تاریخی بیوی

ہمارے خیالِ ناقص کے مطابق اَمَر ہونے کی خواہش ہر ا نسان کی بنیادی خواہشات میں سے ہے۔بچوں کو مختلف جگہوں پر اپنا نام لکھتے پایا جاتا ہے، یہ ان کی لاشعوری خواہش ہے جو دنیا میں اپنا نقش چھوڑ نا چاہتی ہے۔ بہت سے انسانوں کو ایسا کرنے کا موقع ملتا ہے لیکن وہ ایسا کر نہیں پاتے، چند ایک کر جاتے ہیں اور امر ہو جاتے ہیں۔بہت سوں سے تو موقع ہاتھ ہی نہیں ملاتا اور وہ غبارِ راہ کی طرح دنیا کی گذر گاہوں میں بکھر جاتے ہیں۔

ہمیں شعور سنبھالتے ہی جس خواہشِ نا تمام نے پریشان کیا اور کئے رکھا وہ تاریخ کے صفحات میں اپنا نام درج کروانے کی خواہش تھی۔ہم نے اپنی سرتوڑ کوشش کر کے یقین کر لیا اور مایوس ہونے کے بعد مطمئن بھی ہو گئے کہ ہم تاریخ کے صفحات کی زینت بننے کے کسی طور بھی اہل نہیں ہیں۔اس مایوسانہ یقین دہانی کے بعد ہمارے دل شریف نے شرافت اختیار کی اور تاریخ میں دلچسپی ختم کر دی کیونکہ جس گاؤں جانا نہ ہو اس کا پتہ پوچھنے کا کیا فائدہ۔ہم نے سائنس کی سنگینیوں سے جان چھڑائی اور ادب کی رنگینیوں میں کھو گئے۔شاعری سے لو لگائی،تنہائی کو لفظوں کی صنائی کی دکان بنانے کی مقدوربھر کوشش کی۔زندگی کا اچھا وقت گذرتے ہی شادی کی لپیٹ میں آگئے۔اور باقی زندگی اسی اسیری کی انگ ریزی میں بسر کرنے میں عافیت محسوس کی۔

کچھ دن قبل ہماری حیرانی آسمان تک بلند ہو گئی جب دفعتاً ہمیں یہ ادراک ہوا کہ ہماری بیوی کوئی عام بیوی نہیں،بلکہ ہمیں تو قدرت نے پہلے ہی ایک تاریخی بیوی دے رکھی ہے اور ہم ناشکرے انسانوں کی طرح اس احسانِ عظیم سے بے خبر ہوتے ہوئے نا شکری کے مرتکب ہو رہے۔

مجھے لگتا ہے کہ آپ کے کان کھڑے ہو رہے ہیں کہ میں جلدی سے آپ کو بتا دوں کہ میری بیوی تاریخی کیسے ہے۔لیکن مجھے ایسا کرنے کی جلدی نہیں ہے۔لیکن میں آپ کو بتانے کے لئے ہی تو آپ سے بات شیئر کر رہا ہوں ورنہ اپنے گھر کے راز دوسروں کے گوش گذار کون کرتا ہے۔

کچھ دن پہلے ہمارے کالج میں لیپ ٹاپ کی تقسیم کی تقریب ہوئی جو کہ کالج کی ہسٹری کی ایک بہت بڑی تقریب تھی۔اس میں تمام ضلع سے لوگ آئے تھے اور بہت حساس کام کی وجہ سے ٹنشن بھی کافی تھی۔کالج کے دوسرے سٹاف کی طرح ہماری بھی ڈیوٹی لگی۔اتفاق سے یا حسنِ اتفاق سے یہ ڈیوٹی کالج کے میں گیٹ پر تھی۔اور وہ ڈیوٹی یہ تھی ہم کسی غیر متعلقہ شخص کو کالج کے اندر نہیں آنے دیں گے۔خوش قسمتی سے ہمارے گیٹ سے طالبات کی انٹری تھی۔یعنی وہ طالبات جن کو لیپ ٹاپ ملنے تھے۔اور ان کے ساتھ آنے والے تمام لواحقین کو گیٹ پر روکناتھا۔

