ہٹلر اپنے ساتھ کئی ایسے راز بھی دنیا سے لے کر رخصت
ہوگیا جن سے پردہ اٹھانے کے لیے تاریخ دان اور ماہرین آج بھی کوشاں ہیں-
انہی رازوں میں ایک زیرِ زمین خفیہ ایٹمی پلانٹ بھی شامل ہے جو کہ ماہرین
کی ایک ٹیم نے حال ہی میں دریافت کیا ہے-
ماہرین کی ایک ٹیم نے زیرِ زمین ایسی خفیہ سرنگیں دریافت کی ہیں جن کے بارے
میں ان کا کہنا ہے کہ یہاں نازی کیمیائی بم تیار کیا کرتے تھے- یہ سرنگیں
انتہائی پیچیدہ ہیں اور ان میں داخل ہونے والے کو واپسی کا راستہ کافی مشکل
سے ملتا ہے-
|
|
یہ سرنگیں یا کیمیائی پلانٹ 75 ایکڑ کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور گزشتہ
ہفتے آسٹریا کے قصبے St Georgen کے نزدیک سے دریافت کیا گیا ہے-
اس علاقے میں کھدائی کا آغاز اس وقت کیا گیا جب محققین کی ایک ٹیم نے جانچ
پڑتال کے دوران یہاں تابکاری کی سطح کو بلند پایا- اور محققین کا دعویٰ ہے
کہ اس مقام پر نازی کیمیائی ہتھیار تیار کیا کرتے تھے-
Andreas Sulzer جو کہ ایک ڈاکیومینٹری میکر ہونے کے ساتھ اس ریسرچ ٹیم کے
سربراہ بھی تھے٬ کا کہنا ہے کہ “ امکان ہے کہ یہ سب سے بڑا کیمیائی
ہتھیاروں کی پیداوار کا پلانٹ ہو“-
|
|
خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس پلانٹ کو زیرِ زمین B8 Bergkristall نامی
فیکٹری سے منسلک کیا گیا تھا- یہ وہ فیکٹری تھی جس نے سب سے پہلا آپریشنل
لڑاکا طیارہ بنایا تھا- اس طیارے کو Messerschmitt Me 262 کا نام دیا گیا
تھا-
دوسری جانب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ان سرنگوں کا رابطہ Mauthausen-Gusen
نامی حراستی کیمپ سے بھی منسلک تھا- اور کیمپوں سے قیدیوں کو لا کر ان
دونوں کمپلیکس کی تعمیر میں استعمال کیا جاتا تھا-
ان قیدیوں کی تعداد تقریباً 3 لاکھ 20 ہزار تھی اور وہ یہاں کی سخت زمین پر
بطورِ مزدور استعمال کیے گئے-
ان سرنگوں کا داخلی راستہ کھدائی کرنے والی ٹیم نے دریافت کیا- یہ ٹیم
تاریخ دانوں اور سائنسدانوں پر مشتمل تھی اور انہوں نے یہ راستہ جاسوسی کی
دستاویزات اور اس دور کے گواہوں سے حاصل کردہ معلومات کی مدد سے تلاش کیا-
اب یہ ٹیم سرنگوں سے مٹی کی تہوں اور کنکریٹ کے ہٹانے میں مصروف ہے- اس کے
علاوہ یہاں سے گرینائٹ کی وہ بھاری پلیٹیں بھی ہٹائی جارہی ہیں جن کی مدد
سے سرنگوں داخلی راستوں کو چھپایا گیا تھا-
ان سرنگوں سے نازی دور کے کئی اشیا دریافت کی گئی ہیں جن میں قابل ذکر ایس
ایس افواج کے ہیلمٹ ہیں-
|
|
مسٹر Sulzer کا کہنا ہے کہ “ یورپ بھر میں حراستی کیمپوں میں موجود قیدیوں
کو ان کی خصوصی مہارت کے اعتبار سے استعمال کیا جاتا ہے- چاہے وہ طبعیات
میں ماہر ہوں یا کیمیا دان ہوں یا پھر کسی اور طرح کے ماہر“-
“ اور اس پلانٹ کی تعمیرات بھی ظاہر کرتی ہیں کہ یہاں پر حراستی کیمپوں کے
قیدیوں سے ہی کام لیا گیا ہے“-
“ چند ثبوتوں کی بنا پر یہ پتہ چلتا ہے کہ اس کیمیائی ہتھیاروں کے اس خفیہ
منصوبے پر ایس ایس جنرل Hans Kammler کے زیر سرپرستی کام کیا جارہا تھا“-
یہ وہ جنرل تھا جس نے Auschwitz نامی حراستی کیمپ میں گیس چیمبر اور لاشوں
کی بھٹی بنانے کے منصوبے کی منظوری دی تھی اور یہی جنرل ہٹلر کے میزائل
پروگرام کا انچارج بھی تھا-
|
|
جنگ کے بعد آسٹریا نے ان سرنگوں کو کنکریکٹ کی مدد سے مضبوظ بنانے کے لیے
10 ملین پاؤنڈ خرچ کی تھے- لیکن مسٹر Sulzer اور ان کے حامیوں کا خیال ہے
کہ وہ اس خفیہ حصے کو چھپانا بھول گئے جہاں جوہری ریسرچ کی جارہی تھی-
لیکن ابھی ان سرنگوں پر مزید ریسرچ کی جارہی ہے اور بہت سے رازوں سے پردہ
اٹھنا ابھی باقی ہے-
اس سے قبل جون 2011 میں بھی ہٹلر کے خفیہ ایٹمی پروگرام کا ایٹمی مواد
Hanover کے قریب ایک پرانی نمک کی کان میں دریافت کیا گیا تھا-
یہ جوہری مواد 1 لاکھ 26 ہزار بیرل سے بھی زائد تھا جو کہ کان کی زمینی سطح
سے 2 ہزار فٹ گہرائی میں دریافت کیا گیا-
یہ افواہ بھی سننے میں آچکی ہے کہ یہاں ان کیمیائی سائنسدانوں کی باقیات
بھی موجود ہے جو اس خفیہ ایٹمی پروگرام پر کام کر رہے تھے- |