شاہ عبد اللہ بھی رخصت ہوئے

یہ خبر پوری مسلم دنیا میں غم اور افسوس کے ساتھ سنی گئی کہ خادم ِ حرمین الشریفین اور سعودی عرب کے فرماں روا شاہ عبد اللہ 90 برس کی عمر میں طویل علالت کے بعد جمعرات اور جمعۃ المبارک کی درمیانی شب خالق ِ حقیقی سے جا ملے ۔وہ ایک عرصے سے پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا تھے ۔پھیپھڑوں کے انفیکشن کے باعث انھیں پچھلے کئی دنوں سےمصنوعی طریقے سے سانس دیا جا رہا تھا ۔ان کی نماز ِ جنازہ پرنس ترکی بن عبد اللہ جامع مسجد میں ادا کی گئی۔جس میں کئی مسلم ممالک کی اعلیٰ شخصیات نے شرکت کی ۔پاکستان کے وزیر ِ اعظم اور ترک صدر رجب طیب اردوان نے بھی نماز ِ جنازہ میں شرکت کی ۔سعودی عرب کی تمام مساجد میں بھی شاہ کی غائبانہ نماز ِ جنازہ ادا کی گئی ۔دنیا بھر کے مسلم و غیر مسلم رہنماؤں نے شاہ کی وفات پر گہرے رنج اور افسوس کا اظہار کیا ۔ یہاں تک کہ اسرائیلی سابق صدر شمعون پیریز بھی کہہ اٹھے کہ شاہ عبد اللہ کی موت مشرق ِ وسطی ٰ کے امن کے لیے حقیقی نقصان ہے ، جس کی تلافی نا ممکن ہے ۔

شاہ عبد اللہ کی وفات سے پوری مسلم دنیا کی فضا سوگ وار ہے ۔ ان کے انتقال کی خبر سن کر پوری مسلم دنیا غم میں ڈوب گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب میں تین ، مصر میں سات ، پاکستان میں ایک اور اردن میں چالیس روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا ۔ معلوم نہیں ، نئے سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبد العزیز کس حد تک اپنےملک کی باگ ڈور سنبھالنے اور مسلم امہ کے مسائل کے حل میں کام یاب ہو سکیں گے ۔ کیوں کہ اس وقت پوری مسلم دنیا اضطراب کی شکار ہے ۔سعودی عرب سے مسلم دنیا کا قلبی ، مذہبی اور روحانی لگاؤ ہے ۔اس لیے سعودی عرب کے نئے بادشاہ پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مسلم دنیا کے لیے شاہ عبداللہ سے زیادہ موثر کردار ادا کریں ۔

شاہ عبد اللہ یکم اگست 1924ء کوریاض میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم شاہی محل میں حاصل کی ۔ کچھ سال صحرائی قبائل کے ساتھ رہے ، جنھوں نے عرب کی مخصوص اقدار وروایات سے انھیں متعارف کرایا ۔ 1961ء میں مکہ مکرمہ کے میئر بنے ۔1962 ء میں سعودی نیشنل گارڈ کے کمانڈر منتخب ہوئے ۔1975 ء میں نائب وزیر ِ اعظم دوم مقرر ہوئے۔1982 ء میں شاہ فہد کی طرف سے ولی عہد نامزد کیے گئے ۔ آخر کار شاہ فہد کی وفات کے بعد یکم اگست 2005 ء کو سعودی عرب کے چھٹے بادشاہ بن گئے ۔ ان کو مذہب ، تاریخ اور عرب ثقافت کے موضوعات سے خاص دلچسپی تھی ۔ وہ شاہ عبدالعزیز السعود کے 37 بیٹوں میں سے 13 ویں نمبر پر تھے ۔بدو نسل سے تعلق رکھنے والی ان کی والدہ فہدہ ،شاہ عبد العزیز کی 16 بیویوں میں سے 8ویں بیوی تھیں ۔ شاہ عبد اللہ 18 ارب ڈالر کے اثاثوں کے ساتھ دنیا کے چوتھے امیر ترین سربراہ ِ مملکت تھے ۔