اس موقع پر گرلز کالج کا سٹاف بھی ہمارے کالج میں ڈیوٹی دینے تشریف لا رہا تھا۔صبح سات بجے سے ہی لوگوں کی آمد آمد تھی۔ اور دس بجے تک تو اچھا خاصا رش گیٹ سے اندر اور باہر ہمیں پریشان کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔یہ وہ وقت تھا جب ہمیں ایک بہت بڑا گیان حاصل ہوا۔آپ کو اب بھی بڑا تجسس ہے کہ میں ٹو دی پوائنٹ بات کر کے بات ختم کروں ،تو کیا میں نے ادب کا مطالعہ نہیں کیا اگر ادیب لوگ اور شاعر ٹو دی پوائنٹ بات کرنے لگ جائیں تو کتابوں کے کاروبار کا تو بھٹہ ہی بیٹھ جائے اور کوئی اپنے اوپر ذمہ داری بھی لینے کے لئے تیا ر نہ ہو گا۔تو پھر ہم اتنی جلدی ٹو دی پوائنٹ بات کیوں کریں۔ویسے بھی جلدی جلدی بات کر کے ختم کر دینا اتنا اچھا اخلاق نہیں ہے۔ادبی اخلاقیات یہ ہے کہ بات مزیدار بنا کر پیش کی جائے چاہے چاہے چار صفحوں کی بات ،کرتے کرتے چارسو صفحات سے بھی زیادہ پر پھیل جائے ا۔سے ہم ادب کا حسن اور ادیب کی مہارت سے تعبیر کریں گے۔ویسے بھی عام قاری کو کون سی سمجھ آتی ہے کہ اس کے ساتھ مصنف کیا کر رہا ہے وہ تو زبان و بیا ن کے مزے میں بات کی معقولیت سے ہاتھ دھو بیٹھتاہے۔لیکن ہم نے سائنس بھی پڑھی ہے جو ہمیں سائنسی اخلاق کی یاد دلا کر ٹو دی پوائنٹ بات کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

لیکن افسوس جب ہم اپنے آپ کو دیکھے بغیر دوسروں کی نوجوان بیویوں پر نظر ڈالتے یا نظر اٹھاتے ہیں تو ہمیں اپنی بیوی پرانی پرانی، بوڑھی بوڑھی غیر غیر لگنے لگتی ہے۔ ایسا یقین سا ہو جاتا ہے کہ ہم اس زمانے کے ہیں اور وہ محترمہ ماضی کے کسی دور کی ہے۔ شاید مغلیہ دور سے تعلق رکھتی ہو یا خاندانِ غلامہ کی کوئی شہزادی ہو لیکن ایک بات طے ہے کہ وہ زمانے کی کسی پرنی تہہ سے ہے ۔ اس دور کی بالکل نہیں ہے۔ہم تاریخ کا مطالعہ نا رکھنے پر اپنے آپ کو کوسے بغیر نہیں رہ پاتے کہ کتنی شرمساری کی بات ہے کہ ہمیں اتنا بھی نہیں پتا کہ ہماری ذوجہ عالیہ کس زمانے کی پیداوار ہیں۔ ہمیں بہت بہت شرم محسوس ہوتی ہے کہ کسی کو بتا بھی نہیں سکتے۔ہم اپنے تاریخ پسند دوستوں سے معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس زمانے میں اچھی خواتیں کیسی ہوا کرتی تھیں، لیکن افسوس ہمیں تسلی بخش جواب نہیں مل پاتا لیکن اس سے ہمارے اس یقین کو کوئی گزند بھی نہیں پہنچتی کہ ہماری بیوی تاریخی ہے۔

لیکن اس وقت تو ہماری شریکِ حیات وممات اور بھی زیادہ تاریخی ہو جاتی ہے جب ہم کسی نوجوان لڑکی کو دیکھ لیتے ہیں۔ہماری طبیعت پر ایسے گرانی ہے جیسے ڈی موکلیز کے ہاتھ سے تلوار گر گئی ہو۔اتنا بڑا تضاد۔ ہم اس بات سے سر پٹا کے رہ جاتے ہیں کہ ہمارے ساتھ زمانے کے کیا کر دیا ۔ ہم کس زمانے کے اور ہماری شریکِ سفر کس زمانے سے، ہم حیرانی میں ڈوبے چلے جاتے ہیں کہ ایک ہی زمانے میں اتنے بُعد کے زمانے کیسے اکٹھے ہو گئے؟لیکن حقیقت ہے کہ ہوگئے۔ہم اپنے سر کو کھجاتے کھجاتے قدرت کی بالا دستی کو با دلِ ناخواستہ قبول کرتے کرتے اس چیز پر اکتفا کرتے ہیں کہ چلیں جو بھی ہے ہمیں معلوم تو ہو کہ ہماری ذوجہ عالیہ کس زمانے سے ہے، اس صورت میں وہ اور بھی گہرے ماضی میں چلی جاتی ہے ہم کبھی مہنجودوڑو کے کھنڈرات کی خاک چھاننے نکل جاتے ہیں اور کبھی بابل و نینوا کی تہذیبوں میں کھو جاتے ہیں اور کبھی سلطنتِ روماکا خیال کرتے ہیں۔لیکن ہمیں کہیں بھی گوہرِ مراد ملنے کا نہیں ، ہم نے شاید اس معاملے میں بے نیلِ مرام ہی رہنا ہے ،چلیں جو زمانے کی مرضی، کیا کیا جا سکتا ہے۔

