قید سے فرار کے چند مشہور اور دلچسپ واقعات

قانون اور جرائم پیشہ افراد کے درمیان آنکھ مچولی کا کھیل صدیوں سے جاری ہے۔ مجرموں کو قانون کے کٹہرے تک پہنچانے اور انھیں قرار واقعی سزائیں دیے جانے کے باوجود یہ کھیل جاری رہتا ہے۔ میدان بدلنے سے کھیل کے ضوابط اور طریقہ کار تبدیل نہیں ہوتے۔قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا عمل جیل کی چار دیواری کے اندر بھی جاری رہتا ہے۔ فریق اوّل (پولیس) فریق ثانی (قیدی) پر گہری نظر رکھتا ہے، جبکہ فرق ثانی اس تاک میں رہتا ہے کہ موقع ملتے ہی کال کوٹھری سے اُڑن چھو ہو جائے۔ اس کھیل میں عموماً جیت فریق اوّل کی ہوتی ہے لیکن بسا اوقات فریق ثانی بھی بازی مار جاتا ہے۔ جیل سے فرار کے واقعات دنیا بھر میں ہوتے رہتے ہیں۔ بعض مشہور اوردل چسپ واقعات کا یہاں ذکر کرتے ہیں جو کہ دنیا میگزین کے شائع کردہ ہیں۔ واضح رہے جنگی قیدی عام قیدیوں سے الگ ہوتے ہیں انھیں جرائم پیشہ افراد میں شمار نہیں کیا جاتا۔
 

چارلس سوبھراج
بدنام زمانہ مجرم چارلس سوبھراج متعدد بار جیل سے فرار ہُوا مشہور زمانہ سیریل کِلر چارلس سوبھراج پر چار ممالک میں قتل، ڈکیتی اور لوگوں کو لوٹنے کے لاتعداد مقدمات درج ہیں۔ چارلس کے جیل سے فرار کے قصّے زبان زد و عام ہیں۔ وہ اپنی مجرمانہ زندگی کے دوران متعدد بار جیل سے فرار ہُوا۔ تاہم وہ فرار ہونے کے کچھ عرصے بعد دوبارہ کسی نہ کسی جرم میں پکڑا جاتا۔ آج کل وہ نیپال کی جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔ 1970 میں وہ انڈیا کے ہوٹل اشوکا میں واقع ایک جیولری اسٹور کو لوٹتے ہوئے پکڑا گیا۔ قید کے دوران اُس نے بیماری کا جھوٹا بہانہ بنایا اور اپنی بیوی کی مدد سے دہلی کی تہاڑ جیل سے فرار ہوگیا، لیکن بہت جلد گرفتار کر لیا گیا۔ اس بار اُس نے ویت نام میں موجود اپنے باپ سے ایک بڑی رقم حاصل کی اور ضمانت پر رہا ہونے کے بعد افغانستان فرار ہوگیا۔ یہاں وہ سیاحوں کو لوٹنے کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا۔ قید کے دوران اُس نے باہر کے کسی آدمی کی مدد سے ایک سرنج حاصل کی اور اپنے بازو سے خون نکال کر منہ میں ڈال دیا۔ پھر سب کے سامنے تڑپتے ہوئے اپنے منہ میں ڈالا ہُوا خون اُگلنے لگا۔ چارلس نے نقاہت بھری آواز میں گارڈ سے کہا کہ اُس کا پرانا السر بگڑ گیا ہے۔ جیل انتظامیہ نے اسے فوراً اسپتال پہنچایا۔ اُس نے کمرے میں تعینات محافظ کو نشہ آور چیز کھلا کر بے ہوش کر دیا اور وہاں سے فرار ہو کر ایران کے راستے ترکی جاپہنچا، جہاں استنبول میں اُس کا چھوٹا بھائی اینڈریس رہتا تھا۔ دونوں بھائیوں نے ترکی اور یونان میں سیاحوں کو لوٹنے کا کام شروع کر دیا۔ کچھ عرصے بعد یہ دونوں یونان کی پولیس کے ہتھے چڑھ گئے۔ چارلس نے فوری طور پر اپنے ذہن میں ایک منصوبہ ترتیب دیا،جس کے تحت دونوں بھائیوں کو اپنا نام ایک دوسرے سے تبدیل کرنا تھا۔ اینڈریس کا پہلے سے کوئی مجرمانہ ریکارڈ موجود نہیں تھا، اس لیے چارلس، اینڈریس بن کر چند ہفتوں میں چُھوٹ جاتا اور پھر چارلس کے یونان کی سرحد پار کرنے کے بعد اینڈریس جیل انتظامیہ کو بتاتا کہ انھوں نے غلط آدمی کو چھوڑا ہے، اصل اینڈریس وہ خود ہے۔ اس طرح اینڈریس کو بھی زیادہ سزا نہ ہوتی۔ جب منصوبے پر عمل شروع ہُوا تو پولیس کو شک ہُوا اور اُس نے کسی قسم کی رو رعایت دیے بغیر دونوں کو جیل بھجوا دیا۔ اپنا منصوبہ ناکام دیکھ کر چارلس نے جیل سے فرار کا اپنا پرانا نسخہ آزمایا۔ وہ ایک بار پھر سے بیمار پڑ گیا، جب پولیس وین میں اُسے اسپتال پہنچایا جا رہا تھا تو راستے میں موقع ملتے ہی وہ فرار ہوگیا۔ کچھ دنوں بعد اینڈریس جیل وارڈن کے پاس گیا اور اُسے بتایا کہ وہ چارلس نہیں بلکہ اینڈریس ہے۔ وارڈن غصّے میں آگیا اور اینڈریس کو رہا کرنے کے بجائے ترکی کی حکومت کے حوالے کر دیا، جہاں اُسے چوری٬ ڈکیتی اور دیگر جرائم میں 18 سال کی سزا ہوگئی۔

