی لہہ میں لہہ ملا کر وہی پرانے گھسے پٹے مطالبے کو دہرایا ہے کہ جماعت الدعوہ پر پابندی عائد کی جائے ،بمبئی سانحے کے مجرموں کو سزا دی جائے اور ان دونوں رہنماؤں نے دہشت گردی کے خلاف مل کر جدوجہد کا اعلان بھی کیا اس کے علاوہ دفاعی ہتھیاروں کے حوالے سے بھی کچھ معاہدات ہوئے ہیں چارسو ارب روپئے کی امداد کا اعلان کے گیا ہے -

یہ تمام امریکی عنایات کیا اس لیے ہے کہ امریکا بھارت کو چین کے خلاف تیار کرنا چاہتا ہے ،ایسا نہیں ہے بھارت کے پاس چین کے خلاف کسی اقدام کی صلاحیت ہے نہ ہمت اس کی یہ ساری تیاریاں پاکستان کے خلاف ہے ،امریکا بھی یہ بات اچھی طرح جانتا اور سمجھتا ہے اسی لیے امریکا نے پاکستان کی طرف سے آنکھیں پھیر لی ہیں ۔یا یہ سب کچھ پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لیے ہو رہا ہے کہ اب شاید یہ پالیسی کچھ تبدیل ہورہی ہو کہ بھارت کو افغانستان میں کوئی رول دیا جائے اگر ایسا ہے تو پھر انڈیا کے دس کونسلیٹ وہاں کیا کررہے ہیں ،یہ بھی سننے اور پڑھنے میں آیا ہے کہ افغان فوجیوں کی تربیت جو پہلے بھارت کو کرنا تھا اب وہ پاکستانی فوج کرے گی یعنی اب وہ طالبان جو تیرہ برس سے امریکا کے خلاف جہاد کررہے تھے ان سے لڑنے کے لیے افغان فوج کو پاکستان تربیت دے گا اس سے کیا پیغام جائے گا جب کے اچھے اور برے طالبان کی تمیز پہلے ہی مٹادی گئی ہے ۔زندگی کے ہر شعبے میں اچھے اور برے لوگ موجود ہوتے ہیں ہر قوم میں اچھے اور برے ہوتے ہیں لیکن طالبان میں اب یہ تمیز ایک منصوبے کے تحت ختم کردی گئی ۔

اوبامہ کا دورہ بھارت کثیر الجہتی مقاصد رکھتا ہے کہ ایک طرف تو چین کو ڈرایا اور سہمایا جائے کہ آنے والے دور میں آپ کے لیے سب کچھ اچھا نہیں ہوگا دوسری طرف افغانستان میں بھارت کا کردار محدود ہونے اور اربوں روپئے کی سرمایہ کاری رک جانے کے خطرے کے پیش نظر بھارت کی بھی کچھ للو چپو کرنا ضروری ہے تیسری طرف پاکستان کو یہ پیغام دینا ہے کہ اگر افغانستان میں امریکی مفادات کا تحفظ نہ کیا گیا اور یہ امریکی مقاصد کی تکمیل میں کوئی کمی ہوئی تو بھارت کی فوجیں تیار ہیں ۔اس وقت پاکستان اپنے داخلی مسائل میں بری طرح الجھا ہوا ہے ،ضرورت اس بات کی ہے کے ہم اپنے اندر کے معاملات ٹھیک کر لیں مجرموں کو پھانسی دینے کا جو سلسلہ بڑے زور شور سے شروع ہوا تھا وہ سست پڑتا جا رہا ہے اب تو جیل سپرنٹنڈٹ بھی عدالتی احکامات کی دھجیاں اڑا رہے ہیں جب ان کے پاس ڈیتھ وارنٹ جاتا ہے تو وہ اسے لینے سے انکار کر دیتا ہے ،یہ صرف ایک مثال ہے ۔بیرونی سازشوں سے نپٹنے کے لیے ضروری ہے کہ داخلی صورتحال تسلی بخش ہو۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 41 Articles with 37502 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.