کہانی ایک پردیسی کی

وہ میرا بہت پرانا دوست ہے۔ ہمیشہ کی طرح جنونی، ہر کام میں آگے بڑھنے کی لگن،جستجو،سب کو مات دینا۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب پانچویں میں اس کے نمبر کم آئے تھے اور اس کی پوزیشن اول سے دوم آ گئی تھی تو وہ پورا دن روتا رہا تھا۔اس کے بعد کم ازکم دسویں جماعت تک میں نے اسے دوسرے نمبر پر نہیں دیکھا،ہمیشہ اول۔ دو بہنیں تھیں،وہ بھی پڑھائی میں اچھی تھیں، والد اولاد سے زیادہ جنونی۔ایک ٹوٹی ہوئی موٹر سائیکل تھی، مگر اس پر کس بچے کو کب کس اکیڈمی پے لے کر جانا ہے،کہاں چھوڑنا ہے، سب کمپیوٹر کی طرح آپریٹ ہوتا تھا۔ایک بیٹی نے ایم بی اے کیا ، ایک ڈاکٹر بن گئی ، اور موصوف کا خود بھی میڈیکل میں داخلہ ہوگیا۔اب یہاں بھی جنونی، کلاس میں ٹاپ کرنا ہے، گولڈ میڈل لینا ہے،یونیورسٹی میں ٹاپ کرنا ہے۔

میں کبھی کبھی اس کو یہ کہہ کر سمجھاتا کہ یار اب داخلہ ہوگیا ہے،صرف پاس ہوتا جا اور ڈگری پکڑ، یہ ٹاپ شاپ کام نہیں آئے گا۔مگر وہ نہ سنتا۔ایم بی بی ایس ہوگیا، مگر جنون ختم نہ ہوا۔ اب اس کے سر پر باہر جانے کا جنون تھا۔ انگلینڈ کی راہ لی اور نکل گیا۔مجھے کچھ روک رہا تھا۔میں اس شام سے پہلے فیصلہ نہیں کر پایا تھا کہ اس نے باہر جا کے اور میں نے یہاں رک کے ٹھیک کیا یا نہیں۔ وہ وہاں سے اکثر سکائپ پے مجھے بتاتا کہ یہاں بھی ٹریننگ مشکل ہے،پر پیسے اچھے مل جاتے،لائٹ گیس تو اتنی ہے کہ اس کی لوڈشیڈنگ کا نام تک نہیں سنا۔وہ مجھے روز سلام کے بجائے سکائپ پے یہی پوچھا کرتا، زندہ ہے؟ جس زندگی سے میں گزر رہا تھا، میں شائد خود بھی روز اپنے آپ سے یہی سوال کرنے لگا تھا۔یہاں کا مشکل ترین پوسٹ گریجویشن میں داخلے کا امتحان تو پاس ہوگیا تھا، مگر آگے زندگی اور بھی مشکل ہوگئی تھی۔تھوڑا سی وی بہتر تھا،تو ٹریننگ تو ملک کے بہت اچھے ادارے میں تنخواہ کے ساتھ مل گئی تھی، مگر زندگی میں سکون نہیں تھا،اور تنخواہ میں بھی اکثر میں خود سے یہی سوال کرتا تھا کہ زندہ ہے؟

پھر ایک دن اس نے مجھے وائبر پے مسیج کیا کہ وہ وہاں بہت پریشان ہے،اس کے ابو ایمرجنسی میں داخل ہیں، مجھے وہاں فون کرنا ہوگا۔ میں بھی دوسرے شہر تھا،مگر واقفیت تھی، فون کیا ، مگر اس دوست کے والد اس وقت تک فوت ہوچکے تھے۔ میرے ذہن میں وہی ٹوٹی موٹر سائیکل ، انکل کی محنت اور جنون تھا۔میں اس رات کئی بار جیا اور کئی بار مرا۔اس کی دونوں بہنوں کی شادی کے وقت ان کے والد کے چہرے کی خوشی، مجھے سونے نہیں دے رہی تھی۔

