پوسٹ مارٹم کب ختم ہوگا ؟

یورپی پارلیمانی اراکین نے پاکستان سے توہین رسالت ﷺ قوانین پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ان قوانین کو منسوخ کیا جائے کیونکہ یہ عیسائیوں اور دوسری اقلیتوں کو ہدف بنانے بنانے کیلئے استعمال کئے جا رہے ہیں۔یورپی پارلیمان کے ارکان نے فرانس کے شہر اسٹر اسبرگ میں منعقدہ اجلاس میں ایک غیر پابند قرار داد منظور کی۔یورپی یومین کیے ممالک کے دباؤ کے تحت ہی پاکستان میں 2008کے بعد کسی بھی جرم میں سنائی گئی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد نہیں کیا گیا نومبر2012میں صرف ایک فوجی کو کورٹ مارشل کے بعد پھانسی دی گئی تھی۔پاکستان میں گذشتہ ساڑھے چھ سال سے کسی مجرم کو سزائے موت نہ دینے سے جیلوں میں سزائے موت کے سزا یافتہ قیدیوں کی تعداد سات ہزار سے زائد بتائی جائے اور ان قیدیوں کی خوارک و رہائش پر سالانہ سوا کروڑ روپے سے زائد خرچ ہو ہے ہیں ہیں۔ سابق وزیر اعظم سیدیوسف رضاگیلانی نے پارلیمنٹ میں اپنے اختتامی خطاب میں کہا تھا کہ ہم اس قانون سازی کو ختم کردیں گے، پی پی پی کی طرح نگران حکومت اور مسلم لیگ ن نے بھی سزائے موت پر عمل درآمد نہیں کیا ، ان قیدیوں میں ایسے بھی ہیں جو 25سال سے قید میں ہیں اور ان کے فیصلے معلق ہیں۔بعض قیدی عمر قید سے بھی زیادہ سزا بھگت چکے ہیں ۔ اسلام کے قوانین کسی یورپی یونین کی استعماری جبر کو نہیں مانتا ، اسلام کی رو سے سزا کی معافی کا اختیار صرف مقتول کے وارثین کے پاس ہے ،قصاص و دیت کے حوالے سے مقتول ہی وارث ہی فیصلہ کرسکتے ہیں اس ضمن یہ قانون سازی تو کی جاسکتی ہے کہ ایسی فورم بنائی جائے جو ان مقتولوں کے خاندانوں کے غموں کا مدوا کرسکے لیکن موت کی سزا پر عمل درآمد کو انسانی حقوق کی آڑ میں روک کر توہین رسالت ﷺ اور توہین قرآن کے مرتکب مجرموں کو بچانے کی کسی طور پر منظوری ، نئے قانون سازی سے نہیں کی جائے جاسکتی ، اقلیتوں کے ساتھ ذاتی عناد پر جھوٹے مقدمات بنانے والوں پر یہی قانون نافذ کرکے معاشرے میں خوف پیدا کیا جاسکتا ہے کہ اگر جھوٹا الزام لگایا گیا اور ثابت ہوا تو وہ خودتوہین رسالت ﷺ اور توہین قرآن کا مرتکب ہوسکتا ہے ، مسئلہ یہ ہے مغربی پروپیگنڈا اس قدر مضبوط ہے کہ مسلمانوں کیخلاف ہونے والے اقدامات کو آزادی رائے قرار دے کر صرف نظر کردیا جاتا ہے ۔

امریکی کانگریس کی قومی سلامتی کمیٹی اپنی پیش کردہ رپورٹوں کے مطابق امریکا میں مقیم مسلمان شہریوں پر اعتماد نہیں کیاجا تااور انھیں اپنے ملک کیلئے ’ ٹھوس چیلنج ‘ تصور کر کرتی ہے ۔امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کو مسلسل کمیٹی کیجانب سے شدت پسند کے حامی قرار دیے کر پریشان کیا جاتا ہے جیسے خود امریکہ کی انسانی حقوق کی تنظیموں ، ڈیمو کریٹس اور سول سو سائٹی کی تنظیموں نے نامناسب قرار دیتے ہوئے ایسے صرف مسلمانوں کا پوسٹ مارٹم کرنے کی کوشش قرار دیا ہے دریں اثنا امریکا میں مسلمانوں کی نمائنہ تنظیم "کیئر"نے سلامتی کمیٹی کے پانچ اجلاسوں میں مسلمانوں کو انتہا پسند ثابت کرنے کی کوشش کی مذمت کی ہے۔