شاہ عبد اللہ کی کئی پالیسیوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے کارناموں کی ایک خاصی طویل فہرست ہے ۔ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے سعودی عرب کو بہار ِ عرب کی لپیٹ میں آنے سے بچا لیا ۔اگر وہ باغیوں کے سلسلے میں ذرا سی بھی نرمی برتتے تو آج سعودی عرب کا بھی وہی حال ہوتا ، جو ان دنوں بہار ِ عرب کی لپیٹ میں آنے والے ملکوں کا ہے ۔ جہاں روز روز باغیوں کی شورشیں بپا ہوتی ہیں اور کوئی حکم ران سنبھل کر حکومت نہیں کر پاتا ۔یہ شاہ کی سخت پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ ان کا ملک بہار ِ عرب کے اثرات سےبالکل بچا رہا ۔

2005ء میں اقتدار میں آنے کے بعد انھوں نے دہشت گردی کے خلاف مؤثر اقدامات اٹھائے ۔ اس سلسلے میں انھوں نے انسداد ِ دہشت گردی کا عالمی مرکز قائم کیا ۔ 2005 ۓء میں انھوں نے دہشت گردی کے خلاف ریاض میں عالمی کانفرنس بلائی اور خود اس کی میزبانی کی ۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے سعودی عرب میں دہشت گردوں کی فنڈنگ روکنے اور غیرقانونی طور پر اسلحہ اور بیرون رقم منتقلی کے خلا ف بھی ایک ادارہ قائم کیا ۔ ان کے دور میں دہشت گردوں کی ہر قسم کی مالی معاونت کرنے والوں کو کڑی سزائیں دی گئیں ۔

شاہ عبد اللہ نے اپنے دور میں سعودی عرب کی ترقی پر خاص توجہ مرکوز رکھی ۔ تعلیم ، صحت ، انفرا اسٹرکچر اور معیشت کے شعبوں میں کئی بڑے منصوبے شروع کیے ۔ انھوں نے معاشی ترقی کے لیے چار بڑے شہر قائم کر وائے ۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے انھوں نے کئی ادارے قائم کروائے ۔ جن میں شاہ عبد اللہ یونی ورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور شہزادی نورہ بنت عبد الرحمان یونی ورسٹی برائے خواتین قابل ِ ذکر ہیں ۔مذہب سے گہرا لگاؤ ہونے کی وجہ سے انھوں نے حرمین پاک کی توسیع کے منصوبے شروع کیے ۔انھوں نے سعودی عدالتی نظام کی تاریخی تشکیل ِ نو کی منظوری دی ۔

قیام ِ پاکستان کے بعد سے ہی سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے گہرے اور مخلصانہ تعلقات ہیں ۔ 1998 ء میں جب پاکستان ایٹمی طاقت بنا تو یہ سعودی عرب ہی تھا ، جس نے کھل کر پاکستان کی حمایت کی تھی ۔ نہ صرف حمایت کی تھی، بلکہ پاکستان کی کمزور معیشت کو سہارا دینے کے لیے مالی مدد کے ساتھ ساتھ کئی ہزار ٹن مفت تیل فراہم کیا تھا ۔ واضح رہے کہ اس وقت اقوام ِ مغرب نے اپنی روایات برقرار رکھتے ہوئے پاکستان پر معاشی پابندیاں لگا دی تھیں ۔سعودی عرب نے ان کی پرواہ نہیں کی اور پاکستان کی امداد جاری رکھی ۔یہاں یہ بات بھی قابل ِ ذکر ہے کہ اس وقت شاہ فہد کی علالت کے باعث امور ِ مملکت شاہ عبد اللہ چلا رہے تھے ۔98 ء کے دھماکوں کے بعد شاہ عبد اللہ نے8 ملکوں کے دورے کیے تھے ۔ جس کی ابتدا واشنگٹن سے ہوئی تو انتہا پاکستان پر ہوئی ۔

اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے جوار ِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے ۔ (آمین)
 
Naeem Ur Rehmaan Shaaiq
About the Author: Naeem Ur Rehmaan Shaaiq Read More Articles by Naeem Ur Rehmaan Shaaiq: 122 Articles with 145224 views میرا نام نعیم الرحمان ہے اور قلمی نام نعیم الرحمان شائق ہے ۔ پڑھ کر لکھنا مجھے از حد پسند ہے ۔ روشنیوں کے شہر کراچی کا رہائشی ہوں ۔.. View More