پاکستانی معاشرے میں قدروں کا زوال

؂ مقید کردیا سپیروں نے سانپوں کو یہ کہہ کر
کہ اب انسان کو انسان سے ڈسوانے کا موسم ہے
اعلیٰ اخلاقی و روحانی اقدار کسی بھی معاشرے کا طرہِ امتیاز ہوتی ہیں اور اقدار اس سوچ کا نام ہے جو شرافت اطاعت پاسداری اور وفا جیسے انمول موتیوں کو جنم دیتی ہے اور جن معاشروں میں ان خصوصیات کی کمی ہوجاتی ہے انہیں کھوکھلا اورمنحرف معاشرہ قرار دیا جاتاہے۔ ایسے معاشرے کے افراد کی زندگی بے راہ روی کا شکار ہوجاتی ہے ماضی سے تعلق انتہائی کمزور ہونا شروع ہوجاتاہے اور عظمت رفتہ کو یکسر نظر انداز کردیا جاتاہے اور بدقسمتی سے آج پاکستانی معاشرہ یہی دردناک تصویر پیس کررہا ہے۔

روحانیت دم توڑ رہی ہے اخلاقیات کا گلہ گھونٹا جارہا ہے اور انسانیت کی سر عام تزلیل ہورہی ہے ۔
؂ غریب شہر ترستاہے اک نوالے کو
امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں

یہاں \"بچے برائے فروخت \" کے دل کو ہلا دینے والے مناظر نظر آتے ہیں۔ اور یہاں دختران ملت کی عزت کو تار تار کرنا باعث فخر سمجھا جاتاہے۔ صحرا کی تپتی ریت میں زندگی دم توڑ رہی ہے کسی کو احساس تک نہیں ہے ۔لفظ \"پروٹوکول \" کے نام پر کروڑوں روپے اڑانے والی قوم کے ارباب اختیار کے پاس تھل کے قیامت صغریٰ کا منظر دیکھنے والے باسیوں کیلئے کوئی بجٹ نہیں ہے۔
یہاں صوبائیت ، لسانیت اور ذات پات زہر قاتل گھول رہے ہیں

اگر ہم درِاحساس پہ دستک دیں اور ضمیر کے بند کواڑوں میں جھانک کر دیکھیں تو یہ تلخ حقیقت سامنے آئے گی کہ ہم نے اسلاف کی میراث کو بھلادیا ہے ۔ایک باپ دس بچوں کو پال سکتاتھامگر افسوس کہ آج دس بچے ایک باپ کو سہارا نہیں دے سکتے۔ بزرگ فرماتے ہیں کہ پہلے مسجدیں کچی ہوتی تھیں اور نمازی پکے اور آج مسجدیں پکی ہیں لیکن نمازی کچے ۔ ایثار و اخوت ، ریت پریت اور رشتوں ناتوں سے پاکستانی معاشرہ قطعی بے خبر ہوتا جارہا ہے۔ احساس و مروت بے لوثی اور صدق صفا نام کے الفاظوں سے ناواقف اس معاشرہ نے عظمت و شرافت کے معیار بدل دیے ہیں ۔بچے کچے بزرگوں نے مکانات کے بوشیدہ کونوں میں راہ فرار اختیار کرلی ہے ۔علماء کرام پرعلماء کرائم کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔ اور آج حقیقی علماء کرام کی بجائے ناچ گانے والوں کو عزت ووقار دیا جارہاہے۔ رہنماؤں اور رہزنوں میں تمیز کرنا مشکل ہوگئی ہے۔ عوام اور حکومت دقت کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں۔

آج شعبہ تعلیم میں نہ میرحسن ملتاہے اور نہ اقبال۔آج مامون رشید اور ہارون رشید نایاب ہیں ۔اعلیٰ اخلاقی انسانی اور روحانی قدروں کی درسگاہیں اپنے حقیقی مقصد سے ہٹ گئی ہیں۔ اب یہاں مادیت پرست اور مفاد پرست لوگ ہی تخلیق ہوتے ہیں جن کی پوجا صرف اور صرف دھن ہے ۔جو اقبال کے اس فلسفہ سے قطعی ناواقف ہیں ۔
؂ تجھے پالا ہے اس قوم نے آغوشِ محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سردارا