ہندوستان کے شمالی شہر آگرہ سے شرم ناک خبر آئی کی بعض ہندو پسند تنظیموں کی جانب سے تقریبا 200 مسلمانوں کا مذہب تبدیل کروانے کا واقعہ ہوا ہے اس سے قبل بھارتی انتہا پسند سرکار کے شدت پسندوں کیجانب سے رمضان لمبارک میں مسلمانوں کے روزے زبردستی توڑوانے اور مساجد سے اذان دینے پر پابندی جیسے واقعات بھی رونما ہوئے ۔مسلمانوں کو زبردستی مسلمان بنانے کو’ گھر واپسی ‘کا نام دیا گیاہے اور ایک تقریب کی تصاویر بھی شائع کرائیں گئیں۔تقریب وشو ہندو پریشد ، بجرنگ دل اور دھرم جاگرن منج کیجانب سے منعقد کی گئی تھی ۔ جن مسلمانوں کے متعلق بتایا کہ انھوں نے اپنا مذہب تبدیل کیا ہے تو انھوں نے میڈیا کوبتا یا کہا انھیں دھوکے سے تقریب میں بلا کر خوفزدہ کرکے مسلمان سے ہندو بنایا جا رہا ہے۔انھیں مقامی رہنماؤں نے راشن کارڈ اور شناختی کارڈ بنوانے کالالچ دیا گیا تھا ۔ ان مسلمانوں کا تعلق مغربی بنگال اور بہار سے ہے اور یہ کوڑا کرکٹ اٹھانے کا کام کرتے ہیں۔ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ مئی میں موجودہ وزیراعظم ہندو انتہا پسند قیادت کے جے پی جے کے رہنماؤں نے بر سر عام کہا تھا کہ ملک میں 800سال بعد ہندؤوں کی حکومت لوٹی ہے۔یوں تو حق پر چلنے والے روز ول سے باطل کی عدوات اور سازشوں کا شکار رہے ہیں شر پسند عناصر انفرادی اور اجتماعی طور پر خیرکے روشن چراغوں کو بجھانے کی جسجتو میں ہیں ۔مسلمانوں کیخلاف مذہبی منافرت کی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ، ترقی یافتہ ممالک میں جب لندن کے علاقے میں ایک فوجی لی رگبی کو چاقو مار کر قتل کردیا گیا تھا جس کے بعد سے ’ انقلابی اسلام ‘ کے عنوان پر وہاں بسنے والے مسلمانوں کے خلاف شر پسند انتہا پسندوں کا غصہ بھڑکا احتجاج کے طورپر مساجد پر پٹرول بم پھینکے گئے، ۔ 1991ء کی پہلی خلیجی جنگ کویت کو عراق کی حکومت کا قبضہ ختم کرنے کیلئے شروع کی گئی اور عراق پر قبضہ لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ۔1990ء میں بوسینا میں امریکی فوجوں کو مسلمانوں کی حفاظت کے نام پر بھیجاگیا لیکن مسلمانوں کو ہزاروں کی تعداد میں شہید کرکے اجتماعی قبروں میں دفن کردیا گیا۔فر میسن نامی ئیودی تنظیم بنا کر مسلمانوں کے خلاف کام کیا گیا اور بد نام زمانہ بلیک واٹر تنظیم نے مسلم ممالک میں دہشت گرد کاروائیوں کے ریکارڈ قائم کئے۔فری میسن تنظٰیم کے غیر یہودی افرادکو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس کیلئے کام کر رہے ہیں۔اس تنظیم کے مستقر کا محل وقوع تک ان لوگوں کیلئے ایک نامعلوم سر بستہ معمہ ہی رہتا ہے۔ہندوستان میں بٹالہ کے نزدیک واقع قادیان ، پاکستان میں ربوہ کے بعد اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والے اس فتنے کا سب سے منظم مرکز اسرائیل کے شہر ’ حیفا ‘ ہے یہودیوں کی ہمیشہ یہ منصوبہ رہی ہے کہ وہ بالکل ابتدائی مرحلوں میں ایسی شخصیات کو مقبولیت اور شہرت کی بلندی تک پہنچا دیتے ہیں جو مسلم امہ کی بعد میں بربادی کا سبب بنتے ہیں مصر میں جمال عبدالناصر اور انور سادت کی یہی صورتحال رہی 1954میں انقلاب کے بعد برپا ہوتے ہی جمال عبدالناصر نے اسلامی تحریکوں کو بربریت سے کچلنا شروع کردیا 1970میں ناصر کی انتقال کے بعد انور سادات نے کیمپ ڈیوڈ معایدے پر دستخط کردئے مصر کا اس معاہدے پر دستخط کرنا پوری ملت اسلامیہ کی فلسطین کے متعلق پالیسی سے انحراف اور غداری کے مترادف تھا۔