میں شوگرکا مریض ہوں

 شادی کی تقریب تھی۔کھانا شروع ہوا۔ میرے سمیت بہت سے لوگ کھانے کی طرف بڑھے ایک گھبرائی ہوئی آواز آئی ۔پرے ہوجائیں پلیز پرے ہوجائیں۔ مجھے کھانا ڈالنا ہے۔ مگریہ تو سب کو کرنا تھا۔ مگر ان کا آگے بڑھنے کا انداز ایسا تھا جسے کوئی ٹر ک ڈرائیور ہجوم پر ٹرک چڑھانے کا ارادہ کرکے آگے بڑھ رہاہو۔ شادی میں شریک زیادہ تر انتہائی مہذب لوگ تھے ۔فوراًپیچھے ہٹ گئے۔ ہنگامی حالت نافد کرنے والے صاحب آگے بڑھے۔ پلیٹ میں چاولوں کاہلکا سا جھڑکاؤ کیا اور پھر سالن کی آدھی سے زیادہ ڈش بوٹیاں چن چن اپنی پلیٹ میں پہاڑ بنائے اپنی میز پر چلے گئے۔ لوگ ان کی خوش خوراکی کا سوچ کر مسکراتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ میزبان قریب ہی موجودتھے انہوں نے بھی اپنے اس خاص مہمان کی حرکت نوٹ کی اور فوراً مزید سالن منگوایا تاکہ دوسرے مہمان بھی سالن کے ذائقے سے آشنا ہوسکیں۔ وہ خصوصی مہمان کھانا کھا چکے تو میں نے عادت سے مجبور انہیں پوچھاکہ بھائی اس قدر ہنگامی کون سی بات تھی کہ آپ نے اس قدر شور مچا کر سب سے پہلے کھانا حاصل کر لیا۔ کہنے لگے میں شوگرکا مریض ہوں۔ میں نے کھانے سے پہلے دوائی کھا لی تھی۔ مجھے ڈر تھا کہیں دوائی میری شوگر کم نہ کر دے۔ میں نے پریشان ہو کر ان کے پلیٹ پر نظر ڈالی۔ وہ میٹھا کھا رہے تھے اورمیٹھا پلیٹ سے چھلک کر نیچے گرتا لگتا تھا۔ انہوں نے میٹھے سے بھی سالن ہی کی طرح پورا پورا انصاف کیا ہوا تھا۔ میں نے چلتے چلتے مسکرا کرصرف اتنا کہا۔ آپ کی دوائی بھی آپ ہی کی طرح جلد باز لگتی ہے۔

دنیابھر میں شادی بیاہ کی تقریبات میں کھانے کی مقدار ہمیشہ وافر ہوتی ہے۔ اور کھانے والے بغیر سوچے نتائج کی پرواہ کئے بغیر بے پناہ کھاتے ہیں۔ بہت سوں کے انداز سے یوں لگتا ہے گویا عرصے کے بعدکھارہے ہیں۔ مگر ایسا نہیں ہوتا ۔ شاید شادی کے کھانے میں کچھ ایسی کشش ہے کہ لوگ ضرورت سے زیادہ ہی کھاجا تے ہیں۔یہ توبھلا ہوہماری حکومت کاکہ ایک ڈش کی پابندی عائد ہے دگر نہ تو درجنوں اقسام کے کھانے کھاتے کھاتے لوگ پھٹنے لگتے تھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ کیا کھائیں اور کیا نہ کھائیں ۔ویسے بھاری بھرکم ڈشوں کے معاملے میں عربی لوگ بہت مشہور ہیں اوردنیا میں سب سے بڑی ڈش بھی انہی کی شادیوں پر پیش کی جاتی ہے۔ یہ ڈش سالم روسٹ اونٹ کی ہوتی ہے۔ سالم اونٹ کا پیٹ چاک کر کے اسے روسٹ کیاجاتا ہے اورپیٹ کے اندر سالم روسٹ بکرے رکھے جاتے ہیں۔ہر سالم بکرے کے اندر روسٹ مرغ ہوتے ہیں اور ہر مرغ کے اندر مچھلی اورانڈے ہوتے ہیں ۔ بقیہ تمام خالی جگہوں پر چاول بھر دئیے جاتے ہیں۔ یہ شادی بیاہ میں پیش ہونے والی سب سے بڑی اور مہنگی ڈش ہوتی ہے اور عرب کے تمام ممالک میں انتہائی مقبول ہے۔

