شاہ عبداﷲ کی وفات، نئی سعودی قیادت اور پاکستان

سعودی عرب کے فرما نروا خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداﷲ ابن عبدالعزیز السعود مختصر علالت کے بعد جمعہ کو علی الصبح دارالحکومت ریاض میں انتقال کرگئے۔ اِنَّالِلہِ وَاِنَّااِلَیہِ رَاجِعونَ۔انہیں نمونیے کی شکایت پر تین ہفتے قبل ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ وہ پھیپھڑوں کے انفیکشن میں مبتلا تھے۔ انہیں کئی دن سے مصنوعی تنفس پر زندہ رکھا جارہا تھا۔ شاہ عبداﷲ کو ان کے آبائی قبرستان العود میں سپرد خاک کیا گیا۔ یہ تاریخی قبرستان ہے جہاں سعودی شاہی خاندان کے دیگر افراد بھی مدفون ہیں۔ان کی نماز جنازہ میں سعودی عرب کے نئے فرماں روا سلمان بن عبدالعزیز، نئے ولی عہد مقرن بن عبدالعزیز، شاہی خاندان کے دیگر افراد، وزیر اعظم محمد نواز شریف، پنجاب کے وزیر اعلیٰ محمد شہباز شریف، وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی سمیت دنیا کے کئی اسلامی ملکوں کے سربراہوں اوررہنما?ں نے شرکت کی۔شاہ عبداﷲ کی وفات پرپاکستان میں ایک روزہ سوگ کااعلان کیاگیا اورتمام سرکاری اورنجی عمارتوں پرقومی پرچم سرنگوں رہا۔وزیراعظم نواز شریف نے گزشتہ ہفتے سعودی عرب جا کر ان کی عیادت بھی کی تھی۔ شاہ عبداﷲ بن عبدالعزیز کے انتقال کی خبر پھیلتے ہی عالم اسلام میں غم کی لہر دوڑ گئی۔ مرحوم شاہ عبداﷲ اگست1924میں پیدا ہوئے۔ 2005 میں اپنے سوتیلے بھائی شاہ فہد بن عبدالعزیز کے انتقال کے بعد سعودی عرب کے حکمران منتخب ہوئے تھے جبکہ شاہ عبداﷲ بن عبدالعزیز مکہ کے گورنر، سعودی اسپیشل گارڈ کے کمانڈر اور وزیر دفاع کے اہم عہدوں پر بھی فائز رہے۔ ابتدائی تعلیم شاہی محل میں ہی حاصل کی۔ کچھ سال صحرائی قبائل کے ساتھ رہے، جنہوں نے عرب کی مخصوص اقدار اور روایات سے انہیں روشناس کرایا۔ 1962 ء میں شاہ فیصل نے انہیں نیشنل گارڈ کی کمانڈ سونپی۔ 1975 ء میں نائب وزیراعظم دوم مقرر کیے گئے۔ 1982 ء میں جب ان کے سوتیلے بھائی شاہ فہد تخت نشین ہوئے تو شاہ عبداﷲ کو ولی عہد نامزد کیا۔ شاہ عبداﷲ بن عبدالعزیز کے 9 بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔

شاہ عبداﷲ کا شمار دنیا کے طاقتور ترین حکمرانوں میں ہوتاتھا۔ وہ اپنے ملک میں سیاسی وسماجی اصلاحات کے حوالے سے یاد رکھے جائیں گے۔انہیں مذہب ، تاریخ اور عرب ثقافت کے موضوعات سے خاص دلچسپی تھی۔ان کے نمایاں کارناموں میں مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی توسیع کے منصوبے ،4 اقتصادی شہروں کے قیام کا منصوبہ اور کئی بڑے فلاحی کام شامل ہیں۔انہوں نے سعودی عدالتی نظام کی تاریخی تشکیل نو کی بھی منظوری دی۔ ان کی کامیابیوں کا سلسلہ کسی ایک شعبے تک محدود نہیں۔ معیشت، تعلیم، صحت سوشل ویلفیئر، نقل وحمل، مواصلات، صنعت، بجلی، پانی، زراعت، تعمیرات غرض ہر شعبہ ہائے زندگی میں انہوں نے ماضی کی نسبت سعودی عرب کو زیادہ ترقی یافتہ بنا دیا۔ مرحوم نہ صرف اپنے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مشہور تھے بلکہ اس باب میں ان کی شہرت منصوبوں کو ان کے وقت مقررہ سے بھی قبل مکمل کرنے کے حوالے سے رہی۔ان کے دور حکومت میں سعودی عرب میں تعلیم کے شعبے نے خوب ترقی کی۔ شاہ عبداﷲ یونی ورسٹی ، پرنسس نور یونیورسٹی سمیت بیش 20 نئی جامعات قائم کی گئیں، درجنوں کی تعداد میں ٹیکینکل اور میڈیکل کالجز کا قیام،عبداﷲ سائنس وٹیکنالوجی یونیورسٹی، جازان، مدینہ منورہ، حائل اور رابغ شہروں میں شاہ عبداﷲ اکنامک سٹی کا قیام بھی انہی کی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔ ملک کے طول عرض میں کالجوں اور اسکولوں کا ایک جال بچھا دیا گیا۔ کئی جامعات کے زیر انتظام نئے کالجز قائم کیے گئے اور 701.681 طلباء وطالبات کی تعلیمی ضروریات سے ہم آہنگ نئے تعلیمی ادارے قائم کیے گئے۔ کالجوں کے قیام کے ساتھ ساتھ 32 ہزار نئے اسکول قائم کیے گئے جن کے قیام کے بعد سعودی عرب میں اسکولوں میں زیر تعلیم طلباء کی تعداد پانچ ملین سے تجاوز کرچکی ہے۔ اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے قیام سے چار لاکھ چھبیس ہزار مردو خواتین اساتذہ کو روزگار فراہم کیا گیا۔ شاہ عبداﷲ نے عالمی سطح پر بھی قائدانہ کردار ادا کیا۔

عالمی امن و استحکام ،عرب اور اسلامی دنیا کے دفاع کے لیے بین الاقوامی سفارت کاری میں شاہ عبداﷲ کی شرکت سعودی عرب کے قائدانہ کردار کی عکاسی کرتی ہے۔وہ سعودی عرب کی وحدت کا ہرقیمت پر دفاع کرنے کا عزم رکھتے تھے۔انہوں نے کسی اندرونی اور بیرونی دشمن کو سعودی عرب کی قومی سلامتی اور وحدت کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہ دینے کا پختہ عزم کرکھا تھا۔ وہ دہشت گردی کو ایک عالمی مسئلہ سمجھتے اور کہا کرتے تھے کہ سعودی عرب دہشت گردی کے خطرات سے نبرد آزما رہے گا۔ انہوں نے بین المذہب کانفرنس میں اپنی وسعت نظری اوراعلی حوصلگی کا شاندار مظاہرہ کیا اور آفاقی سوچ کا بہترین مظاہرہ کیا۔

شاہ عبداﷲ اپنے دل میں پاکستانی عوام کے لئے خاص محبت رکھتے تھے۔ ان کے دور میں سعودی حکومت نے کئی بار غیر قانونی طور پر مقیم لاکھوں پاکستانیوں کے قیام کو باقاعدہ بنا کر کروڑوں پاکستانیوں کی دعائیں لیں۔ان کے دس سالہ دور میں دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی شعبے میں بھی تعاون کوفروغ حاصل ہوا۔ اورصنعتی شعبوں میں سرمایہ کاری بڑھی۔قیام پاکستان کے وقت سے ہی سعودی عرب ہمارے ساتھ مضبوط سیاسی دفاعی تجارتی وثقافتی رشتوں میں منسلک رہاہے۔پاکستان کی خارجہ پالیسی میں باہمی تعاون اورشراکت داری کے اعتبار سے اسے خاص اہمیت حاصل ہے۔بھارت کے ساتھ جنگوں سمیت ہرمشکل گھڑی میں سعودی عرب اوراس کے حکمران پاکستان کے ساتھ کھڑ ے رہے۔تنازعہ کشمیر پرکشمیری عوام اورپاکستان کے موقف کی غیر متزلزل حمایت دونوں ملکوں میں فکری یک جہتی کی عمدہ مثال ہے۔سعودی عرب واحد ملک تھا جس نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی حمایت کی اور مئی1998ء میں ایٹمی دھماکے کے بعد جب پاکستان پرپابندیاں لگیں تو اسکی معیشت کوسہارا دینے کیلئے اس نے مالی امداد کے علاوہ کئی ہزارٹن تیل مفت فراہم کیا۔شاہ عبداﷲ مرحوم پاکستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات کوبہت اہمیت دیتے تھے۔ان کے دور میں تجارت، تعلیم، سیاحت، انفارمیشن ٹیکنالوجی،مواصلات اور زراعت کے شعبوں میں باہمی تعاون کے کئی منصوبے پروان چڑھے۔ پاکستان کے لئے ان کی غیر معمولی خدمات پرانہیں اعلیٰ ترین سول اعزازنشان پاکستان عطا کیا گیا۔ انہوں نے خلیجی ملکوں کی باہمی تعاون کونسل کے ذریعے پاکستان سے تجارتی تعلقات بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں کونسل کے رکن ملکوں کے ساتھ پاکستان کی تجارت کاحجم اربوں ڈالر تک پہنچ گیا۔ملک کے معاشی بحران پرقابوں پانے کیلئے2014کے اوائل میں انہوں نے پاکستان کوتقریباََ ڈیڑھ ارب ڈالر کی گرانٹ دی۔