یہ بات ہمارے لئے کسی ستم لا انتہا سے کم نہیں رہتی اگر غلطی سے یا بغیر غلطی سے کسی ایسی نوجوان لڑکی کو دیکھ لیں جس کے بال کھلے، کپڑے تنگ؛ دل کھلا ، جیب نہنگ ہو۔ ہمیں اور کوئی خیال آنے سے پہلے یہ خیال آتا ہے کہ اس کا اورہماری عالیہ کا کیا ایک ہی زمانہ ہے ۔ ہمارے دل سے ایک بہت بڑی ـ’ـنہیں‘ نکلتی ہے اور ہماری عالیہ ماضی کے نامعلوم زمانوں میں کھو جاتی ہے۔ ہم اس کا سراغ لگانے جلدی جلدی گھر سے نکلتے ہیں اور معلوم زمانوں تک گھر واپس نہیں آتے۔

لیکن اس وقت ہمیں اپنی شریکِ حیات شریکِ دل وجان بھی لگتی ہے جب ہم کسی عمر رسیدہ ضعیف مائی کو دیکھتے ہیں جو لاٹھی ٹیکتے ٹیکتے چل رہی ہو ۔ہمیں اپنی شریکِ حیات پر رشک اور کسی حد تک اپنے آپ پر بھی رشک آتا ہے کہ دونوں ایک ہی زمانے سے متعلق ہیں؛ ویسے بھی انیس بیس کا فرق تو کوئی فرق نہیں ہوتا۔ہمیں اپنی عالیہ کی تاریخِ پیدائش جاننے کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کیونکہ اس معاملے میں ہم ان سے سینیئر ہیں اور انسان کو اپنے سینیئر کی عزت کرنی چاہئے۔وہ ہمیں اسی زمانے کی لگتی ہے جس میں ہم خود بھی جی رہے ہیں۔

جب ہم اپنے آپ کو آیئنے میں دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنی بیوی اسی زمانے کی محسوس ہوتی ہے جس میں ہم بھی اپنا وجود رکھتے ہیں۔ کیونکہ اپنا حلیہ دیکھ کر اپنی بیوی کو دیکھنے میں حکمت ہے ،آدھے سے زیادہ سر پر پارسائی کا راج قائم ہونا اس بات کی یقین دہانی ہے کہ ہماری بیوی اسی زمانے کی ہے،اپنے چہرے مبارک پر گذرتے سالوں کے صدیوں پرانے آثار جو یقینی طور پر کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں اس بات کی گوہی ہیں کہ ہماری بیوی اسی زمانے سے ہے جس سے ہم ہیں،آنکھوں کی دور بین کا آہستہ آہستہ خوردبین میں تبدیل ہونا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہم اور ہماری بیوی ہم عصر ہیں۔

یہ خیالات ہمارے اپنے ہیں آپ کے اپنی عالیہ یا اپنے عالی کے متعلق کیا خیالات ہیں ہمیں ان سے کوئی سروکار نہیں اس لئے آپ کو ہمارے خیالات کی بنا پر اپنے خیالات تبدیل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور آپ کر بھی لیں تو ہمیں آپ پر اعتراض کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔یہ بات بھی مدِ نظر رہے کہ آپ کی شریکِ حیات ِ عالیہ یا شریکِ حیاتِ عالی بھی تاریخی ہیں لیکن اس حقیقت کے ادراک کی ذمہ واری آپ اور صرف آپ پر ہی نافذ ہوتی ہے۔
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 284281 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More