بلوچستان کے ٹائیگر کی سیاسی زندگی کے ملک پر اثرات

 بلوچستان کے سیاسی افق پرچمکنے والا عظیم ستاراور بلوچستان کا ٹائیگرانواب اکبرخان بکٹی جوہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے ۔انہوں نے سارے بلوچستان میں اپنی ایک حیثیت منوائی ہوئی تھی۔ جو بلوچوں کی تاریخ میں اتنے گہرے نقوش چھوڑ کر گئے ہیں کہ جن کو پرویز مشرف جیسے ہزار بد طینت بھی تاریخ سے کھرچنا چاہیں گے توکھرچ نہ سکیں گے۔ یہ بڑا بلوچ رہنما سر نواب محراب خان بکٹی کے ہاں 1927 میں بلوچستان کے علاقے ڈیرہ بکٹی میں پیدا ہوا۔جو آکسفورڈ یونیورسٹی لندن سے اعلیٰ تعلیم کی ڈگری لیکر وطن لوٹا تھا۔جس نے لاہور کے ایچی سن کالج میں بھی اچھے طالبعلم کی حیثیت سے وقت گذارا تھا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد سول سروسز کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔مگر بیورو کریسی میں ملازمت نہ کی۔مزاج میں بلوچی انداز کی سختی موجود تھی۔مگر قانون کی عملداری پر یقین رکھتے تھے۔ جس کی مثال میں اپنے ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر پیش کرنے جا رہا ہوں۔

بعض سیاسی دوستوں کے ساتھ 1994 میں ڈیرہ بکٹی جانا ہوا ۔جہاں ہم نوا ب محمد اکبرخان بکٹی کے ہی مہمان تھے۔ کوئٹہ میں ہمارا استقبال کرنے کیلئے جمہوری وطن پارٹی جنرل سیکریٹری خدئے نور تشریف لائے ۔ڈیرہ بکٹی میں نواب صا حب خود ذاتی طور پرہمارے استقبال کے لئے موجود تھے۔ اگلے دن نواب بکٹی نے ہمارے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا۔اس کے بعد ان کے قلع نما گھر میں ہی ہماری حالات حاضرہ پر گفتگو ہوتی رہی۔اسکے فوراََ ہی بعد ان کے جرگے کا وقت ہونے لگا تو لوگوں نے اوطاق میں آ آکر بیٹھنا شروع کردیا۔ دورانِ جرگہ نواب اکبر بکٹی کا بیٹھنے کا ایک خاص اسٹائل تھا۔ جب تک جرگہ جاری رہتا وہ اپنے دونوں پیروں اور کمر کے گرد (پٹکہ)چادر لپیٹ کر بیٹھتے تھے۔جرگہ ختم ہونے کا اعلان اس طرح ہوتا کہ وہ اپنے پیروں اور کمرکے گردکسی چادر کھولدیتے تو لوگ بلا کسی تامل کے اٹھنا شروع ہو جاتے۔کئی چھوٹے موٹے معاملات پر نواب صاحب نے ہمارے سامنے ہی بہترین فیصلے دیئے۔دوران جرگہ ہی کوئی شخص خون میں لت پت زخمی حالت میں نواب بکٹی کی اوطاق میں آیا اور فریاد کی کہ سائیں فلاں شخص نے مجھ پر یہ ظلم کیا ہے۔ اور مجھے مار مار کے لہو لہان کر دیا ہے۔سردار بکٹی نے برجستہ کہا کہ یہاں کیا لینے آئے ہو؟تھانے جاکر اسکی رپورٹ لکھواؤ تاکہ تمہیں عدالت سے انصاف مل سکے۔ نواب بکٹی کی اس بات نے میرے اوپربہت مثبت اثرات مرتب کئے اور اور سرداروں سے متعلق میرے تصور میں تھوڑی تبدیلی پیدا ہوئی۔