بدقسمتی سے ہمارے نصاب میں بھی ایسی جان نہیں کہ اسلاف کی میراث کے وارث بنتے ۔اسلامی علوم نصاب سے حذف ہورہے ہیں۔ احکامِ الٰہی اور شریعت محمدی ؐسے دوری اور خلفائے راشدین کی عدم پیروی پاکستان جیسے اسلامی ملکوں میں قدورں کو بتدریج زوال کا شکار کررہی ہیں ۔

اب رخ کرتے اس موضوع کے اصل حقائق کی طرف جنہوں نے اخلاقی قدروں پر وہ کاری ضرب لگائی کہ جسکی سزا شاید ہم آنے والی کئی نسلوں تک بھگتیں گے اور وہ ہیں انٹرنیٹ اور کیبل نیٹ ورک کا بڑھتا ہوا رجحان۔ آج بد قسمتی سے ثواب اور گناہ کے پیمانے بدل دیے گئے ہیں ماں بہن بیٹی اور بیوی کی موجودگی میں فحش اور عریاں فلمیں اور ڈرامے دیکھنا معمول بن گیا ہے۔ عریاں ناچ گانے ، مغربی تہذیب کی کھلے عام نمائش اور کردار پر منفی اثرات پیداکرنے والے پروگراموں نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے ۔بھارتی اور مغربی پروگرام جو اخلاقی درس سے باالکل عاری ہوتے ہیں انہیں پاکستانی معاشرے میں بڑے شوق سے دیکھا جاتاہے ۔ ہمارا اپنا پاکستانی ٹیلی ویژن بھی اس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں رہا ۔والدین کے ساتھ بد تمیزی لڑکے اور لڑکی کا گلے ملنا اور بوس و کنار وہ مناظر ہیں جو معاشرے میں زہر گھول رہے ہیں ۔اس سلسلہ کی بد ترین مثال وہ فحش سٹیج ڈرامے اور مجرے ہیں جو صرف اور صرف پاکستان کی تخلیق ہین جنہوں نے نوجوان نسل باالخصوص طلباء کے اخلاقیات تباہ و برباد کرکے رکھ دیے ہیں۔ جنسی اعضاء کی نمائش اور فحاش گوئی انھی سٹیج ڈراموں کا خاصا ہے ۔

پاکستان میں آج قدروں کا زوال فطری امر ہے ۔فصلِ زہر بونے والے کبھی فصلِ گل کی توقع نہیں رکھ سکتے۔ اولیاء کرام اور بزرگان دین کی پوری زندگی کی کمائی کو ہم نے ملیا میٹ کردیاہے ۔ہمیں آج خودبھی معلوم نہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔ اخلاقی زوال کی ان پستیوں کی طرف جارہے ہیں جہاں قومیں اپنا وجود کھو بیٹھتی ہیں۔ علمی درسگاہوں پر حملے ، معصوم اور بے گناہ لوگوں کا بے دردانہ قتل اور آمی پبلک سکول پشاور جیسے واقعات قیامت کی نشانیاں ہیں ۔میں یہاں سیاستدانوں کا ذکر اس لیے نہیں کرونگی کہ نھیں لفظ قدروں سے آگاہی تک نہیں ۔اقدار کی بجائے اقتدار ، اقتدار اور صرف اقتدارہی ان کاجینا ہے اوریہی ان کا مرنا ہے ۔
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
یہاں جھگڑے ہیں صوبوں کے ، ذاتوں کے، نصب کے
جس کے تہہ سایہ میں اگتے ہیں خار غضب کے
یہ ملک ہے سب کا مگراسکا نہیں کوئی
اس کے تن خستہ پہ اب دانت ہیں سب کے
Mushtaq Ahmad kharal
About the Author: Mushtaq Ahmad kharal Read More Articles by Mushtaq Ahmad kharal: 58 Articles with 104966 views Director princeton Group of Colleges Jatoi Distt. M.Garh and a columnist.. View More