دہشت گردی کے خلاف پلان اور جعلی ایف آئی آر

گزشتہ سال کے آخری مہینے دسمبر کی سولہ تاریخ کو پشاور میں آرمی پبلک سکول میں ملکی تاریخ کی ایک بڑے اور نہائت افسوس ناک واقعہ نے پاکستانی قوم کے ساتھ ساتھ تمام انسانوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ جس کے بعد پاکستان کے تمام سیاستدان اور قوم ایک ہو گئی اور دہشت گردی کے خلاف کھلم کھلا جنگ کا اعلان کر دیا۔اس کے بعددہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے پاکستانی وزیراعظم اور پھر چیف آف آرمی سٹاف بھی افغانستان گئے اور اپنے ملک میں بھی قانون سازی کی کوشش کی اور کچھ قوانین بھی بنائے گئے جن سے دہشت گردی کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ سب سے پہلے جیلوں میں بند خطرناک دہشت گردوں کو پھانسیاں بھی دی گئیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس کے بعد ایک اہم قدم یہ اٹھایا کہ فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا اب تک نو فوجی عدالتیں ملک میں قائم کی جا چکی ہیں۔فوجی عدالتوں کے قیام سے کچھ سیاسی لوگوں نے اختلاف کا اظہار بھی کیا مگر جب خیال آ تا شہدائے پشاور کا تو خاموش ہو جاتے۔ مگر مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آتی کہ جب لوگ فوج کو اپنا ہمدرد سمجھتے ہیں تو فوجی عدالتوں پر سوال کیوں اٹھاتے ہیں؟ پریشان تو دہشت گرد کے علاوہ کسی کو نہیں ہونا چاہئیے۔میرا ایک سوال تو یہ ہے دوسری بات یہ کہ جو قوانین اس سے پہلے بنائے گئے تھے ان پر کتنا عملدرآمد کیا جا رہا ہے؟ کتنے فائدہ مند ہیں؟ اگر ان پرعملدرآمد ہو تا تو شاید ان نئے قوانین کی ضرورت نہ ہوتی۔ اور سب سے اہم بات قوانین جتنے مرضی بنائے جائیں جب تک تھانہ کلچر اور ایس ایچ او صاحبان اور تفتیشی حاضرات کی مرضی ختم نہیں کی جائے گی تب تک تمام قوانین کی عمل درآمدگی پر سوال اپنی جگہ قائم رہے گا۔ کیونکہ جہاں جعلی ایف آئی آر کو اصلی بننے میں اور اصلی ایف آئی آر کو جعلی ثابت کرنے کے ماہرین موجود ہوں وہاں قوانین کی حدود ختم ہو جاتی ہے۔اگر ایس ایچ او صاحب اور تفتیشی صاحب چاہیں تو اپنے قانونی جادو سے گنہگار کو بے گناہ اور بے گناہ کو گنہگار بنا سکتے ہیں قانون چاہے جتنا سخت مرضی ہو ان کے سامنے بے بس ہے۔سب سے پہلے تو قانون کی نافرمانی یہ خود کرتے ہیں اور انسانی حقوق بھی ان کے سامنے کوئی اہمیت کے حامل نہیں۔ میرے ناقص مشاہدے کے مطابق ہمارے تھانوں میں ہزاروں مجرم با عزت بری ہوتے ہیں اور ہزاروں بے گناہ لوگ قانون کے شکنجے میں با اصولی اور قانونی طریقے سے جیلوں میں سزا بھگت رہے ہیں۔ اور سرمایہ داری نظام برقرار ہے۔جس کا ڈنڈا اس کی بھینس محاورہ تو بہت پرانا ہے لیکن آج بھی یہ جھوٹا نہیں۔

IJAZ KHAN SAHU
About the Author: IJAZ KHAN SAHU Read More Articles by IJAZ KHAN SAHU: 4 Articles with 3228 views www.facebook.com/ijazkhansahu.. View More