اکبر بکٹی 1947 میں جب قائد اعظم سے ملے تو نہایت ہی وضع دار نوجوان تھے۔ اس ملاقت میں انہوں نے قائد اعظم سے بلوچستان کو پاکستان کا حصہ بنانے پر بکٹی قبیلے کی طرف سے رضامندی کا اظہار کیا جس پر قائد اعظم نے نواب کا شکریہ ادا کیا۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ جب بعد کے لوگ ماضی کے وعدوں کو فراموش کر دیں تو اختلافات کی خلیج پیدا ہونا اور بڑھنا شروع ہوجاتی ہے اور ہمدردی کرنے والوں کی ہمدردیاں سمٹنا شروع ہوجاتی ہیں۔یہ ہی کچھ نواب اکبربکٹی کے ساتھ بھی بعد کے آنیوالیحکمرانوں نے کیا۔

1951 میں نواب اکبر بکٹی کو گورنر سندھ و بلوچستان کا مشیر مقرر کیا گیا۔ پھر 1958 میں وہ وفاقی کابینہ میں وزیر مملکت کی حیثیت سے شامل کئے گئے۔مگر ایوب خان کی ڈکٹیٹر شپ کے زمانے میں 1960میں نواب اکبر بکٹی کے خلاف فوجی ٹرائیل کیا گیا۔فوجی ٹرائبیونل کے ذریعے انہیں پابند سلاسل کر دیا اور ان کو کسی بھی حکومتی عہدے کے لئے نا اہل قرار دے دیا گیا۔ جس کی وجہ سے وہ 1970 کے انتخابات میں بھی حصہ نہ لے سکے۔ بھٹو دور حکومت میں14فروری 1973 کو اُس اقت بلوچستان کے گورنرغوث بخش بزنجو سے متعلق لندن سازش کیس کی اطلاع ملتے ہی اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے صوبائی حکومت توڑ دی جس کے سربراہ وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار عطا ء اﷲ مینگل تھے۔ اس کے بعد نواب اکبر بکٹی کو بلوچستان کا گورنر بنا دیا گیا۔اور بلوچستان میں ایک لاکھ فوجی بھیج دیئے گئے۔ جس نے شہنشاہ ایران کی ائر فورس کے ذریعے بلوچستان میں قتل و غارت گری شرع کر دی اورکئی ہزاربلوچوں کو موت کی نیند سلا دیاتھا۔ ساڑھے دس ماہ بلوچستان کے گورنر رہنے کے بعد بھٹو کی پا لیسیوں سے شدید اختلافات کے وجہ سے یکم جنوری 1974 کو وہ بلوچستان کے گورنر کے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس آپریشن کونواب اکبر بکٹی کی حمایت بھی حاصل تھی وقت کی مصلحت کے تحت انہیں ایسا کرنا پڑا۔ کیونکہ وہ پاکستان کے سیاسی اتار چڑھاؤ پر گہری نظر رکھتے تھے اس کے بعد 1988 میں انہوں نے بلوچستان نیشنل الائینس میں شمولیت اختیار کر لی۔جسکے نتیجے میں وہ 4 فروری 1989 سے 6 اگست 1990 تک بلوچستان کے منتخب وزیر اعلیٰ رہے ۔بلوچ رہنما سے اختلافات کے نتیجے میں بے نطیر بھٹو نے بلوچستان حکومت تحلیل کر دی۔اس طرح وہ اگست 1990 میں مستعفی ہوگئے۔اس کے بعد انہوں نے اپنی الگ جمہوری وطن پارٹی کی بنیاد رکھی جس کے سربراہ وہ خود تھے۔ لہٰذا 1993 کے عام انتخابات میں جمہوری وطن پارٹی بلوچستان کی ایک اہم پارٹی کے طور پر ابھری جس کے پلیٹ فارم سے بکٹی نے قومی اسمبلی کا انتخاب جیتنے کے بعداسمبلی میں بلوچستان کے حقوق پر آواز اٹھاتے رہے۔