image


سلاومیر راویز(Slawomir Rawicz)
سلاو میر راویز پولینڈ کا فوجی تھا، جو دوسری جنگ عظیم میں روسی فوجیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا تھا۔ جنگ کی ابتداء میں چوں کہ روس ، جرمنی کا اتحادی تھا‘ اس لیے راویز کو قیدی بنا کر سرد جہنم کے نام سے مشہور سائبیریا کے گولانگ فوجی کیمپ بھیج دیا گیا۔ 9 اپریل 1941ء کو سائبیریا میں برفانی طوفان آگیا۔ راویز اور دیگر سات قیدی طوفان کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے فرار ہوگئے۔ خراب موسم کے باعث محافظوں نے ان کا پیچھا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ راستے میں ان کی ملاقات پولینڈ سے تعلق رکھنے والی 17 سالہ مفرور لڑکی کرسٹینا (Krystyna) سے ہوئی، جو ان کے قافلے کے ساتھ شامل ہوگئی۔ آٹھ مفروروں پر مشتمل اس قافلے نے 9 دنوں میں دریائے لینا پار کیا اور جھیل بیکال کے کنارے کنارے سفر کرتے ہوئے یہ لوگ منگولیا کی سرحد تک پہنچ گئے۔ خوش قسمتی سے انھیں تمام راستے ہم درد اور ملنسار لوگ ملے، جنہوں نے ان کی بہت مدد کی۔ صحرائے گوبی پار کرتے ہوئے بھوک اور پیاس سے نڈھال کرسٹینا اور میکووسکی نامی مفرور قیدی کی موت واقع ہوگئی جبکہ دوسروں نے سانپ اور کیڑے کھا کر خود کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا۔ اکتوبر1941ء میں چھے افراد پر مشتمل یہ قافلہ تبت پہنچا۔ سردیوں کے موسم کے وسط میں انھوں نے ہمالیہ کا علاقہ پار کیا۔ اس دوران ان کا ایک ساتھی سردی کی شدت سے مر گیا اور دوسرا گہری کھائی میں گر گیا۔ بالآخر مارچ 1942ء کو 4 ہزار میل کا فاصلہ طے کر کے راویز اور اس کے تین ساتھی انڈیا پہنچنے میں کامیاب ہوگئے، جہاں انگریز سرکار نے انھیں اپنی حفاظت میں لے لیا۔ اس واقعے پر 1956ء میں رولینڈ ڈاوننگ نے The Long Walk کے نام سے ایک کتاب لکھی، جس پر 2010ء میں ہولی وڈ نے The Way Back کے نام سے فلم بنائی۔ اس واقعے کا دل چسپ پہلو یہ ہے کہ روس کی حکومت نے راویز کے فرار کی کہانی جھوٹی قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ روسی حکومت نے اسے خود 1942ء میں رہا کر کے ایران بھیج دیا تھا۔

