سنپولیے

کیا آپ نے کبھی دیکھا یا سنا کہ بچھو نے ڈنک مارنا یا سانپ نے زہر اگلنا چھوڑ دیا ہو؟ آپ بھوکے سانپ کو کتنا ہی دودھ پلائیے، اس کی سیوا کیجیے مگر وہ بدلے میں آپ کو ڈسے گا ہی!…اور اس میں تعجب کی کوئی بات ہے بھی نہیں، کیوں کہ سانپ کے پاس آپ کو دینے کے لیے زہر ہی ہے…زہر اگلنا اور دودھ پلانے والے کو ڈسنا اس کی فطرت میں ہے… بالکل اسی طرح انبیاء کرام کے ازلی دشمن اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنے دل کا بغض نکالیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں، کیوں کہ شیطان کو اور اس کے چیلوں کو اس کائنات میں سب سے زیادہ عداوت اور بغض آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ہے۔ بھلا جن بدبختوں نے ایک دن میں سترستر انبیاء کرام کو شہید کیا ہو، اور جن کم بختوں نے اپنے نبی کی زندگی میں اور ان کے بعد بھی ان کی خوب توہین کی ہو… وہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم جو نبیوں کے سردار ہیں، سے کیوں نہ بغض رکھیں گے؟!

یہ کائنات کا سب سے غلیظ جرم جو پچھلے کئی برس سے مسلمان دیکھ رہے اور ان کے دل پارہ پارہ ہور ہے … یہ جرم کوئی پہلی بار تو نہیں ہو رہا… خصوصاً اسی فرانس اور اسپین کا یہ منحوس خطہ(جہاں نعوذ باللہ سید البشر ، محبوب خدا فداہ امی و بی کی شان میں بدترین گستاخی کی جارہی ہے)اس حوالے سے نہایت مکروہ تاریخ رکھتا ہے کہ یہاں یہ جرم پہلی بار نہیں ہو رہا، بلکہ یہ وہ منحوس جگہ ہے جہاں پر توہین رسالت کی مہم مغربی تاریخ میں ایک تحریک کے طور پر سب سے پہلے شروع کی گئی۔ مغرب کی عیسائی تاریخ میں شاید سب سے زیادہ ’ولی‘ اسی خطے سے پائے جاتے ہیں اور ان سب کی وجہ شہرت یہی ہے کہ انہوں نے معاذ اللہ توہین رسالت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جی ہاں! نویں صدی عیسوی کی چھٹی دہائی میں اندلس میں مسیحی مذہبی رہنما سینٹ یولوجیس ملعون نے اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کر کے یقینی ولایت حاصل کرنے اور ’شہادت‘کا مرتبہ پانے کی ایک باقاعدہ تحریک چلائی تھی۔ اس وقت اندلس(موجودہ اسپین) پر مسلمانوں کی حکومت تھی۔عیسائی مرد وزن کے گروہ کے گروہ مذہبی جذبے سے سرشار ہو کر آتے اور رسول اللہ کی توہین کرتے۔ اس میں ہر عمر کے افراد شامل تھے۔ بارہ سال کے بچوں سے لے کر بوڑھوں تک۔ یہاں تک کہ تاریخ دان لکھتا ہے: ’’عیسایئوں کے گروہ در گروہ قضاکی عدالتوں کے سامنے آتے اور ببانگ دہل توہینِ رسالت کرتے ، دربان ان کو پیچھے ہٹاتے ہٹاتے تھک جاتے اور اہلکار جان بوجھ کر کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے، تاکہ ان کی آوازیں نہ سننی پڑیں ۔ اس وقت کئی مسیحیوں کو اس جرم کی پاداش میںموت کے گھاٹ اتارا گیا، جو بعد میں عیسائی تاریخ کے’ ولی‘ کہلائے جن میں 48تو بہت مشہور ہیں۔

خدا کی پناہ… وہ جو رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجے گئے، وہ جن کی بشارت خود حضرت مسیح علیہ السلام بارہا سنا گئے، وہ جن کے لائے دین کی برکت سے یہ زمین آسمان قائم ہیں، ان کی شان میں گستاخی ’ولایت‘ کی شرط قرار پائے؟یاللعجب!