شریف فیملی کے ساتھ شاہی خاندان اور خصوصاً شاہ عبداﷲ کے ذاتی تعلقات پاک، سعودی تعلقات کی تاریخ کا ایک الگ باب ہیں۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد وزیراعظم نوازشریف سعودی عرب گئے، ایوانِ شاہی میں ان کے لیے بے مثال استقبالیہ کا اہتمام کیا گیا اور انہیں بھائی قراردیا گیا۔ نوازشریف تیسری بار وزیراعظم بنے، تو شاہ نے پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر کی سلامی پیش کی گئی جس سے پاکستان کی معاشی بدحالی کو سدھارنے میں کافی مدد ملی۔ ایک ہفتہ قبل وزیراعظم نواز شریف نے سعودی عرب جا کر شاہ عبد اﷲ کی عیادت کی اوران کے جاں نشین سلمان بن عبدالعزیز اور شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز السعودجو اس وقت نائب وزیراعظم تھے سے ملاقاتیں کیں۔ اس موقع پر وزیراعظم میاں نوازشریف کا کہنا تھا کہ سعودی عرب مسلم دنیا میں بہت اہم کردار ادا کررہاہے۔اب چونکہ شاہ سلمان بن عبدالعزیزسعودی فرمانروا بن چکے ہیں، وہ بھی اپنے دل میں پاکستان کے لئے خاص محبت رکھتے ہیں اور میاں نواز شریف کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات ہیں۔گزشتہ سال فروری میں انہوں نے پاکستان کا دورہ بھی کیا تھاجس دوران پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاع، معیشت اور تجارت کے شعبوں میں کئی سمجھوتوں پر دستخط ہوئے تھے۔ انہوں نے صدر ممنون حسین اور وزیراعظم میاں نواز شریف سمیت سیاسی و عسکری حکام سے ملاقاتیں بھی کی تھیں۔ اس موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ وہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان مشترکہ علاقائی اور بین الاقوامی مفادات کو مزید فروغ دینا چاہتے ہیں۔ سعودی فرمانروا کے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد قوم سے اپنے پہلے خطاب میں بھی سلمان عبد العزیز نے کہا کہ تمام مسلمانوں کو متحد ہو کر رہنا چاہئے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سعودی عرب کی سمت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور ملک موجودہ سمت میں ہی آگے بڑھتا رہے گا۔شاہ عبداﷲ کی وفات سے پاکستان واقعی اپنے ایک مخلص دوست سے محروم ہوچکا ہے تاہم نئے سعودی فرمانروا بھی پاکستان کے مخلص دوست اور خیر خواہی ہیں۔ بہرحال اہل پاکستان سعودی بھائیوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں اور ان کی مغفرت کے لیے دعاگو ہیں۔

Amna Malik
About the Author: Amna Malik Read More Articles by Amna Malik: 80 Articles with 67746 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.