بلا شک وشبہہ نواب بگٹی پاکستان کی سیاست میں ایک بڑا نا م تھا۔ بین الاقوامی سیاست کے میدان میں ان کا مطالعہ خاصہ وسیع تھا۔ انہوں نے ساری زندگی بلوچستان کے حقوق کی جنگ لڑی مگر پھر بھی بلوچ عوام کو وہ کچھ بھی نہ دے سکے۔ جو بلوچستان کے حقوق کی بات کرنے والے رہنما کے شایان شان ہرگز نہیں تھا۔ شائد ان کی سرداری اس معاملے میں ان کے اڑے آتی رہی ہو۔مگر اس بات سے انکار ممکن ہے ہی نہیں کہ وہ بڑے سیاسی رہنما تھے اور بلوچستان کو پاکستان میں شامل کرانے میں ان کابھی اتنا ہی ہاتھ تھا جتنا کہ قاضی محمد عیسیٰ اورمیر ظفر اﷲخان جمالی کے والد کا تھا ۔

پاکستان کے مجرم اور فوجی ڈکٹیٹرنے بلوچوں کے حقوق کا مطالبہ کرنے پہلے تویہ دھمکی دی کہ باز آجاؤورنہ پتہ بھی نہیں چلے گولی کہاں سے آئی۔ اور دوسریاہمبات یہ تھی کہ بلوچوں کو حقوق نہ دینے اور سوئی میں کی جانیوالی ایک فوجی کی قبیح حرکت پر پردہ ڈالنے کی غرض سے بلوچستان کے اس شیر کو اس کی کچھار میں ہی اسکے اشارے پر 26 اگست2006 کوایک فوجی ا ٓپریشن کے ذریعے بھاری بمباری کر کے بلوچستانکے اس شیر کو جاں بحق کر دیا گیااور پھر انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ میڈیا پر آکر اعلان کیا کہ قوم کو مبارک ہو بکٹی کی موت پاکستان کی فتح ہے۔قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے اس نے ایک عجیب شوشہ یہ بھی چھوڑا کہ غار کے خود بخود گرنے سے اکبر بکٹی کی موت واقع ہوئی ہے ا ور پھر اس حوالے سے حکومتی کارندے روزانہ ایک نہ ایک نیا شوشہ چھوڑتے رہے۔تعجب اس بات پر ہے کہ جن لوگوں کی زندگیاں نواب بکٹی نے بچائیں تھیں وہ بھی حکومت میں ہوتے ہوے انکی ظالمانہ موت پر سوائے بغلیں جھانکنے کے کچھ کرتے ہوے دکھاے نہ دیئے ان کی شہادت سے پہلے انہوں بھی بڑے بڑے نعرے تو بہت لگائے تھے مگر کر کے کچھ بھی نہ دکھایا۔جس وقت بلوچستان کے شیر کی کچھار ہماری بہادر فوج نے گرائی تو پاکستانی ایجنسیوں نے کہا کہ ان کے پاس ایک کروڑ روپے کی پاکستانی کرنسی تھی اور 96 ہزار امریکی ڈالر تھے۔ اس کے علاوہ دو عدد سیٹلائٹ ٹیلیفونز بھی ملے ہیں۔

بلوچستان کے امور پر اتھارٹی سمجھے جانے والے نیوزی لینڈ کے تجزیہ نگار ہال ٹیٹس کا کہنا ہے کہ ’’ہٹ دھرمی اور انتقام بکٹی قبائل کے اہم عناصر ہیں‘‘حکومت پاکستان کے ترجمان رازق بکٹی نے اس آپریشن کے بعد کہا تھا کہ ضلع کوہلو میں امن قائم کرنے کے بعد اب مری قبیلے کے باغیوں کی باری ہے۔مگر چند دنوں بعد ان کی ہی باری آگئی جس کی وجہ سے بکٹی کے خلاف آپریشن تھا اور رازق بکٹی بھی انتقاماََ گولیوں کا نشانہ بنا دیئے گئے۔ حالانکہ یہ بھی زمانہِ طالبعلمی میں بلوچ حقوق کے لئے بے انتہا جدو جہد کر چکے تھے۔مگر انتقام نے انہیں بھی زندہ نہ رہنے دیا۔

نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد یکم ستمبر 2006 کو بھاری ملٹری کے پہرے میں چند سرکاری لوگوں کی موجودگی میں تین آہنی تالوں سے مقفل ان کے تابوت کو ڈیرا بکٹی کے ایک قبرستان میں دفن کرا دیا گیا۔انکے خاندان کے کسی شخص کو یہ اجازت نہ تھی کہ وہ ان کی نماز جنازہ یا تدفین میں شریک ہو سکیں۔یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان کے ٹائیگر کی سیاسی زندگی کے ملک پراثرات گہرے مرتب ہورہے ہیں۔

نو اب بکٹی کے کردار کے حوالے سے بی بی سی نے29 اگست 2006 کو اپنے نشریئے میں کہا کہ ’’وہ ظالم تھے جابر تھے جلد غصے میں آنیوالے تھے وہ اپنے لوگوں کے خیر خواہ نہیں تھے۔ اپنے عوام کے نام پر حکومت سے ہر سال کروڑوں روپیہ لیکر اپنی جیب میں ڈل لیتے تھے۔انہوں نے اپنے لوگوں کو جان بوجھ کر پسماندہ رکھاہواتھا۔وہ گرم مزاج ہونے کے با وجود مشاق سیاست داں تھے۔ 2003 سے ہی مری قبائل کے ساتھ مل کر وہ بلوچستان کے لئے کام کر رہے تھے۔ جس کی بنا پر پاکستانی فوج ان کے خون کی پیاسی ہوگئی تھی۔ اسی بنا پر وہ کوہلوکے پہاڑوں میں مہینوں سے روپوشی اختیار کئے ہوئے تھے۔جہاں انہیں تلاش کرنے کے بعد فوج نے بھاری ہتھیاروں سے گولہ باری کر کے خطرناک بمباری کے ذریعے انہیں لقمہِِ اجل بنا دیا‘‘چاہئیے تو یہ تھا کہ ان سے گفت و شنید کے بعد مسائل کا کوئی حل تلاش کیا جاتا مگر ہماری ملٹری بیوروکریسی نہایت سفاکی کے ساتھ اپنے لوگوں کو مارنے میں مہارت رکھتی ہے۔ لوگوں سے بات چیت یہ گولہ بارود کی زبان میں کرتی ہے۔ لوگوں کو باغی بنانا اور بغاوت پر اکسانا تو اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اﷲ میرے ملک کی حفاظت کرے اس ملک میں نفرت کے بیج بونے میں یہ سب سے زیادہ مہارت رکھتی ہے۔ ہماری فوجی اور سیول بیورو کریسی جب تک امریکہ کے ہاتھوں خوف اور لالچ کے ذریعے غلام بنی رہے گی اس وقت تک اس ملک میں امن و اتحاد کی فضا قائم کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔

آج پوراملک ایک دوسرے سے نفرت اوربد گمانی کی آگ میں جل رہا ہے۔ہر صوبہ مرکز سے دست و گریباں نظر آرہا ہے۔ آبیل مجھے ما کے مصداق ہم نے امریکہ کو خوش کرنے کے لئے اپنے ہی لوگوں کا مسلسل لہو گرانا شروع کیا ہوا ہے۔ اس کام میں ہمارے حکمرانوں کی انتہائی نہ اہلی بھی شامل ہے۔یہ امریکہ کا گیم کھیل کر در در بھیک کا پیالہ لئے پھر رہے ہیں۔مگر انہیں امریکہ کی جنگ کو امریکہ کی جنگ تک کہنے کی ہمت نہیں ہے۔ یہ پاکستان کی خدمت نہیں بلکہ اسکی جڑیں کھوکھلی کرنے میں ہمارے دشمنوں کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں۔ جو انتہائی نا معقول بات ہے۔ اس وقت نعروں نہیں عملیت پسندی کی ضرورت ہے۔ بلوچوں ،بلوچستان اور فاٹا کے معاملات کو عقل و شعور سے سلجھانے کی اشد ضرورت ہے۔پانی سرسے گذرنے سے پہلے بند باندھنے کے شدید ضرورت ہے۔ہمیں تاریخ کا حصہ بننے سے پہلے ہی اپنے معاملات کو سلجھا لینا چاہیئے ۔
Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed
About the Author: Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed Read More Articles by Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed: 285 Articles with 189084 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.