image


الکیٹراز جیل سے فرار کا واقعہ معمہ بن گیا
امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر سان فرانسسکو کے ساحل سے ڈیڑھ میل دُور الکیٹراز (Alcatraz) جزیرے پر قائم جیل سے اب تک 36 قیدی فرار ہونے کی کوششیں کر چکے ہیں۔ان میں دو قیدی ایسے بھی تھے، جنہوں نے فرار کے لیے دو بار قسمت آزمائی کی، لیکن دونوں مرتبہ وہ ناکام رہے۔ فرار کی کوشش کرنے والے دیگر قیدیوں میں 23 قیدی فرار کے دوران پکڑ لیے گئے اور 6 محافظوں کی گولیوں کا نشانہ بنے ۔ تاہم 3 قیدی فرینک مورس، کلیرنس اینگلین اور جون اینگلین 11 جون 1962ء کو اس جزیرے سے ایسے فرار ہوئے کہ اُن کا آج تک پتا نہ چل سکا کہ وہ زندہ بھی ہیں یا مر گئے ہیں۔آج بھی اُن کے نام ایف بی آئی کی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔ غالب گمان یہ ہے کہ یہ تینوں مفرور قیدی فرار کے دوران سمندر میں ڈوب گئے ہوں گے تاہم تلاش کی متعدد کوششوں کے بعد بھی ان کی لاشوں کا پتا نہ چل سکا۔ اُن کے فرار کا یہ واقعہ اب تک معمہ بنا ہُوا ہے۔ اس واقعے نے اتنی شہرت حاصل کی کہ 1979ء میں اس پر ہالی وڈ نے ’’اسکیپ فرام الکیٹراز‘‘ کے نام سے ایک فلم بنائی، جس میں فرینک مورس کا مرکزی کردار اداکار کلینٹ ایسٹ وڈ نے ادا کیا ۔

image


قید سے فرار زندگی سے رہائی کا سبب بن گیا
ویت نام کی جنگ کے دوران لاؤس میں ویت نامی گوریلوں کے حامی کمیونسٹوں کے خلاف امریکی آپریشن کیا گیا۔ یکم فروری 1966ء کو امریکا کے نیول پائلٹ لیفٹیننٹ ڈیٹرڈ ینگلر (Dieter Dengler) کے جہاز کو اینٹی ایر کرافٹ گن سے نشانہ بنایا گیا۔ ڈینگلر کو اپنا جہاز ہنگامی طور پر لاؤس کے جنگلات میں اُتارنا پڑا، جہاں اُسے کمیونسٹ گوریلوں نے قیدی بنا لیا۔ ڈینگلر کو پاتھٹ لاؤ نامی کیمپ میں چھے ماہ تک تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا، بعد ازاں اُسے پارکُنگ نامی گاؤں کے فوجی کیمپ لے جایا گیا، جہاں پہلے سے دو امریکی ، تین تھائی اور ایک چینی باشندہ قید تھے۔ ان قیدیوں میں سوائے ایک امریکی قیدی ڈیونی ڈبلیو مارٹن کے باقی سب سویلین تھے، جو ایئر امریکا کے ملازم تھے۔ مارٹن امریکی ایر فورس میں ہیلی کاپٹر پائلٹ تھا، جسے شمالی ویت نام سے گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ تمام قیدی گزشتہ ڈھائی سال سے گوریلوں کے قیدی تھے۔ ڈینگلر نے انھیں اپنے ساتھ فرار پر آمادہ کیا۔باہمی مشاورت سے طے پایا کہ فرار کے لیے مون سون کا انتظار کیا جائے، تاکہ فرار کے دوران پانی کی قلت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ انھیں شہتیر کے بنے جھونپڑی نما قید خانے میں بند کیا گیا تھا۔ پروگرام کے تحت انھوں نے جھونپڑی کے اندر سے شہتیروں کے بند ڈھیلے کرنے شروع کر دیے۔ 29 جون 1966ء کو جب محافظ کھانے میں مصروف تھے، وہ آہستگی سے جھونپڑی سے باہر نکلے اور محافظوں کے اسلحے پر قبضہ کر لیا۔ یہ سات قیدی تین گروپوں میں مختلف سمتوں میں فرار ہوئے۔ ڈینگلر کے ساتھ مارٹن تھا۔ دونوں کئی دن بھوکے پیٹ جنگلوں میں بھٹکتے رہے۔ اس دوران مارٹن کو ملیریا ہوگیا۔ بیماری اور بھوک کے باعث مارٹن نے مشورہ دیا کہ قریبی گاؤں سے مدد اور کھانا حاصل کیا جائے۔ ڈینگلر نے منع کیا، لیکن مارٹن نہ مانا اور گاؤں میں داخل ہوگیا۔ گاؤں والوں نے اسے دیکھتے ہی ’’امریکی امریکی‘‘ کا شور مچاکر اُسے ہلاک کر دیا۔ ڈینگلر بڑی مشکل سے اپنی جان بچا کر وہاں سے فرار ہُوا۔ڈینگلر اور تھائی باشندہ بیسیڈھی اندرادات (Pisidhi Indradat) کے علاوہ دوسرے چار مفروروں کے بارے میں کچھ پتا نہ چل سکا کہ اُن کے ساتھ کیا گزری۔ اندردات اپنے دو ہم وطن قیدیوں کے ساتھ فرار ہُوا تھا، لیکن دوسرے ہی دن وہ اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا۔ 33 دن جنگل میں اکیلے بھٹکنے کے بعد وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں دوبارہ کمیونسٹ گوریلوں کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا، بعد ازاں اُسے ایک امدادی کارروائی کے ذریعے گوریلوں کی قید سے آزاد کرالیا گیا۔ ڈینگلر واحد قیدی تھا، جو جنگل میں زہریلے کیڑوں اور کمیونسٹ گوریلوں سے بچتا بچاتا بھوک کی حالت میں مسلسل 23 دنوں تک بھاگتا رہا۔ بالآخر 20 جولائی کو اُسے ایک امریکی ہیلی کاپٹر کی مدد سے جنگل سے نکالا گیا۔ اس واقعے پر2007 ء میں ہولی وڈ میں Rescue Dawnکے نام سے فلم بنی، جس میں ڈینگلر کا کردار Christian Bale نے ادا کیا ۔