شادی کی تقریب میں تو یوں لگتا ہے کہ شاہد دنیامیں ہر آدمی کو وافر کھانا میسر ہے مگر ایسا نہیں اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہردسواں آدمی بھوک کاشکار ہے اس وقت ایک کڑور سے زیادہ لوگ انتہائی بدترین کمپرسی کی حالت میں بھوکے وقت گزار رہے ہیں ۔ہر سال بیماریوں سے اتنے لوگ نہیں مرتے جتنے بھوک سے مرتے ہیں۔بھوک کا شکار لوگ زیادہ ترترقی پذیر ملکوں کے رہائشی ہیں اور ان ملکوں کی آبادی کا 13.5 فیصد ہیں۔ براعظم ایشا سب سے زیادہ بھوکے لوگوں کا مسکن ہے جہاں دنیابھر کے بھوک کا شکارلوگوں کی دو تہائی تعداد مقیم ہے۔ گوافریقہ کے کچھ حصوں میں بھی ان کی تعدادآبادی کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے۔ جہاں ہر چوتھا آدمی بھوک کاشکار ہے مگر مجموعی طور پر ایشیا سرفہرست ہے۔ دنیا کے سات ممالک ایسے ہیں جہاں دنیا بھر کے 65 فیصد بھوکے افراد رہتے ہیں۔ ان ممالک میں بھارت، چین، کانگو، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، ایتھوپیا اور پاکستان شامل ہیں۔ان ممالک میں تین سال تک کے مرنے والے بچوں میں ہر تیسرا بچہ بھوک سے مرتا ہے۔

کم اور ناقص غذا کے سبب دنیا میں ہر سال آنے والے 31 لاکھ نومولود فوت ہو جاتے ہیں جو پیداہونے والے بچوں کا 45 فیصد ہے۔پیدا ہونے والے بچوں میں 36 فیصد ایسے ہیں جنہیں چھ ماہ تک ماں کے دودھ کے علاوہ کچھ میسر نہیں ہوتا۔ کم اور ناقص خوراک کے باعث دنیا کا ہر چھٹا بچہ وزن میں کمی کا شکار ہے اور ایسے بچوں کی تعداد چودہ کروڑ کے قریب ہے۔ دنیا بھر میں روزانہ 30 کروڑ بچے رات کو بھوکے سوتے ہیں اور روزانہ 16ہزار بچے بھوک سے مرتے ہیں۔ دنیا کے ترقی پذیر ملکوں میں ہر چوتھا بچہ کسی نہ کسی خامی کا شکار ہے اور یہ تعداد بڑھ رہی ہے۔ ترقی پذیر ملکوں میں ساڑے چھ کروڑ بچے سکولوں میں بھوکے آتے ہیں جن میں سے تقریباً ڈھائی کروڑ بچے افریقہ میں ہیں ، اقوام متحدہ کے ماہرین کے مطابق ان بچوں کو بھوک سے بچانے کے لیے انہیں سالانہ 3.2 بلین ڈالر درکار ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر دیہاتی عورتوں کو بھی اگر دیہاتی مردوں کی طرح مراعات دے دی جائیں تو بھوکے افراد میں کم از کم 15کروڑ کی کمی آسکتی ہے۔

بھوک اور بیماریوں کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے ۔ غربت کے خاتمے کے لیے بہت سے اقدامات کی ضرورت ہے۔ جو بہتر معاشی صورتحال اور امن وامان ہی سے ممکن ہیں۔ آج پاکستان کی صورتحال کو فوری سنبھالنے کی ضرورت ہے جہاں معاشی صورتحال اور امن وامان دونوں ہی ابتری کا شکار ہیں اور جن کی اصلاح کے لئے ایک اہل اور ایماندار قیادت وقتی تقاضا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو غربت بھی بڑے گی۔ بیروزگاری بھی زیادہ ہوگئی جس کے نتیجے میں بھوک بڑھے گی ۔جبکہ بھوک کا خاتمہ صرف اورصرف قومی یکجہتی، اہل قیادت اور دہشت گردی کے خاتمے سے ہی ممکن ہے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 437746 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More