اس دن وہ نہیں آسکا۔اسے چھٹی نہیں ملی تھی۔ وہ وہاں تڑپتا رہا،ماں بیمار تھی۔ اکیلی بیٹیوں اور دامادوں کے ساتھ ، نیم بے ہوشی کے عالم میں آخری رسومات کی تیاریاں کرتی رہیں۔ مجھے اس وقت بار بار اس بات کا احساس ہو رہا تھا کہ کم از کم اب اسے یہاں ہونا چاہیے تھا۔مجھے ڈر تھا،وہ جنازے پر نہیں آ پائے گا۔اور ایسا ہی ہوا۔کئی جنازے تمام عمر کندھوں پر نشان ڈال دیتے ہیں۔وہ کچھ ایسا ہی جنازہ تھا۔بھاری تھا۔شائد وہ بھی میرے ساتھ،اٹھاتا تو مجھے یہ بار محسوس نہ ہوتا۔میں واپس آگیا ، کئی دن اس کے وائبر کا جواب نہیں دیا۔وہ سکائپ پے بات کرنے کی کوشش کرتا میں جواب نہ دیتا۔ چالیس دن بعد، بہت مشکل سے، صرف اس کی ماں سے کیا وعدہ نبھانے اس کے گھر گیا۔اس کی ماں آج بھی، پہلے دن کی طرح رو رہی تھی۔

پاس بیٹھا ، تو ایک بہت بوجھل ہاتھ، کاندھے پر پڑا۔یہ بوجھ ،اس جنازے کے بوجھ جیسا ہی تھا۔وہ بولا میں نے ریزائن کردیا ہے۔تو صحیح تھا، میں غلط تھا، مجھے نہیں جانا چاہیے تھا۔شائد جس نے مجھے ڈاکٹر بنایا تھا،اس کو میں کچھ عرصہ اور خوش دیکھ پاتا۔وہ رو رہا تھا، میرے گلے لگا اور روتا رہا۔جب بوجھ ہلکا ہوا تو میں نے اس سے پوچھا ، زندہ ہے؟

یہ میرے ایک دوست کی کہانی تھی، جو میرے بہت قریب ہے۔اس کی زندگی کا یہ تلخ باب اسباق سے بھرا پڑا ہے۔ پہلے تو حکمرانوں سے گلہ ہے، کیوں ہم اس ملک کو اس پستی تک لے آئے ہیں، کہ اس ملک میں پڑھے لکھے جوانوں کو صرف فرار میں ہی تقویت نصیب ہو رہی ہے۔دنیا خاتمے کی جانب بڑھ رہی ہے، مگر ابھی اتنا برا وقت نہیں آیا کہ ہم سب ختم کر کے بیٹھ گئے ہیں۔یہ سب ان کی غلط پالیسیوں کا شاخسانہ ہے۔گیس نہیں ہے، بجلی نہیں ہے، اسکول محفوظ نہیں ہیں،ہر جگہ موت کا راج ہے،اس سب کا جواب ہمیں نہیں ہمارے پالیسی سازوں کو دینا ہے، ہمارے حکمرانوں کو دینا ہے؟ملک میں پڑھے لکھوں کو روزگار نہیں مل رہا ، تو جن کے پاس تعلیم نہیں ہے وہ کہاں جائیں گے۔

جو باہر چلے جاتے ہیں، ان کے ماں باپ پر کیا گزرتی ہے ،یہ وہی جانتے ہیں۔سائبر کی سہولیات ،کسی دادا،دادی ، نانا ، نانی کو ان کے پوتے یا نواسے کے اتنا قریب نہیں کرسکتی،جتنا ان کا حقیقت میں قریب ہونا کرسکتا ہے۔گونج کئی ایسی سسکیوں کو جانتی ہے، جو اپنے والدین یا قریبی رشتہ داروں کی وفات پر، صرف فیس بک کے چند اسٹیٹس تک ہی محدود ہوکر رہ جاتی ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم کے حصول ، ترقی کے لیے ، آگے بڑھنے کے لیے،جس حد تک جستجو ہوسکے کرنی چاہیے، ملک سے باہر جانا پڑے جانا چاہیے۔مگر یہ فیصلہ بھی ضروری ہے کہ اگر وہ سب ملک میں ممکن ہے، اور صرف فرار کی راہ اختیار کی جا رہی ہے، تو ہمارے پیچھے بوڑھی آنکھوں کا کیا ہوگا؟ایسا نہ ہو کہ زندگی میں کسی اسٹیج پر حقیقت میں ہمیں اپنے ضمیرکو اس تلخ سوال کا جواب دینا پڑے … زندہ ہے؟

(ڈاکٹر عفان قیصر ایکسپریس سے ماخوذ)

Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 256714 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More