image


بھارتی قید خانے سے پاکستانی فوجیوں کا فرار
1971ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران سِکس پنجاب رجمینٹ سے تعلق رکھنے والے چھے پاکستانی فوجی میجر طارق پرویز، لیفٹیننٹ شاہد اﷲ جان، لیفٹیننٹ شوکت جاوید، لیفٹیننٹ جمیل، کپٹین نور اے کیو خان اور میجر راجا نادر پرویز بھارتی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے۔ ان قیدیوں کو ریل گاڑی کے ذریعے اُتر پردیش کے علاقے فتح گڑھ کے فوجی کیمپ پہنچایا گیا، جہاں سے وہ 17 ستمبر 1972ء کی شام فرار ہوگئے اور تین ہفتوں تک چھپتے چھپاتے پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ ان قیدیوں میں شامل راجا نادر پرویز بعد ازاں مسلم لیگ میں شامل ہو کر متعدد وزارتوں پر فائز رہے۔ قید کے دوران ان قیدیوں نے فرار کے متعدد منصوبوں پر غور کرنے کے بعد بالآخر سُرنگ کے ذریعے فرار ہونے پر اتفاق کیا۔ باورچی خانے میں استعمال ہونے والی ایک چُھری اور ناخن تراش کی مدد سے انھوں نے 150 فٹ لمبی ایک سُرنگ بنائی۔ زمین کھودتے وقت انھیں سانپوں اور بچھوؤں سے بھی واسطہ پڑا، لیکن انھوں نے اپنا کام جاری رکھا۔ بالآخر 17 ستمبر کی شام وہ اس سُرنگ کے راستے فتح گڑھ کے فوجی کیمپ سے فرار ہو کر ایک کشتی کے ذریعے ممبئی پہنچے اور پھر وہاں سے وہ پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس دوران متعدد بار انڈین سیکیورٹی فورسز کے ساتھ ان کا سامنا ہوتے ہوتے رہ گیا۔

image


 قندھار کی جیل سے فرار
24 اپریل 2011ء کو قندھار کی جیل سے 470 سے زیادہ قیدی 320 میٹر لمبی سُرنگ بنا کر فرار ہوگئے۔ فرار ہونے والے قیدیوں میں 100 کے قریب سرکردہ طالبان کمانڈر اور باقی طالبان جنگ جُو تھے۔ قیدیوں کو سُرنگ بنانے میں پانچ ماہ کا عرصہ لگا۔ واضح رہے کہ جون 2008ء میں ایک خود کش حملہ آور نے اسی جیل کے گیٹ کے باہر دھماکا کر کے گیٹ اور قریبی پولیس چوکی تباہ کر دی تھی۔ اس واقعے میں900 قید فرار ہوئے تھے۔

image
YOU MAY ALSO LIKE:

As long as we have had prisons, we have had prison escapes. This is a list of the some most daring and amazing escapes from prison in history. This adds to our collection of crime related lists, such as tips for escaping the cops, tips for committing the perfect crime, and prison survival tips.