جی ہاں! یہ ولایت تو ہے مگر ولایت الٰہی نہیں بلکہ ولایت شیطان ہے۔ انصاف پسندمعتدل مزاج عیسائی دانشوروں اور مذہبی رہنماؤں نے خود ہمیشہ اس خبیث سوچ کی مخالفت کی، مگر بدبخت سنپولیے زہراگلنے سے باز نہیں آتے۔ گاہے بگاہے وہ آزادی اظہار رائے کے نام پر سیدالانبیاء کی شان میںگستاخی کرکے گویا چاند پر تھوکنے کی کوشش کرتے ہیں جو بالآخر انہی کے منہ پر آگرتا ہے…کیوں کہ نبی پاک علیہ السلام کی شانِ اقدس پر اس شیطنت سے کچھ فرق نہیں آتا…ہمارا ایمان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی گستاخی کر ہی نہیں سکتا… ایک نالی کا کیڑا آسمان کی شان میں کیا بکواس کرتا ہے یا کتے کے پلے چاند پر کیا بھونک سکتے ہیں ؟ لیکن یہ ضرور ہے کہ یہ توہین دنیا کے ہر مسلمان کے ایمان کو گالی ضرور ہے… اور اس بار یہ گالی ڈنکے کی چوٹ پر دی گئی ہے… پہلے کبھی بھی گستاخی کرنے والوں کے ساتھ وہ اظہار یکجہتی نہیں ہوا، جس کامظاہرہ دنیائے کفر نے اس بار کیا ہے… اب گستاخوں کے ساتھ گویا ساری دنیائے کفر خم ٹھونک کر کھڑی ہو گئی ہے!… اور کس بات پر؟… فرانس میں گستاخی کرنے والے اخبار کے دفتر پر ہونے والے حملے کے بعدجہنم رسید ہونے والے افرادکے غم میں…لاکھ دو لاکھ نہیں،16لاکھ افراد کی ریلی نکالی گئی …اوراس ریلی میں دنیا کے 40 ممالک کے حکمران ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر شریک ہوئے … مگرجیسا کہ عرض کیا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں، انتہائی تعجب کی بات تو یہ ہے کہ اس ریلی میں جس میں کئی شرکاء نے ہاتھوں میں ان خاکوں کو اٹھایا ہوا تھا، چند نام نہاد مسلمان حکمران بھی کفار کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر شامل ہوئے !… اس سے گستاخان رسول کو ایسی شہہ ملی کہ انہوں نے دوبارہ گستاخانہ خاکے والے میگزین شایع کیے اور وہ بھی ریکارڈ تعداد یعنی 30لاکھ کاپیاں چھاپی گئیں۔

صرف یہ حکمران ہی نہیں، ہمارے ملک کے وہ لوگ جو خود کو فخر سے لبرل اور سیکولر کہتے ہیں، ان پر بھی گویا غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے …گستاخانِ رسول کے قتل پر موم بتیاں جلا کرخاموشی اختیار کی جا رہی ہے اور انسانیت کی دہائی دے دے کر ان کے حق میں مضامین لکھے جا رہے ہیں۔ نجانے اس وقت ان کا انسانیت کا بھاشن کہاں چلا جاتا ہے؟ جب دنیا بھر میں مظلوم مسلمانوں پر کفار بھوکے بھیڑیوں کی طرح یلغار کرتے ہیں…یہ وسطی افریقہ کے مسلمان کیا انسان نہیں ہیں؟…جنہیں سرعام سڑکوں پر بے دردی سے گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے… نفرت کا یہ عالم ہے کہ ان مظلوم شہداء کو مرنے کے بعد بھی بخشا نہیں جاتا، بلکہ ان کی نعشوں کو پیٹر ول چھڑک کر جلا دیا جاتا ہے …سب جانتے ہیں کہ یہ جنونی قاتل عیسائی مسلح ملیشیا کے لوگ ہیں، اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ فرانس کے فوجی اس گھناؤنے عمل میں قاتلوں کے پشتیبان بنے ہوئے ہیں …لیکن کسی کے پاس ان ہزاروں مظلوم مسلمانوں کے لیے ہمدردی کا ایک لفظ نہیں ہے۔اس وقت کسی کو انسانیت یاد نہیں آتی، کوئی ان مظلوموں کے لیے ایک شمع نہیں جلاتا… کیا اس وجہ سے کہ ان کا رنگ سفید نہیں کالا ہے؟ یا اس لیے کہ وہ ایک اللہ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا ہیں؟!
آئیے گدھوں کے رینکنے پر لعنت بھیجئے اور انجم عباسی کی کہی اس نعت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے دل کو منور کیجیے
جلوے رخشندہ جہاں احمدِ مختار کے ہیں
ہم تو دیوانے اُسی شہرِ ضیاء بار کے ہیں
گلشنِ دہر ہے کیا باغِ اِرم کیا شئے ہے؟
کچھ مناظر ہی الگ کوچۂ دلدار کے ہیں
ضبط کی تاب نہیں، طاقتِ گفتار نہیں
زخم رسوا سرِ محفل، ترے بیمار کے ہیں
دل کے یوں داغ فروزاں ہوں کہ دنیا کہہ دے
یہ تو سودائی فقط احمدِ مختار کے ہیں
دیکھنے والو! با حیرت نہ انہیں تم دیکھو
داغ دامن پہ میرے دیدۂ خونبار کے ہیں
حوضِ کوثر سے غرض ہم کو نہیں ہے انجم
ہم طلبگار فقط شربتِ دیدار کے ہیں
Muhammad Faisal shahzad
About the Author: Muhammad Faisal shahzad Read More Articles by Muhammad Faisal shahzad: 115 Articles with 172104 views Editor of monthly jahan e sehat (a mag of ICSP), Coloumist of daily Express and daily islam.. View More