یو ں سمجھئے کہ بنی نوع انسان کو آسمانی ہدایت اور پغیمبر انہ تعلمات کی پیروی سے ہٹا کے اسے ہمہ قسم کی پابندیوں سے آزاد اور تمام حدود و قیودسے باغی بنا دینے کا نام سیکولر ایشن ہے۔مسلمانوں کے خلاف غیر مسلم شدت پسندوں کا رویہ شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ ایران اسلامی مملکت ہے اس لئے اسکے ایٹمی طاقت بننے کیخلاف ہے ، پاکستان کے ایٹمی رازوں کی چوری اور تباہی کیلئے درپردہ اور کھلے عام سازشیں کیں جا تی رہتی ہیں ۔جبکہ شمالی کوریا ایک غیر مسلم ملک ہے اس کو ایٹمی طاقت بنتے دیکھ دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ، بھارت دنیا کی سب سے بڑی ہندو انتہا پسند حکومت ہے لیکن امریکا اور اس کے اتحادی ہر وقت اس سے آشیر باد لینے کیلئے بھارت کے پاؤں چھوتے نہیں تھکتے جبکہ پاکستان جو دنیامیں دہشت گردی سے متاثر ہونا والا سب سے بڑا ملک ہے ایسے دیوار سے لگایا جا عرہا ہے۔امریکا جس مسلم کے خلاف ٹانگ اڑاتا ہے تمام غیر مسلم ممالک اس کے ساتھ صف آرا ہو جاتے ہیں ، لیکن مسلم ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہونے پر انھیں سانپ سونگھ جاتا ہے۔ بادشاہی مسلم حکومتیں عیاشی میں ڈوبی ہوئی ہیں ، بلکہ فرقہ واریت کو ہوا دیکر مسلمانوں کے درمیان اتفاق پیدا کرنے کے بجائے انارکی پیدا کر نے کی بھرپور کوشش کرتی ہیں۔غیر مسلموں کی ثالوں سے عراق ، کویت اور افغانستان پر تو قبضہ کرچکے اور اب شام ، مصر ، یمن بھی ان کے اشارے پر ملک میں انتشار بھیلا چکا ہے۔سوال یہی ہے کہ سب تمامممالک کو تو ہیں رسالت ؑ ﷺ اور توہین قرآن کے قانون سازی پر اعتراض نظر آٹا ہے لیکن پوری دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اس پر انھیں کوئی اعتراض نہیں ہے اس کے لئے کوئی قانون سازی نہیں کی جاتی ۔ ہم مسلمانوں کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ ہم حضرت محمد ﷺ کے ساتھ ساتھ تمام انبیا و رسول کو مانتے ہیں تما م الہامی کتابوں کو مانتے ہیں اس کے بغیر تو ہمارا ایمان ہی مکمل نہیں ہوتا اور انھیں مانے بغیر ہم مسلمان ہی نہیں کہلائے جاسکتے ،۔اور اسی بات کا یہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ دنیا بھر میں جتنی بھی زیادتیاں ہو رہی ہیں ، اس کا مدوا کوئی نہیں کرتا، لشکر کشی کرنے کیلئے کھربوں ڈالر ضرور خرچ کردیتا ہے اور پھر سالوں اس ملک کو لوٹنے کے بعد" سوری "کہہ کر جمہوریت کا راگ الاپ کر چلا جاتا ہے کہ یہ ان کا آپسی کا معاملہ ہے ، اقوام متحدہ کچھ نہیں کرسکتی۔مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم طاقتوں کے جبر کی نشاندہی کا سلسلہ جاری رہیگا۔انشا ء اﷲ ۔ لیکن اس مقصد صرف یہی ہے کہ غیر مسلم ، مسلمانوں کو سب سے بڑا مظلوم سمجھیں۔ انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں ، ذرا یہ توبتا دو کہ مسلمانوں کے انسانی و مذہبی حقوق کا عالمی قانوں کب بنے گا اور کون بنائے گا اور منظور کریں گی؟۔ مسلمانوں کا پوسٹ مارٹم کب ختم ہوگا ؟؟

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 659370 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.